پارلیمنٹ میں گونگے بہرے لوگوں کو مسلط کردیا گیا ہے،اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے سمینار

کوئٹہ:بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ 18ویں ترمیم کے منظور ہونے سے قبل ہی اسکے خلاف سازشیں شروع کردی گئیں تھیں 18ویں ترمیم سے صوبوں کو منتقل ہونے والے اختیارات کو سلب کرنے کی سازش کی جارہی ہے اسی آڑ میں ملک میں صدارتی نظام نافذ اور پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے پارلیمنٹ میں گونگے بہرے لوگوں کو مسلط کردیا گیا ہے بلوچستان کی سیاسی جماعتیں اور عوام کسی بھی صورت 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کی اجازت نہیں دیں گی ۔یہ بات سابق وزیراعلیٰ و نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، بی این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری و سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ،پشتونخوامیپ کے صوبائی صدر و سینیٹرعثمان کاکڑ،عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی،جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمد، بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی و سابق سینیٹر سعیداحمد ہاشمی ،پاکستان مسلم لیگ بلوچستان کے صدر جعفر خان مندوخیل،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین و صوبائی مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ ، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی ،پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدرحاجی علی مدد جتک،جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے مولانا عبدالقادر لونی، جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی ،پاکستان نیشنل پارٹی عوامی کے سیکرٹری جنرل آصف بلوچ،پی ٹی آئی کے صوبائی صدر ڈاکٹر منیر بلوچ،پاکستان مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری نصیر خان اچکزئی،سینئر صحافی انورساجدی، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن نے کوئٹہ پریس کلب کی گولڈن جوبلی تقریبات کی مناسبت سے ’’18ویں ترمیم کی اہمیت اور ضرورت ‘ ‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔سابق وزیراعلیٰ نیشنل پارٹی کے صدرڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہا کہ 18ویں ترمیم جمہوری و قوم پرست قوتوں ،میثاق جمہوریت کی مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں 9ماہ کی جدوجہد کے بعد97آرٹیکل میں ترامیم کی گئیں جن میں ایل ایف او،17ویں ترمیم ،آمرانہ اقدامات کاخاتمہ کیا گیا خیبرپختونخوا کونام دیا گیا آرٹیکل 6کے تحت آئین توڑنے والے کو سزائے موت مقرر کی گئی معلومات کا حق فری ٹرائل ،مفت بنیادی تعلیم ،58ٹو بی کا خاتمہ سینٹ میں اقلیتوں کی 4نشستیں بڑھائی گئیں کنکریٹ لسٹ ختم کی گئی آرٹیکل 172بی کے تحت سمندر اوردریاوں میں نکلنے والی گیس و تیل پر صوبوں کو اختیار دیا گیا ہائیڈل پاور منصوبوں پر صوبے کی رضامندی شامل کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ ان تمام ترامیم سے صوبوں کو با اختیار اور فیڈریشن کو مضبوط کیا گیا لیکن وفاق ،صحت ،تعلیم ،زراعت ،نصاب سمیت دیگرمحکمے اور امور اپنے پاس رکھ کر آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہورہا ہے ۔انہوں نے واضح کیا کہ صحت،تعلیم ،زراعت ،مائنز 18ویں ترمیم سے پہلے بھی صوبوں کے پاس تھے 18ویں ترمیم کے بعدمحکموں کا بوجھ تو صوبوں کو دیا گیا لیکن آج تک بلوچستان کو کوئی اثاثہ نہیں ملا الٹا ہم نے 7ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز اور پانچ ہزار اساتذہ کو مستقل کرکے صوبے پر10ارب روپے کا بوجھ ڈالا ۔انہوں نے کہا کہ مقامی سطح پر بلدیاتی نظام کو بھی اختیارات منتقل ہونے چاہئے 18ویں ترمیم سے جو فوائد صوبے کو ملنے چاہئے تھے اگرچہ وہ نہیں ملے لیکن ہم پھر بھی اس ترمیم کے ساتھ ہیں اور اسکے خلاف کی جانے والی سازش اور این ایف سی میں اپنے حصے کو کم کرنے کی بھر پور مخالفت کریں گے۔ بی این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری و سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے طریقے شروع کئے گئے ہیں صوبوں اور وفاق کا نصاب الگ الگ ہے اوراسے ایک نہیں کیا جاسکتا سیاحت،ماحولیات اور صوبوں کے دیگر اہم محکموں کو وفاق اپنے پاس رکھ رہا ہے آمرانہ سوچ آج بھی موجود ہے صوبے کو رقبے کے لحاظ سے صرف2.7فیصد حصہ ملا ہے اس پر بھی وفاق پشیمان ہے وفاق اختیارات کو اپنے پاس رکھ کر ہمیں مظلوم و محکوم رکھنا چاہتاہے۔ انہوں نے کہا کہ آج تک سوئی گیس ،ساحل سمندر،سیندک ،ریکوڈک سے بلوچستان کو جو کچھ ملا وہ سب کے سامنے ہے جبکہ 18ویں ترمیم کے تحت یہ صوبے کے وسائل ہیں لیکن ان پر بھی وفاقی برجمان ہے 18ویں ترمیم کے بعد جو پیسے آئے وہ بھی درست سمت میں خرچ نہیں ہوسکے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کہ صوبے بھی 18ویں ترمیم کو جذب نہیں کرسکے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسے رول بیک کردیںصوبوں کو اپنی صلاحیت بڑھانے کی بھی ضرورت ہے 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنا صوبوں کو مکمل طور پر بے اختیار کرنے کا پہلا قدم ہے ہم اس کی بھر پور مذمت اورمزاحمت کریں گے ہمارا مطالبہ ہے کہ صوبے کو مزید اختیارات دینے کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائے۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے ایک حلقے پر امیدوار اپنے حلقے کا ساٹھ فیصد بھی دورہ نہیں کرسکتابلوچستان کی نشستیں بڑھائی جائیں۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں بیٹھے بیورو کریٹس اور سیاستدان اگر بلوچستان کا اتنا ہی غم رکھتے ہیں تو ہمارے لئے قانون سازی کریںپشتونخواملی عوامی پارٹی پنجاب کی بالادستی کو قبول نہیں کرتی ۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد سینٹ کے اختیارات کو بھی بڑھانا چاہئے اورسینیٹر براہ راست عوام سے منتخب ہونے چاہئے چیف جسٹس ،چیف آف آرمی اسٹاف ،چیف الیکشن کمشنر کو پارلیمنٹ سے وفاداری کاحلف لینا چاہئے تمام قومیتوں کو الگ الگ فیڈریشن یونٹ بنانے چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اس لئے لایا گیا ہے تاکہ صدارتی نظام حکومت کو نافذ ،18ویں ترمیم کورول بیک ،قوموں کو تقسیم ،عوامی سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ کو بے توقیر کرکے تمام سسٹم کو کنٹرول کیا جائے آج پارلیمنٹ کا اسپیکر بے اختیار ہے جو دوسری بار گنتی بھی نہیں کرواسکتا سی سی آئی کا سیکرٹریٹ 10سال گزرنے کے باوجود بھی نہیں بنا اسلام آباد میں40وزارتیں ڈویژن اور اتھارٹیاں ہیںاین ایف سی ایوارڈ میں حصہ کم کیا جارہا ہے ہمارامطالبہ ہے کہ وفاق کو بھی آبادی کے تناسب سے وسائل دیئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے ہزارں افراد لاپتہ ہیں جبکہ کہا جاتا ہے کہ صرف 148افراد لاپتہ ہیں،اسلام آباد میں صرف آئینی کورٹ ہونی چاہئے جبکہ ہر صوبے کی اپنی سپریم کورٹ بنائی جائے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر و پارلیمانی لیڈر اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ صوبائی خودمختاری کا نعرہ لگانے کو گناہ تصور کیا جاتاتھا سیاسی جماعتوں نے ہر لحاظ سے اٹھارویں ترمیم پر اتفاق رائے پیدا کیا ۔انہوں نے کہا کہ ماضی کی جو سیاسی جماعتوں میں الیکٹیبل تھے آج بھی وہی منتخب ہوکر ایوانوں میں آتے ہیں سیاسی جماعتیں یاتو الیکٹیبل شامل نہ کریں یا پھران سے حلف لیں کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے کہاکہ 18ویں ترمیم کو کالاباغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنایا جارہاہے عوامی مفادات کے خلاف قانون سازی کی بھر پور مخالفت کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ ملک پر تجربے بند کئے جائیں تمام مسائل کا حل آئین پر عملدرآمد میں ہے اگر ملک کوانہی پالیسیوں کے تحت چلایا گیا تو ملکی سالمیت داو پر لگے گی تمام سیاسی جماعتوں کو اٹھارویں ترمیم کے دفاع کیلئے ایک پلیٹ فارم پرآنا ہوگا۔جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان حافظ حسین احمدنے کہا کہ پریس کو پریس کرنا شرمناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے خون آلود ہونے کی وجہ معاہدوں کو توڑنا ،صلح صفائی کو سبوتاژ کرنا ،بات پر قائم نہ رہناہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساحل ووسائل ،حقوق،معدنیات کے حصول کیلئے جمہوری اور آئینی راستہ اختیار کرنا چاہئے لیکن کچھ لوگ زیادتیاں ہونے کی وجہ سے پہاڑوں پر بھی گئے کیونکہ آئین اور جمہوری انداز میں حقوق مانگنے والوں کو دیوار سے لگایا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں واضح کیا گیا ہے کہ صوبوں کو وسائل نچلی سطح پر بھی منتقل کرنے ہیں جو اب تک نہیں ہوئے ہمیں جذبات پر قابو رکھتے ہوئے مدلل انداز میں 18ویں ترمیم اور صوبے کے حقوق کا دفاع کرنا ہے۔،بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی و سابق سینیٹر سعیداحمد ہاشمی نے کہا کہ اداروں کے مضبوط اور پارلیمنٹ کے کمزور ہونے کی وجہ ہم خود ہیں ہمیںپارلیمنٹ کو مضبوط کرنا چاہئے تھا ریٹائرہونے کے بعد کسی پارلیمنٹرین کو کوئی مراعات نہیں ملتیں لیکن انہی پارلیمنٹرین نے دوسرے اداروں کے سربراہان کو مراعات دینے کی قانون سازی کی ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہہ کر تماشہ بنادیا ہے ضاء الحق کے دور میں بھی وہ الیکشن کروانا چاہتے تھے لیکن سیاسی لوگوں نے نہیں کرنے دیئے ۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کی حفاظت کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کو میرٹ پر لوگوں کو آگے لانا ہوگا پارلیمنٹ کو مضبوط کرناہوگا اسکے بغیر ہم کسی بھی دوسرے ادارے کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔انہوں نے کہا کہ ڈائیلاگ جمہوریت کا حسن ہے توقع ہے کہ آنے والی نسل پارلیمنٹ کو مزید مضبوط کریگی۔،پاکستان مسلم لیگ بلوچستان کے صدر جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ 18ویں ترمیم کو ختم اور رول بیک کرنے والے بہت مضبوط ہیںشاید وہ دو چار فون کرکے اپنا کام نکلوالیں لیکن یہ ملک کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا1973ء کے آئین کے بعد سب سے اہم ترین قانون سازی 18ویں ترمیم ہے جس میں صوبوں کو مستقل تحفظ دیا۔انہوں نے کہا کہ آج این ایف سی ایوارڈ میں بھی کمی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے18ویں ترمیم میں ترمیم کے بعددوسرے معاملات میں بھی حق تلفی ہوگی لیکن ہم اٹھارویں ترمیم کا حلیہ خراب نہیں کرنے دیں گے۔انہوں نے کہا کہ اسمبلیوں میں اگر غیر سنجیدہ لوگ ہونگے تو اس سے اٹھارویں ترمیم کو مزید خطرات لاحق ہونگے۔،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین و صوبائی مشیر کھیل عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم ختم نہیں ہونے جارہی اگر یہ ترمیم ختم بھی ہوگی تو اس میں بڑی جماعتوں کا ہاتھ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جدوجہد صرف مراعات کیلئے نہیں ہونی چاہئے اٹھارویں ترمیم کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتالیکن بلدیاتی نظام کو مضبوط نہیں کیا گیااٹھارویں ترمیم کے ثمرات اگر عوام تک نہیں پہنچیں گے تو اس کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں گی ۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں امن وامان بہتر ہوا ہے کرپشن کا خاتمہ کیا گیا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہاکہ اگر کسی کو اٹھارویں ترمیم پر اعتراضات ہیں تو وہ آرٹیکل ٹو آرٹیکل بات کرے آئینی وقانونی اور اخلاقی طور پر ہم اٹھارویںترمیم کورول بیک کرنے کا راستہ روکیں گے جی ایچ کیو والوں کو پارلیمنٹ میں بلایا جائے نہ کہ پارلیمنٹرین وہاں جائیں ۔انہوں نے کہا کہ 9ماہ کی جدوجہد 75اجلاسوں ،ساڑھے تین ہزارسے زائد دستاویزات کا مطالعہ اور مشاورت کے بعد اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی اسے کسی بھی صورت رول بیک نہیں ہونے دیں گے۔،پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدرحاجی علی مدد جتک نے کہا کہ شہید ذوالفقارعلی بھٹو نے اٹھارویں ترمیم کی بنیاد رکھی لیکن بدقسمتی سے سلیکٹڈ حکومت اسے ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے راتوں رات بننے والی پارٹیاں اب صوبے کی خودمختاری پرسمجھوتہ کررہی ہیں جو ہم نہیں ہونے دیں گے پیپلزپارٹی کو آج اٹھارویں ترمیم منظور کرنے کی سزا دی جارہی ہے لیکن ہم نے کبھی بھی عوام کے حقوق پر سودے بازی نہیں کی انہوں نے کہا کہ اگر اٹھارویں ترمیم کوختم کرنے کی کوشش کی گئی تواسکے بعد قوموں کو اکٹھاکرنا ناممکن ہوگا۔انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکرسٹے آرڈر پر چل رہا ہے اے پی سی کے بعد حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے حکومت کے دن گنے جاچکے ہیں عمران خان حکومت چھوڑ کرلندن فرار ہوجائیں گے۔جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے مولانا عبدالقادر لونی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم نے چھوٹے صوبوں کا دفاع کیا ہے ہمیں ترمیم کے دفاع کیلئے ایک ہونا ہوگابڑی سیاسی جماعتوں سے گلہ ہے کہ وہ نادیدہ قوتوں سے بھیک مانگتی ہیں ۔جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے کہا کہ میرشکیل الرحمن کو رہا کیا جائے اورصحافت سے پابندیاں اٹھائی جائیں اٹھارویں ترمیم منظور ہونے کے بعد پارلیمنٹ میں نو سال سے کوئی تعمیری کام نہیں ہوا صحت ،تعلیم سمیت دیگر محکمے تباہ ہوگئے ہیں عوامی خدمت کے جذبات کسی میں نہیںکرپشن کا ریٹ بڑھ گیا ہے اٹھارویں ترمیم پر بات ہوسکتی ہے ملک و قوم کے مستقبل کیلئے ہمیں کردارادا کرنا ہوگا ۔پاکستان نیشنل پارٹی عوامی کے سیکرٹری جنرل آصف بلوچ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کو مزید مضبوط کرکے صوبوں کومزید اختیار دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ معروضی حالات کونہ سمجھتے ہوئے جوفیصلے کئے جاتے ہیں اسکا عوام کو فائدہ نہیں پہنچتااگر یہی روش رہی تو ملک میں سدھار نہیں آسکتا ۔انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر چیز کو یکطرفہ طور پر چلایا جارہا ہے ہمیں جرات اور ہمت کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی کے صوبائی صدر ڈاکٹر منیر بلوچ نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہے کہ اٹھارویں ترمیم کو ختم کیا جارہا ہے بلکہ اس میں ترمیم کی ضرورت ہے حکومت قانون سازی میں توازن پیدا کرنا چاہتی ہے اگر کوئی چیز ٹھیک نہیں چل رہی تواس پر مشاورت کے بعد ترمیم کی جائے گی بصورت دیگر بلدیاتی نظام بھی تاخیر کا شکار رہے گا ۔انہوں نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان توازن پیدا کرنے اور ہم آہنگی کیلئے بھی چند ترامیم ناگزیر ہیں۔پاکستان مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے ایڈیشنل جنرل سیکرٹری نصیر خان اچکزئی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم نے صوبوں کو مضبوط کیا ہے سیاسی قیادت کو بلاجواز نشانہ بنایا جارہا ہے آج جو حالات ہیں اس میں ایک مخصوص ڈاکٹرائن کو فروغ دیا جارہا ہے ملک میں سیاسی نظام ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے ہم کسی بھی صورت اٹھارویں ترمیم کو ختم نہیں کرنے دیں گے۔ سینئر صحافی انور ساجدی نے کہا کہ ملک کے حالات کمپلیکس اور کنفلیکٹ کا شکار ہے، بدقسمتی سے یہ ریاست دو رائے پر کھڑی ہے جن کے پاس کوئی پروگرام اور وڑن نہیں ہے، صدارتی نظام پاکستان کے موجودہ حالات کے حق میں نہیں جمہوری نظام سے ہی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے مگر یہاں رویہ غیر جمہوری ہے نظام کا کوئی تعین نہیں ہے، مختلف ادوار میں سنسر شپ جاری رہی لیکن موجودہ حالات میں میڈیا میں بدترین سینسر شپ کی جا رہی ہے ، موجودہ حکومت نے میڈیا کے شعبے کو اختہ کردیا ہے عوام شعور رکھتی ہے صدراتی نظام، 18 ویں ترمیم کا خاتمہ ہوا تو یہ ملک نہیں چل سکتا، سچ بات نہیں کریں گے تو ہم اپنے قوم کے مجرم ہوں گے، 73 کے آئین کو چھیڑنے سے منفی اثرات مرتب ہوں گے 18 ویں ترمیم سے صوبے خود مختار اور وفاق پر بوجھ کم ہوا حالات کو دیکھتے ہوئے میں بلوچستان کے مستقبل سے مایوس ہوں انہوں نے کہا کہ گوادر سے لوگوں کے انخلا کی صورت میں لوگ کہاں جائیں گے آمریت میں سوال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اب بھی موقع ہے کہ سیاست دان سوال اٹھائیں سی پیک سے بلوچستان کے عوام کا مستقبل کیسے تبدیل ہوگا جہاں زندگی جینے کا حق نہ ہو۔ ترقی کے نام پر بلوچستان کو آدھا ملک ہے کی توہین کی جا رہی ہے سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کے حقیقی کردار کی ضرورت ہے افغانستان میں امن سے ہی یہاں امن قائم ہوگا۔ کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن نے کہا کہ کوئٹہ پریس کلب نے بلوچستان کی عوام کی خدمات کے 50 سال پورے کئے، ہمارے سینئرز نے صوبے کی عوام کیلئے کھوڑے کھائے اور جیلیں کاٹی انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم اہم کردار ادا کررہا ہے اس حوالے سے بلوچستان کے سیاسی قیادت کا موقف اہم ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں