گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی تجویز، بھارتی کشمیر میں بھی بے چینی

سرینگر :پاکستان میں سیاسی رہنماؤں اور اعلیٰ فوجی حکام کے درمیان گلگت بلتستان کو عبوری طور پر ملک کا پانچواں صوبہ بنانے کے سلسلے میں اتفاق اور وزیرِ اعظم عمران خان کے باضابطہ متوقع اعلان پر بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی ہے۔

قوم پرست جموں کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے کئی رہنماؤں اور کارکنوں نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کی مخالفت اور بعض نے حمایت میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔

جے کے ایل ایف کے ایک رہنما راجہ مظفر نے فیس بک پوسٹ پر کہا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک قدرتی وحدت ہے۔ اسے کسی قیمت پر تقسیم نہیں ہونے دیں گے، خواہ یہ لداخ کو جموں کشمیر سے الگ کرنے کی بات ہو یا گلگت بلتستان کو تنازعۂ کشمیر سے الگ کرنے کی بات ہو۔

واضح رہے کہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ اور کئی ہم خیال تنظیمیں اور افراد جن میں کشمیر کے دونوں حصوں کی بعض مقتدر شخصیات بھی شامل ہیں، جموں و کشمیر کو ایک آزاد اور خود مُختار ریاست بنانے کے حق میں ہیں۔

راجہ مظفر کا کہنا ہے کہ ریاست کے حصے بخرے کرنے کے ہر عمل کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی چاہے ایسا بھارت کی طرف سے ہو یا پاکستان کی طرف سے۔

گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے منصوبے اور علاقے کی اسمبلی کے لیے انتخابات کرانے کے اعلان پر بھارت نے شدید احتجاج کیا ہے۔

جمعرات کو نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے اس پیش رفت پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ حکومتِ پاکستان یا اس کی عدلیہ کے پاس ایسے علاقوں پر جن پر غیر قانونی قبضہ کیا گیا ہے، کوئی ٹھوس پوزیشن نہیں ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ فوج کے زیرِ قبضہ نام نہاد ‘گلگت بلتستان’ کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے پاکستان کی طرف سے کسی بھی کارروائی کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔

ترجمان نے بھارت کے اس دیرینہ مؤقف کا اعادہ کیا کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے پورے علاقے بشمول گلگت اور بلتستان بھارت کا لازمی حصہ ہیں۔ بھارت اپنے اس دعوے کے حق میں یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ اس کے بقول جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے1947 میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تھے جس کی کشمیری سیاسی قیادت اور عوام نے تائید کی تھی۔

پاکستان نے 15 نومبر کو گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے جب کہ بھارتی حکومت نے اسی بنیاد پر گلگت۔ بلتستان اسمبلی کے لئے انتخابات کرانے کیبھیمخالف ہے۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو زک پہنچے گا بلکہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کا مؤقف کمزور پڑ جائے گا۔

یونیورسٹی آف کشمیر کے شعبۂ انگریزی کے سابق پروفیسر اور تجزیہ کار ڈاکٹر محمد اسلم کے مطابق اگر اسلام آباد ایک عبوری طور پر بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کے اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ خود ہی بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے بارے میں اپنا مؤقف کمزور کر دے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ گلگت بلتستان جموں و کشمیر کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور جموں و کشمیر اقوامِ متحدہ کے چارٹر پر ایک متنازع علاقے کی حیثیت سے اب بھی موجود ہے۔

پروفیسر محمد اسلم کے مطابق کشمیریوں کی ایک واضح اکثریت سمجھتی ہے کہ بھارتی حکومت نے پچھلے سال اگست میں کشمیریوں کی مرضی کے بالکل برعکس جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی۔ اگر پاکستانی حکومت گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بناتی ہے تو بہت سارے لوگوں کے لیے دونوں ملکوں کے کشمیر پر طرزِ عمل میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔

کئی سیاسی رہنماؤں نے عمران خان کی حکومت سے اس معاملے پر ازسرِ نو جائزہ لینے کی اپیل کی ہے۔جموں کشمیر کے بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ متنازع علاقے کو صوبہ بنانے کا اقدام بھارتی حکومت کی طرف سے پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات کی نقالی ہے۔

مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی رہنما محمد یوسف تاریگامی اس معاملے پر کہتے ہیں کہ "گلگت بلتستان جموں و کشمیر راجواڑے کا حصہ رہا ہے اس لیے اگر پاکستانی حکام اُسے ملک کا پانچواں صوبہ قرار دیتے ہیں تو یہ تاریخی اعتبار سے نامناسب فیصلہ ہوگا۔”

ان کے بقول جموں و کشمیر پر پاکستانی اور بھارتی حکومت کے الگ الگ مؤقف ہیں اور یہاں کے عام لوگ اپنی رائے رکھتے ہیں لہٰذا اس سلسلے میں جب تک طرفین کے درمیان اتفاقِ رائے نہیں ہو جاتا، کوئی بھی یکطرفہ فیصلہ ایسے مضمرات پر منتج ہو سکتا ہے جو ان میں سے کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہو گا۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے عام شہری اس معاملے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ اگرچہ ایک طرف کئی افراد نے سوشل میڈیا پر آکر پاکستانی حکومت کے مجوزہ اقدام کی مخالفت کی تو دوسری جانب کئی ایک کا کہنا ہے کہ گلگت۔بلتستان کو پاکستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے یا نہیں اس کا فیصلہ صرف وہاں کے عوام کر سکتے ہیں۔

کشمیری شہری مبشر وانی کہتے ہیں کہ "وادیٔ کشمیر میں رہنے والے مجھ جیسے لوگوں کی رائے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اگر گلگت بلتستان کے لوگ اُنہیں پاکستان کا پانچواں عبوری صوبہ بنانے پر راضی ہیں تو ہم کون ہوتے ہیں اس اقدام کی مخالفت کرنے والے۔

سری نگر کے ایک شہری منظور احمد نے کہا "ہم پاکستان کو ایک مضبوط قلعے کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان کی سالمیت اور مستحکم اور مضبوط ہونے میں ہی ہماری عافیت ہے۔ اگر گلگت۔ بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے سے اس کی طاقت میں اضافہ ہو گا اور اس کے مفادات کو تقویت ملتی ہے تو اس سے بڑھ کر خوشی ہمارے لیے کیا ہوسکتی ہے۔”

اگرچہ اب تک بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کے وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور اور دوسرے پاکستانی حکام کے گلگت۔بلتستان کو ملک کا پانچواں صوبہ بنانے کے بارے میں دیے گئے بیانات پر سرکاری سطح پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

نئی دہلی کی جانب سے کئی بار پاکستان کو یہ پیغام پہنچایا جاتا رہا ہے کہ جموں و کشمیر اور لداخ کے پورے علاقے بشمول گلگت اور بلتستان بھارت کا لازمی حصہ ہیں۔

بھارت کے بقول جموں و کشمیر کے آخری مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947 میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے جس کی کشمیری سیاسی قیادت اور عوام نے تائید کی تھی۔ بھارتی حکومت اسی بنیاد پر گلگت۔ بلتستان اسمبلی کے لیے انتخابات کرانے کی بھی مخالف ہے۔پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات 15 نومبر کو کرائے جائیں گے۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی نظریاتی سرپرست راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) عوامی طور پر گلگت۔ بلتستان کو ان کے بقول پاکستان کے ناجائز قبضے سے آزاد کرانے کا عہد کر چکی ہیں۔ لیکن دفاعی امور کے بعض ماہرین اور اور سیاسی تجزیہ کاروں نے بھارتی حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی کوشش سے باز رہے کیونکہ اس کے مضمرات بھارت کے حق میں نہیں ہوں گے۔

بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے معاون کی حیثیت سے کام کرنے والے سدھین کلکرنی کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے گلگت۔بلتستان کی بازیابی کی خواہش کو عالمی برادری ‘توسیع پسندی’ قرار دے گی۔

تاہم قومی سلامتی کونسل سیکرٹریٹ کی سابق ڈائریکٹر تارا کارتھا نے بھارتی نیوز پورٹل ٰدی پرنٹٰ پر شائع اپنے ایک مضمون میں یہ دلیل دی ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرنے کی تجویز دراصل ‘چین پاکستان اقتصادی راہ داری (سی پی ای سی) کی سرگرمی کو قانونی حیثیت دینے کا ایک دانستہ اقدام ہو گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں