بلوچستان، خواتین پر تشدد کے 118واقعات میں 84ہلاکتیں
کوئٹہ:بلوچستان کے 18اضلاع میں سال 2020ء کے دوران خواتین پر گھریلو تشدد، غیرت کے نام پرقتل،خودکشی،اجتماعی زیادتی اغواء اورقتل کے 118واقعات میں 84افرادجاں بحق ہوئے ہیں جن میں 66خواتین اور18مرد شامل ہیں۔عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے سال 2020ء کے ماہ جنوری سے لیکر ماہ دسمبر تک صوبے بھر میں خواتین پر تشدد ودیگر واقعات سے متعلق رپورٹ جاری کردی گئی جس کے مطابق بلوچستان میں پچھلے بارہ ماہ کے دوران تشدد کے 118واقعات ہوئے جن میں 66خواتین اور18مرد قتل ہوئے ہیں،33خواتین اور 18مرد غیرت کے نام پر قتل جبکہ تین خواتین نے گھریلو حالات سے تنگ آکر خودکشی کی ہے 12خواتین پرتشدد جبکہ 11خواتین اغواء ہوئی خواتین اور بچوں پر جنسی زیادتی کے 8واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کوئٹہ میں مختلف واقعات میں 22خواتین،بارکھان میں ایک،جعفرآباد میں 10،نصیرآباد میں 29،پشین میں 2،جھل مگسی میں 5،خضدار میں 4،قلعہ عبداللہ میں ایک،سبی میں 3، کچھی بولان میں 6،قلات میں ایک،پنجگور میں 3،لورالائی میں 6، نوشکی میں ایک،مستونگ میں 7،قلعہ سیف اللہ میں 4،لسبیلہ،ڈیرہ بگٹی میں ایک، ایک،کیچ تربت میں 5،کوہلو اور صحبت پور میں تین،تین واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں اغواء،قتل،گھریلو تشدد، غیرت کے نام پرقتل،خودکشی،اجتماعی زیادتی کے واقعات شامل ہیں جبکہ ژوب،خاران اورچاغی کوئی واقعہ رونما نہیں ہواہے۔عورت فاؤنڈیشن نے بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کی صورتحال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جنوری تا دسمبر 2020کوئٹہ میں جاری کردی ہے رپورٹ عورت کے خلاف تشدد ہونے والے واقعات پر جمع اعداد وشمار پر مشتمل ہے جو کہ عورت فاؤنڈیشن کے ق ومی پروگرام پاکستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد وشمار کا تجزیہ اور پالیسی مرتب کرتاہ ے عورتوں کے خلاف تشدد ایک خطرناک حد تک عالمی مظہر کا باعث بن رہا ہے جس سے بے شمار عورتوں کی عزت وناموس متاثر ہورہی ہے تشدد ایک بہت ہی بڑا صنفی امتیاز غیر مساویانہ امتیاز اور معاشرے میں نا ہمواری کا بڑھتا ہوا ذریعہ بن رہاہے تشدد کے حوالے سے اعداد وشمار برف پگھلنے کا ایک معمولی ذرہ معلوم ہوتا ہے اس رپورٹ کا مقصد بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے اقعات کی نشاندہی کرنا ہے جس کا مقصد زیادہ معلوماتی اور مددگار ماحول اور سماجی دباؤپیدا کرنا ہے عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد وشمار مستقبل میں بننے والی پالیسی اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں،سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار،ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ مین مدد گار ثابت ہونگے آپ کو بتا تا چلیں کہ ہمارے معاشرے کے بعض رسم ورواج اسلام سے متصادم ہونے کے بنا پر عورتوں کے حقوق کی نفی کرتے ہیں خواتین کی حالت زار بدلنے کیلئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی سطح پر مستحکم کیا جائے اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج قبائلی رسم ورواج کے تحت عورت کو جدائیداد کے طور پر استعما ل کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی،تعلیمی،انتظامی اور مالی طور پر مستحکم کرنا ہوگا پچھلے 61سالوں میں ہم نے عورت کو انسانی ہی نہیں سمجھا ان کو طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنا یا جتا ہے جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں دلائی جائیگی اس وقت تک عورت کا ا ستحصال ہوتا رہے گا۔