آئرلینڈ کا مسئلہ مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے تو بلوچستان کا کیوں نہیں، سردار اختر مینگل

کراچی: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بیرون ملک مقیم صحافی گل بخاری کو انٹریو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسد مینگل کو جب قتل کیا گیا ا س وقت وہ ہمارے گھر کے واحد مرد تھے کیونکہ اس وقت میرے والد صاحب نیپ کی دیگر قیادت کے ہمراہ جیل میں بند تھے، اس وقت وہ نیشنل کالج میں سیکنڈ ائیر کا اسٹوڈنٹ تھا،اس رات جب ہمیں اطلاع ملی کہ اسد کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی تو ہم نے جانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ہمارے گھر کے سامنے پولیس کی بڑی نفری لگا دی تھی اور ہمیں گھر سے باہر جانے بھی نہیں دیا گیا جبکہ اسد کے دیگر دوستوں کو اٹھا کر لے گئے، جب صبح ہم پہنچے تو گاڑی میں خون کے دھبے تھے جبکہ وہ غائب تھے۔انہوں نے کہا کہ حساس ادارے کے سربراہ نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ اسد کو آزاد کشمیر کے ایک کیمپ میں لے گئے تھے جہاں سے وہ ٹارچر سے جاں بحق ہوئے تھے لیکن اس حوالے سے مختلف باتیں کی جاتی ہیں، انہوں نے کہا کہ جب ضیاء الحق کا دور آیا اورنیپ کی قیادت کو رہائی ملی تو میرے والد جو دل کا مریض تھے علاج کے غرض سے بلوچستان سے باہر جا رہے تھے، اس وقت ضیاء الحق چل کر میرے والد صاحب کے پاس آئے اور انہیں تسلی دے کر کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ جاؤ اور اپنا علاج کروا کر واپس آجاؤ تب تک ہم آپ کے بیٹے کے حوالے سے معلومات کر یں گے، تو میرے والد نے جنرل کو کہا کہ آپ کو لگ رہا ہے کہ میں دل کا مریض ہوں اور اپنے بیٹے کی موت کا خبر سن نہیں سکتا جبکہ آپ کے سامنے گڑ گڑاؤں گا کہ میرے بیٹے کو بخش تو ایسا نہیں ہوگا، اختر مینگل کے مطابق عطاللہ مینگل نے ضیاء الحق کو جیل میں کہا تھا کہ مجھے پتا ہے اسدکو تم لوگوں نے مار دیا ہے لیکن اسد جیسے میرے کئی بچے بلوچستان میں مار دیے گئے ہیں،
انہوں نے کہا کہ پاکستان اب تک لاپتہ افراد کے حوالے سے یواین کا دستخط کنندہ نہیں ہے، موجودہ حکومت نے 2018میں کہا تھا کہ ہم اس پر دستخط کریں گے لیکن انہوں نے ابھی تک نہیں کیا ہے، انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے جو بل میں نے اور محسن نے اسمبلی میں پیش کیا تھایہ بل حکومت کو پیش کرنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے مفاہمت کی وجہ سے مخالفت کی۔ شریں مزاری نے اسمبلی کے فلور پر اس بات کا اعتراف کیا کہ ہماری کیبینٹ نے اس پر ایک بل کی منظوری دی تھی لیکن وزارت قانون اس میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کوچارٹر پر دستخط کرنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے اب تک نہیں کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تین بڑی پارٹیاں جو اسمبلی میں ہوکر بھی ایک ایسے بل کو پاس نہیں کر سکتے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچستان میں جو قوتیں لوگوں کو لاپتہ کر تی ہیں انہیں غائب کرکے ٹارچر کرتی ہیں وہ اس ملک کے اصل حکمران ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ ان کے اس جیسے ہتھکنڈوں سے پردہ اٹھایا جائے، وہ نہیں چاہتے کہ جس بے رحمانہ انداز سے وہ لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کر رہے ہیں اس میں کوئی رکاوٹ کھڑی کریں۔
انہوں نے کہا کہ 2018کے الیکشن کے فوراً بعد ہم سے مختلف سیاسی پارٹیوں نے رابطہ کیا جن کے سامنے ہم نے بلوچستان کے حقیقی مسائل کو ان کے سامنے رکھا، پیپلز پارٹی سمیت دوسری پارٹیوں نے کہا کہ یہ ہماری بس کی باتیں نہیں ہیں اسی ٹائم پی ٹی آئی کی قیادت جن میں جہانگیرترین شاہ محمود قریشی اور دیگر قیادت کوئٹہ میں ہم سے ملنے آٰٗ ئی جہاں ہم نے اپنی وسیع مطالبات کو شارٹ لسٹ کرکے چھ نقاط پی ٹی آئی کو دیے تھے جن پر انہوں نے دستخط بھی کیے تھے لیکن جب وقت گزرتا گیا پی ٹی آئی کی قیادت خاموشی اختیار کرتی گئی جس پر ہم نے اسمبلی کے فلور سے لیکر میٹنگز تک ہمیشہ ان کو یاد دہانی کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے حکومت کو جو لسٹ فراہم کی تھی وہ 5128افراد کی لسٹ تھی جس میں تقریبا ساڑھے چار سو افراد بازیاب ہوئے، انہوں نے کہا کہ گمشدہ افراد میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے جن میں سیاسی کارکنان اور طلبا و طالبات شامل تھے، انہوں نے کہا کہ جب ہم بلوچستان کے علاقوں میں ووٹ کیلئے جاتے تھے تو لوگ ہم سے صرف یہی امیدیں رکھتے تھے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی میں ہم کوئی کردار ادا کریں ہم نے لوگوں سے یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ ہم شہد کی نہریں بہائیں گے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو جب بھی ہمارے ووٹ کی یا کہیں پر سپورٹ کی ضرورت پڑتی تو وہ کچھ لوگ بازیاب کرا لیتے، انہوں نے کہا کہ جب ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی اپنے وعدے پر پوری نہیں اتر رہی ہے تو ہم نے انہیں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔انہوں نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ ان ستر سالوں میں بلوچستان پر جتنا گزرا ہے اس کے بعد تو ہم کسی بھی پارٹی پر بھروسہ نہیں کر سکتے تھے لیکن ہمارے نقاط پر دستخط کرکے انہوں نے ایک بات تو مان لی تھی بلوچستان میں لوگ لاپتہ ہیں کیونکہ پہلے حکومتوں میں کہا جاتا کہ لوگ تو لاپتہ ہے ہی نہیں ہیں اس بات سے انکاری تھے کہ یہاں پر کوئی لاپتہ ہے اور کہتے تھے کہ یہ لوگ افغانستان چلے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ افراد کی گمشدگی اور اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہ کرنااس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی بھی پارٹی بغیر مقتدرہ قوت کے حکومت نہیں کر سکتی آج جو اپوزیشن پارٹیاں ہیں وہ کل کو حکومت میں ہوتی تھیں اور آج جو حکومت میں ہے کل کو اپوزیشن ہو سکتی ہے لیکن پاکستان میں جن کو بھی حکومت ملی ہے انہیں محدود اختیار ملا ہے، پاکستان میں حکومت کو تمام اختیارات حاصل نہیں ہوتے بلکہ کچھ کمپرومائزسے انہیں حکومتیں ملتی ہیں، سیاسی پارٹیاں جن چیزوں پر کمپرؤمائز کرتی ہیں ان میں سرفہرست بلوچستان ہے، وہ پہلے ہمیشہ بلوچستان کیقربانی دیتیہیں۔
انہوں نے کہا کہ دریائے نیل کی توگیانی کو روکنے کیلئے ہمیشہ انسانوں کی بلی چھڑا دی جاتی تھی اس ملک کے حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے بلوچستان کی بلی جی ایچ کیو کی جھولی میں ڈال دی ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کبھی بھی کوئی ایسی حکومت نہیں رہی ہے جس کے دور میں بلوچستان کے حالاتبہتر رہے ہیں۔
آئرلینڈ کا مسئلہ جب مذاکرات سے حل ہو جاتا ہے تو بلوچستان کا مسئلہ کیسے حل نہیں ہو سکتا، بلوچستان کا مسئلہ ان کیلئے سونے کی چڑیا ہے، جن اداروں کی پوسٹنگ ہوتی ہے تو وہ واپس جانا نہیں جاتے، مسنگ پرسنز سے ڈیل کرکے ان سے پیسے لیا جاتا ہے، جنرل قادر اور ڈاکٹر مالک نے مذاکرات کرکے بلوچستان آکر اداروں سے بات چیت کی تو جنرل صاحب نے بتایا کہ ہم خود نہیں چاہتے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہو،

اپنا تبصرہ بھیجیں