ٹائٹینک کے ڈوبنے کی ایک بڑی وجہ 108 سال بعد سامنے آگئی
شمالی بحر اوقیانوس میں ٹائٹینک جسے ‘کبھی نہ ڈوبنے والا بحری جہاز’ قرار دیا گیا تھا، سمندر کے ٹھنڈے پانی میں ڈوب کر تاریخ کا حصہ بن گیا اور اب تک دنیا بھر میں لوگوں کی یادوں میں موجود ہے۔
14 اپریل 1912 کو نصف شب سے کچھ قبل ٹائٹینک ایک برفانی تودے سے ٹکرایا، جس کے نتیجے میں اس کے 6 واٹر پروف کمپارٹمنٹس کو نقصان پہنچا اور محض 2 گھنٹے بعد جہاز ڈوب گیا، جس میں اس وقت بھی ڈیڑھ ہزار مسافر موجود تھے۔
اب ایک نئی تحقیق میں عندیہ دیا گیا ہے کہ 14 اپریل 1912 کی شب زمین کے مقناطیسی کرے میں عارضی انتشار ٹائٹینک کے حادثے کا باعث بنا۔
جریدے ویدر میں شائع ہونے والی یہ تحقیق ایک موسمیاتی ماہر میلا زنکووا کی جانب سے کی گئی۔
عینی شاہدین نے برفانی تودے سے ٹائٹینک کے ٹکرانے کے بعد مضبوط ناردرن لائٹس کو آسمان پر دیکھا تھا۔
آر ایم ایس کارپیتھا کے سیکنڈ آفیسر جیمز بسیٹ (وہ بحری جہاز جس نے 15 اپریل کو علی الصبح ٹائٹینک کے 705 مسافروں کو بچایا تھا) نے 14 اپریل 1912 کی رات کو اپنی لاگ میں لکھا تھا ‘آسمان پر چاند نہیں تھا، مگر ناردرن لائٹس کی روشنی چاندنی کی طرح جگمگا رہی تھی’۔
ٹائٹینک کے حادثے میں بچ جانے والوں نے بھی صبح 3 بجے کے وقت اپنی لائف بوٹس میں آسمان پر ان روشنیوں کا ذکر کیا تھا۔
اس طرح کی روشنیاں سورج کی جانب سے تیز رفتار ذرات کے سیلاب کے اخراج کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شمسی طوفان سے بنتی ہیں۔
جب یہ ذرات زمین کے ماحول سے ٹکراتے ہیں تو زمینی ماحول کی گیسز کو توانائی ملتی ہے جس سے وہ سبز، سرخ، جامنی اور نیلے رنگ میں جگمگانے لگتی ہیں۔
یہ شمسی ذرات زمین کے برقی اور مقناطیسی سگنلز میں مداخلت بھی کرتے ہیں جس سے برقی ڈیوائسز کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔
اس تحقیق میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ یہ شمسی طوفان اتنا طاقتور تھا جو اس مقام پر ناردرن لائٹس کا باعث بنا جہاں ٹائٹینک برفانی تودے سے ٹکڑایا تھا۔
اس شمسی طوفان کے نتیجے میں اس کے مقناطیسی کمپاس اور جہاں کا الیکٹریکل ٹیلی گراف متاثر ہوئے تھے۔
شمالی بحر اوقیانوس میں برفانی تودوں کے حوالے سے وہاں سفر کرنے والے دیگر بحری جہازوں کی معلومات سے آگاہ رہنے کے لیے ٹائٹینک کے کپتان ایڈورڈ جون اسمتھ نے حکم دیا تھا کہ زیادہ خطرناک علاقے میں جانے سے گریز کیا جائے۔
مگر تحقیق میں بتایا گیا کہ اس شمسی طوفان کے نتیجے میں جہاز کی سمت میں کمپاس کی خرابی کے نتیجے میں معمولی تبدیلی آئی اور خطرناک برفانی علاقے میں جانے سے بچنے کی بجائے وہ بحری جہاز سیدھا اس طرف چلا گیا۔
اس خیال سے ٹائٹینک کے سانحے کے ایک اور پہلو کی وضاحت بھی ممکن ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈوبتے ہوئے جہاز سے مدد کی درخواست پر دیگر بحری جہازوں نے پہلے غلط سمت میں تلاش کی اور بعد میں درست جگہ پر پہنچے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ شمسی مداخلت ہی امداد کی کوششوں میں رکاوٹ بھی بنی، جب کپتان کو اندازہ ہوگیا کہ ٹائٹینک کو ڈوبنے سے بچایا نہیں جاسکتا تو انہوں نے 2 ریڈیو آپریٹرز کو مدد کے سگنل قریبی جہازوں کو بھیجیں۔
آر ایم ایس بالٹک جو ان جہازوں میں سے ایک تھا، جس نے مدد کی کال پر جواب دیا، کے عملے نے بتایا کہ اس رات ریڈیو سگنلز بہت عجیب تھے اور بیشتر پیغامات پڑھے نہیں جاسکے اور ٹائٹینک کا جواب کبھی مل نہیں سکا۔