پی پی استعفی اور سندھ حکومت کی قربانی دینے کے لیے تیا ر نہیں، شاہ محمود قریشی

اسلام آباد : وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کسی صورت استعفیٰ دینے اور سندھ کی حکومت کی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں، پی ڈی ایم سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں،پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں تحریک عدم اعتماد لانے پر واضح اختلاف ہے،استعفوں کیلئے مناسب وقت تو 2023 کا ہے،نون لیگ کی پالیسیوں کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہیں،افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں،واحد راستہ جامع مذاکرات ہیں،نئی امریکی انتظامیہ افغانستان میں تشدد میں کمی چاہتی ہے ہم بھی یہی چاہتے ہیں،افغانستان میں قیام امن ایک مشترکہ ذمہ داری ہے سارا بوجھ پاکستان پر ڈالنا مناسب نہیں ہو گا،بھارت کے ساتھ کوئی بیک چینل رابطہ نہیں،مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے،کشمیر کا سودا کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا،مسئلہ پر اپوزیشن سیاست نہ کرے،براڈ شیٹ معاملہ پر معاہدہ کب ہوا کس نے کیا؟ ہم حقائق کی چھان بین چاہتے ہیں،جب انکوائری کمیشن بیٹھے گا تو سب کچھ بے نقاب ہو جائے گا،سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں۔ منگل کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہؤے کہاکہ پی ڈی ایم کے اندر خاصی بے چینی ہے،پی ڈی ایم میں یکسوئی نہیں،پیپلز پارٹی کسی صورت استعفیٰ دینے اور سندھ کی حکومت کی قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ عمر کوٹ میں ضمنی الیکشن کے دوران سندھ حکومت نے انتظامیہ کا بے دریغ استعمال کیا،اب وہ مناسب وقت کا بہانہ بنا رہے ہیں استعفوں کیلئے مناسب وقت تو 2023 کا ہے،پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں تحریک عدم اعتماد لانے پر واضح اختلاف ہے،پی ڈی ایم سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ اپوزیشن کے دوست قبل ازیں میز پر بیٹھ کر گفتگو کرنے کی بات کر رہے تھے اور آج اپنے ہی مطالبے کی نفی کر رہے ہیں،نیب میں ترمیم کیلئے جو انہوں نے 34 نقاطی تجاویز دیں وہ قابل عمل نہیں تھیں۔ انہوں نے کہاکہ پی ڈی ایم کا موقف تضادات سے بھرا ہوا ہے اور اس میں کلیرٹی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہر نئی انتظامیہ کو حق ہے کہ وہ چیزوں کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھے،ہمارا موقف یہ ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اس کا واحد راستہ جامع مذاکرات ہیں،میرے نزدیک موجودہ امریکی قیادت بھی اس بات کا ادراک ہے،زلمے خلیل زاد کی خدمات جاری رکھنے کا فیصلہ اس طرف اشارہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ نئی امریکی انتظامیہ افغانستان میں تشدد میں کمی چاہتی ہے ہم بھی یہی چاہتے ہیں،نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات ہمارے نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ امریکی وزیر خارجہ کو میں نے خط لکھ کر اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیا ہے،گزشتہ چار سال میں پاکستان اور خطے میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں،میری رائے میں چالیس سالوں کے بعد امید کی کرن پھوٹی ہے،میں واضح کہنا چاہتا ہوں کہ ہم نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ امن کی کاوشوں میں شریک رہیں گے،افغانستان میں قیام امن ایک مشترکہ ذمہ داری ہے سارا بوجھ پاکستان پر ڈالنا مناسب نہیں ہو گا،اس مسئلے کا اصل حل افغان قیادت کے ہاتھ میں ہے کیونکہ یہ ملک ان کا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے سفارت خانوں میں 80 فیصد افسران وزارت خارجہ سے لیے جاتے ہیں جبکہ باقی 20 فیصد، بمطابق ضرورت، مختلف شعبوں سے لیے جا سکتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے قیاس آرائیاں بلا وجہ ہیں،اقوام متحدہ سمیت ہر بین الاقوامی فورم پر ہم نے مسئلہ کشمیر کو اٹھایا ہے،مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے،مقبوضہ جموں و کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق بری طرح پائمال کیے جارہے ہیں،گذشتہ سترہ ماہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو جیل میں بدل دیا گیا ہے،ہمیں توقع ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس حوالے سے اپنا موثر کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہاکہ سفارتی سطح پر پچھلے ڈھائی سالوں میں ہمیں بہت سی کامیابیاں ملی ہیں،ان ڈھائی سالوں میں جس طرح مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اٹھایا گیا وہ مثالی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میری رائے میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری بھارتی پابندیوں کے باوجود دنیا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے واقف ہیں لیکن اگر کہیں پر خاموشی نظر آتی ہے تو وہ مصلحتاً ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بین الاقوامی میڈیا جس قدر مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے آج متحرک ہے اتنا ماضی میں کبھی نہیں رہا،انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں جس طرح بھارت کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں ایسا پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا،رائے عامہ بننے میں وقت لگتا ہے،کشمیر کا سودا کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہاکہ میری اپوزیشن سے ہمیشہ گذارش رہی ہے کہ اس حوالے سے سیاست نہ کریں،اگر اپوزیشن کے پاس اس حوالے کوئی اچھی تجویز ہے تو ہم ماننے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ براڈشیٹ کے حوالے سے ہم چاہتے ہیں کہ شفاف تحقیقات ہوں،یہ معاہدہ کب ہوا کس نے کیا؟ پی ٹی آئی اس کی ذمہ دار نہیں،ہم حقائق کی چھان بین چاہتے ہیں،جب انکوائری کمیشن بیٹھے گا تو سب کچھ بے نقاب ہو جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کے کوئی امکانات نہیں ہیں،بھارت کے ساتھ کوئی بیک چینل رابطہ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم سعودی عرب کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے مشکل وقت میں پاکستان کا ہاتھ تھاما،سعودی عرب نے ہمیں بیلنس آف پے منٹ میں اور تیل کی فراہمی میں معاونت کی،سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تاریخی برادرانہ تعلقات ہیں،جب ہم اپنے روپے کو مصنوعی طریقے سے مستحکم بنانے کی کوشش کریں گے تو اس کا نقصان ہو گا جیسا اسحق ڈار صاحب نے کیا،ہمیں اس غلط فیصلے پر نظرثانی کرنا پڑی چنانچہ ڈالر کی قیمت بڑھی،آج مہنگائی مسلم لیگ نواز کا تحفہ ہے،بھاری قیمت پر بجلی کے معاہدے نون لیگ کا تحفہ ہیں،نون لیگ کی پالیسیوں کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہیں،ان ڈھائی سالوں میں قرض کے حجم میں 25 ہزار ارب سے ساڑھے چھتیس ہزار ارب اضافہ ہوا،جو تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار ارب بنتے ہیں،اس میں ساڑھے چھ ہزار ارب سابقہ حکومتوں کے لیے ہوئے قرضوں کی ادائیگیاں کی گئیں،1500 ارب امپورٹ اور کرونا کی وجہ سے ہمیں ریلیف دینا پڑا،اس ساڑھے گیارہ ہزار ارب میں سے گیارہ ہزار ارب سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں کے حوالے سے بڑھے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری گندم، چاول اور مکئی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے،ہماری کاٹن کی پیداوار میں کمی آئی ہے،چاول کی پیداوار میں دس فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے،گنے کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے،مجموعی طور پر معاشی اشاریے بہتری کی نوید سنا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں