ڈی جی آئی ایس پی آر کی وضاحت
اداریہ
آج کل اپوزیشن کی دونوں پارٹیوں (مسلم لیگ نون اور پی پی پی)کی اعلیٰ قیادت تواتر سے کہہ رہی ہے کہ مسلح افواج کو سیاسی معاملات میں سرے سے کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہیئے۔بلکہ یہ مسئلہ 11 جماعتی اجلاس کی 26 نکاتی قرارداد میں بھی نمایاں طور پر شامل ہے۔ماضی کے برعکس اس مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک انداز میں واضح کردیا ہے کہ 11جماعتی اپوزیشن کا اصل دکھ کچھ اور ہے۔ڈی جی نے علامتی طور پرمسلم لیگ نون کے رہنما اور سندھ کے سابق گورنرمحمد زبیر کا نام لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 26اگست کوآرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے پہلی اور7ستمبر کو د سری ملاقات کر چکے ہیں اور دونوں مرتبہ یہ ملاقات محمد زبیر کی درخواست پر ہوئی،اوردونوں بار محمد زبیر نے نوازشریف اور مریم نواز کی مشکلات کی بات کی۔انہیں جواب دیا گیا کہ قانونی معاملات عدالتیں طے کریں گی جبکہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے کئے جائیں، فوج کا اس حوالے سے کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔عین اسی لمحے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کیمرا (بند کمرے میں ہونے والی)گفتگو کو باہر نہیں آنا چاہیئے، انہوں نے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کا نام لئے بغیر کہا کہ جن کے کہنے پر وہ رازافشا کرتے ہیں، وہ انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کریں۔ اسی دوران وزیر ریلوے نے تقریباً تمام چینلز پر پارلیمانی قیادت کی آرمی چیف کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی دو ملاقاتوں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ مسلم لیگ نون کے دو اہم رہنماؤں احسن اقبال اور خواجہ آصف نے ہال کے ایک کونے میں دیر تک آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے ڈی جی جنرل فیض حمید سے ون آن ون(یا ٹو آن ٹو) ملاقات کی۔شیخ رشید احمد نے اپوزیشن کو چیلنج کیا ہے کہ وہ تمام ملاقاتوں کا مکمل ڈیٹا سامنے لا سکتے ہیں۔نون لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ وہ صرف اتنا جانتی ہیں کہ پارلیمانی لیڈرز کو گلگت بلتستان کی صورت حال پر مشاورت کے لئے بلایا گیا تھا لیکن سیاست دان بلانے پر بھی جی ایچ کیو نہ جائیں اور جی ایچ کیو کو کوئی مشاورت کرنا ہو تو پارلیمنٹ آئے۔ دونوں جانب سے وضاحت آنے کے بعد عام آدمی کم از کم اتنا ضرور جان گیا ہے کہ مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سیاست دان درخواست کرکے آرمی چیف سے وقت لیتے ہیں اوراپنی اعلیٰ قیادت کی جاں بخشی کی بات کرتے ہیں لیکن میڈیا کے روبرو مکر جاتے ہیں۔مسلح افواج کا اپنا ایک پروٹوکول ہے،بیان بازی کی جگہ عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے، ماضی میں سیاست دانوں کے بیانات کا جواب دینے کی روایت نہیں رہی مگر کچھ عرصے سے فوج نے اپنی ترجمانی کے لئے آئی ایس پی آر جیسا ادرہ تشکیل دے رکھا ہے اور وقتاً فوقتاً عوام کے سامنے بعض حقائق رکھنا شروع کر دیاگیا ہے۔رہی سہی کسر وزیر ریلوے پوری کر دیتے ہیں۔ وہ واحد سیاست دان ہیں جو فوج سے اپنے دیرینہ تعلقات بیان کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میڈیا کے سامنے فوج پر تنقید کرنے والے گیٹ نمبر چار سے جاتے ہیں اور وہیں رجسٹرڈ ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی شکایت سے بھی اس تأثر کو تقویت ملتی ہے کہ شیخ رشید احمد جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں صداقت ہے۔ جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والوں کوآج اس تکلیف دہ صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑتا اگر وہ ضرورت سے زیادہ دوغلے پن کا مظاہرہ نہ کرتے۔امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے دو تین روز پہلے ہی کہا تھا کہ صرف حکومت سلیکٹیڈ نہیں، اپوزیشن بھی سلیکٹیڈ ہے۔دونوں جب چاہتی ہیں مل کر قانون سازی کر لیتی ہیں اور پھر ایک دوسرے کی مخالفت کا ڈرامہ شروع کر دیتی ہیں، دونوں سے نجات درکار ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی وضاحت کے بعد صورت حال مزیدنکھرکر عام آدمی کے سامنے آگئی ہے۔ جمہوریت کے لئے سڑکوں پر ڈنڈے کھانے اور جیل جانے والے سادہ لوح کارکن آج دکھی ہیں۔شبہ تو انہیں بہت پہلے سے تھا مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے یا ماننے کو تیار نہیں تھے کہ ان کا لیڈر بھی گیٹ نمبر چار کی قطار میں لگا ہوا ہے۔مگریہ دن آکر رہنا تھا۔آج میڈیا برق رفتار ہے۔’ان کیمرا‘اور’آؤٹ آف کیمرا‘ میں اگر کوئی فرق تھا تب بھی ختم ہوچکا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی وضاحت سے لگتا ہے آئندہ جو سیاست دان بند کمرے میں کئے گئے وعدے کے خلاف بات کرے گا، اس کے شواہد اگلے لمحے میڈیا پر آ جایا کریں گے۔پردہ داری کا چلن آج بوجوہ ختم ہو گیا۔ایسا ایک دن ہوکر رہنا تھا۔جب ملک کے عوام بے رحم مافیا کے چنگل میں اس بری طرح پھنسے ہوں کہ امریکی سیاہ فام قیدی کی طرح مافیا سے سانس لینے کی مہلت طلب کرنے پر مجبور نظر آئیں تو چہروں سے نقاب اتارنا ضروری ہوجاتا ہے۔یاد رہے عوام کے حقوق کی جنگ مافیاز کے ایجنٹ نہیں لڑا کرتے۔اس جنگ کی قیادت باشعور عوام خود کرتے ہیں۔مافیاز کا کردار ہمیشہ عوام دشمن ہوتا ہے۔بھوک، بیماری اور بیروزگاری سب سے بڑے سیاسی استاد ہیں۔جدید ٹیکنالوجی نے شعور پھیلانے کے عمل کوتیز کر دیا ہے۔پرانی نسل جدید ٹیکنالوجی کے اس پہلو کا اندازہ لگانے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ پاکستان میں جوپرانی نسل سیاست پر قابض ہے،اس کی عمر طبعی پوری ہو چکی ہے۔اس کی دوسری بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ اس نے اپنی اولاد کو عوام کے قریب نہیں جانے دیا، ان کی اولاد کو عوام جانتے ہی نہیں، لیڈر کیسے مان لیں؟شیخ رشید احمد اپنی اولاد کو جانشین بنانے کی فکر سے آزاد ہیں۔انہیں چپ کرانا محلات میں رہنے والوں کے لئے ممکن نہیں۔