جعلی ڈومیسائل والوں کیخلاف بھرپور کارروائی کی جائیگی، عثمان کاکڑ

اسلام آباد /کوئٹہ:سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کے چیئرمین و سینیٹ میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈرسینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ دوسرے صوبوں کے لو جعلی ڈومیسائل بنوا کر پشتون بلوچ مشترکہ صوبے کے نوجوانوں کا حق مار رہے ہیں وفاقی محکموں اور کارپوریشنوں کے ساتھ وزارت پیٹرولیم اور اس کی تمام کمپنیاں بلوچستان کے ڈومیسائل پر بھرتی ہونے والے ملازمین کی تفصیلات کمیٹی ممبران کو فراہم کریں یہ پشتون بلوچ صوبے کا بہت بڑا ایشو بن چکا ہے۔جعلی ڈومیسائل والوں کے خلاف بھر پور کاروائی عمل میں لائی جائے گی اور اس مکروہ دھندے میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گاتفصیلات کے مطابق سینیٹ کی کمیٹی برائے کم ترقی یا فتہ علاقہ جات کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاس میں منعقد ہوا۔فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں 17دسمبر 2019کو منعقد ہونے والے کمیٹی اجلاس میں دی گئی سفارشات پر عملدرآمد کے علاوہ 30اکتوبر 2017کو ایوان بالا کے اجلاس میں صوبہ بلوچستان کے گیس کے گھریلو صارفین کیلئے قدرتی گیس سلیب کے ریٹس کے حوالے سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد پر عملدرآمد،سابق فاٹا، پاٹا اور مالاکنڈ ڈویژن کے پسماندہ علاقہ جات کیلئے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران، ایس این جی پی ایل کی ڈیولپمنٹ سکیموں اور نیٹ ورک کی توسیع،سابق فاٹا، پاٹا اور مالاکنڈ ڈویژن کیلئے ودہولڈنگ ٹیکس سے استثنی کے علاوہ، ماڑی پیٹر ولیم کمپنی لمٹیڈکے سی ایس آر میں اساتذہ اور سپورٹنگ سٹاف کو مستقل کرنے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی کے اجلاس میں وفاقی وزیرانرجی و پیٹرولیم ڈویژن کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ سینیٹ میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ ایوان بالا کے گزشتہ روز منعقد ہونے والے اجلاس میں بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے کہ وزرا اور سیکرٹریز پارلیمنٹ کی کمیٹیوں میں شرکت نہیں کرتے چیئرمین سینیٹ معاملے کا نوٹس لے کر عملدرآمد کرائیں۔فنکشنل کمیٹی کو قدرتی گیس سلیب کے ریٹس کے حوالے سے متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد پر عملدرآمدکے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ گیس کے نرخ اوگرا متعین کرتا ہے اوگرا جو نوٹیفائی کرے گا اس پر عملدرآمد کیا جاتا ہے سلیب میں تبدیلی وزارت کے ذریعے اوگرا نے کرنی ہوتی ہے کمیٹی کو بتایا گیا کہ سردیوں میں اوسط 6سو یونٹ کا بل 30648روپے اور گرمیوں میں 88یونٹس کا اوسط بل 615روپے وصول کیا جاتا ہے پانچ سلیب متعین کئے گئے ہیں جو بلترتیب 300،523، 731،1107اور 1407کے سلیبز ہیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہمارے صوبے میں 85فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں نہ ہی انہیں سہولیات میسر ہیں اگر وہ منفی 15درجہ حرارت میں 30ہزار کا بل ادا کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے۔ انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی بھی غریب لوگوں کو 3ہزار فی ماہ ملتا ہے سخت سردیوں میں چھوٹے بچوں کی اموات اور بزرگوں کی بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے جن علاقوں سے گیس نکلتا ہے وہاں کی عوام کو نہ ہی گیس ملتا ہے اور نہ ہی روزگار کے مواقع ملتے ہیں۔ سرمایہ کاروں، صنعت کاروں،ایکسپورٹرز، کھاد فیکٹریوں اور جاگیرداروں ودیگر کو اربوں روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے اور غریب لوگوں کو مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے 2630فی ماہ بل فکس کیا تھا مگر اس پر بھی عملدرآمد نہیں کیا گیا وزیر توانائی نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ صفر سے پانچ سو، 5سو سے 1ہزار اور 1ہزار سے 15سو کے سلیبز بنا کر وصول کئے جائیں تا کہ ہمارے صوبے کے پسماندہ علاقوں کو کچھ ریلیف مل سکے۔ ایم ڈی سوئی سدرن نے کمیٹی کو بتایا کہ اوگرا نے پورے ملک کے لئے ایک پرائس مقرر کر رکھی ہے۔ صوبہ بلوچستان اور پسماندہ علاقوں کیلئے حکومت علیحدہ رعایتی ریٹس مقرر کر سکتی ہے۔ سینیٹر سرفراز احمد بگٹی نے کہا کہ سی ایس آر کے بے شمار بروجیکٹس کاغذوں میں نظر آتے ہیں مگر گراونڈ پر کچھ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں سے گیس نکلتی ہے اوگرا سیکشن فور لگانے کی بجائے کرایہ پر زمین حاصل کرتا ہے اربوں روپے دیئے جاتے ہیں بے شمار جگہوں پرجھگڑے بھی ہیں جہاں مالکان زیادہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت کے ساتھ 30سالہ معاہدے کی مدت ختم ہونے جا رہی ہے اب نیا معاہدہ ہونے جا رہا ہے معاہدے کو عوام کے سامنے لایا جائے کہ کیا مرعات دی جائیں گی۔ جس پر ایم ڈی ا وگرا نے کہا کہ اصل مالکان سے حاصل کی جاتی ہے ورنہ سیکشن فور لگایا جاتا ہے۔ فنکشنل کمیٹی نے گیس اور پیٹرولیم کے حوالے سے گزشتہ بیس برسوں کے دوران کئے گئے معاہدات کی تفصیلات طلب کر لی۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اوگرا کے 13 انجینئرز کو عرصہ دراز سے مستقل نہیں کیا جا رہا معاملہ سینیٹ اجلاس میں بھی اٹھایا گیا متعلقہ انجینئرز نے مختلف جگہوں پر ہرتالی کیمپ بھی لگائے ہیں۔ایم ڈی اوگرا نے کمیٹی کو بتایا کہ عدالتوں نے قواعدو ضوابط کے مطابق ان کو مستقل کرنے کا فیصلہ دیاتھا ان کے لئے این ٹی ایس کے ذریعے امتحان منعقد کرایا تھا مگر ان انجینئرز نے امتحان میں شرکت نہیں کی۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ان انجینئرز کو آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت مستقل کیا جاسکتا ہے پانچ ہزار اساتذہ بھی ریگولر ہوئے ہیں۔ فنکشنل کمیٹی نے 13 انجینئرز کو مستقل کرنے کی سفارش کر دی۔فنکشنل کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ سوشل ویلفیئر کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس میں اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، تحصیل کونسل، یونین کونسل، ڈسٹرکٹ ناظم اور تحصیل ناظم ودیگر کو شامل کیا گیا ہے مگر سینیٹ آف پاکستان کے اراکین کو شامل نہیں کیا گیا کمیٹی ہدایت کرتی ہے کہ متعلقہ ڈویژن و علاقے سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کو بھی شامل کیا جائے۔ ایئر مکسڈ پلانٹ کے حوالے سے سیکرٹری پیٹرولیم نے کمیٹی کو بتایا کہ جب یہ منصوبے بنائے گئے تھے تب ان کی لاگت کو نہیں دیکھا گیا تھا اوارن کا کمیشن ہو گیا ہے باقی جگہوں کے ایئر مکس کو روک دیا گیا ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے علاقوں کیلئے گیس کی سپلائی کیلئے پائپ لائن کا کہا تھا مگر ایئر مکس پلانٹ کے منصوبے دیئے گئے اس کیلئے زمین بھی الاٹ کروا دی گئی، ٹینڈر بھی ہو گئے اور اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ پلانٹ بہت مہنگے ہیں صرف وزیراعلی بلوچستان کے علاقے کے علاوہ تمام پلانٹس کو روک دیا گیا ہے جو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔پشتون بلوچ مشترکہ صوبے کی عوام کو ان کا ہر بنیادی حق دیا جائے گا اور اس کے لئے معاملے کو ہر اہم فورم پر بھر پور طریقے سے اٹھایا جائے گا۔ فنکشنل کمیٹی نے ایئرمکس پلانٹ کے حوالے سے آئندہ اجلاس میں وزارت خزانہ کو طلب کر لیا۔سینیٹر فدامحمد نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں تین کمپنیاں کام کر رہی ہے مگر مقامی لوگوں کو کوئی سہولت نہیں دی جا رہی ان کمپنیوں میں دیگر صوبوں سے لوگوں کو بھرتی بھی کیا گیاہے اور نہ ہی مقامی آبادی کیلئے کوئی مرعات دی گئی ہیں۔ جس پر کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں مول کمپنی کو طلب کر لیا۔ود ہولڈنگ ٹیکس چارج کرنے کے حوالے سے کمیٹی نے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ قانون کے مطابق مقامی ڈومیسائل والے تمام افراد اہل ہیں اگر کوئی مس ہو گیا ہے تو ہم سے رابطہ کر سکتا ہے۔سینیٹر فدا محمد کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ صرف ایک سی این جی جس کا ڈومیسائل مقامی علاقے سے نہیں ہے سے ود ہولڈ ٹیکس چارج کیا جا رہا ہے۔ ماڑی پیٹرولیم حکام نے فنکشنل کمیٹی کو بتایا کہ گائیڈ لائن کے مطابق سوشل ویلفیئر کے کام کر رہے ہیں اور ان علاقوں میں تعلیم، صحت و دیگر سہولیات دینے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے اور پسماندہ علاقوں کے مقامی بچوں کو ساتھ لے کر چلنے پر کام کر رہے ہیں میڈیکل کیمپ لگائے جاتے ہیں، پانی کی سکیمیں بھی لگائی ہیں اور گائیڈلائن پر ایمانداری سے کام کر رہے ہیں اور سکولوں کو ڈیولپمنٹ بھی کیا ہے اگر صوبائی حکومت بلوچستان سرپرستی لے لے تو زیادہ فائدہ ہو گاصوبائی حکومت کو اس حوالے سے خط بھی لکھا ہے۔ جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ اساتذہ کو ڈیلی ویجز پر رکھا گیا ہے ان کو کنٹریکٹ پر کیوں نہیں لیتے لوگوں کو جاب سیکورٹی کا مسئلہ ہے اس لئے احتجاج پر کر رہے ہیں ایک طریقہ کار بنا کر ان کو جاب سیکورٹی دی جائے۔ سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ جب تک اساتذہ کو صوبائی حکومت مستقل نہیں کرتی تب تک یہ کمپنی ان کو کنٹریکٹ پر ہائر کرے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ لوگ جعلی ڈومیسائل بنوا کر صوبہ بلوچستان کے لوگوں کا حق مار رہے ہیں وزارت پیٹرولیم اور اس کی تمام کمپنیاں پشتون بلوچ مشترکہ صوبے سے تعلق رکھنے والے ملازمین کی تفصیلات کمیٹی کو فراہم کریں یہ ہمارے صوبے کا بہت بڑا ایشو بن چکا ہے۔جعلی ڈومیسائل والوں کے خلاف بھر پور کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز نگہت مرزا، کلثوم پروین، مولوی فیض محمد، فدا محمد، حاجی مومن خان آفریدی، سرفراز احمد بگٹی، گیان چند ا ور سردار محمد شفیق ترین کے علاوہ سیکرٹری پیٹرولیم، ایڈیشنل سیکرٹری پیٹرولیم، ایم ڈی سوئی سدرن، ایم ڈی سوئی ناردن، ایم ڈی اوگرا اور ماڑی پیٹرولیم، ایف بی آر کے حکام نے شرکت کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں