گورننس کا مسئلہ صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ پاکستان کی سطح پر ہے،جام کمال

کوئٹہ:وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہاہے کہ گورننس کا مسئلہ صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ پاکستان کی سطح پر ہے،ناتجربہ کار وبہترکارکردگی نہ دکھانے والے پالیسی ساز بن جائیں تو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتاہے، بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں کچھ کر دکھانے کیلئے حکمرانی کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ہمیں ٹیکنوکریٹس کی ٹیم کی طرز پر کام کرنے کیلئے عالمی اداروں کی طرز پر طریقہ کار،انتظام اور تدابیر کو اپنانا ہوگا،ماضی کے اسٹیٹس کو کے طرز کی بجائے بہتری کی طرف جاناہوگا،تمام محکموں کے 45فیصد سے زیادہ افرادی قوت اوران محکموں کی محصولات اور صلاحیت کا بھی جائزہ لیاگیا ہے،تمام محکمے اور کابینہ آن بورڈز ہیں اورتمام فیصلے ایک ٹیم کی حیثیت سے کئے جارہے ہیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز گالف نیوز کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔ جام کمال خان نے کہاکہ میں سا ل 2013سے 2018کے دوران مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا حصہ رہا ہوں،ہم نے واضح دیکھاہے کہ مرکز بلوچستان سے متعلق امور کس طرح سنجیدگی سے لے رہاہے،عمران خان کی بلوچستان بارے بہت واضح موقف اور ہدف ہے،کسی شخص کو اگر وہ آپ کی تجاویز کو کس قدر سنجیدگی سے لیتاہے سے اس کی نیت اور اس کی پالیسی معلوم کرنے کا طریقہ ہے،کیا وہ آپ کی تجاویز کو زیادہ ترجیح دیتاہے یا کم ان کی پالیسی سے ترقیاتی پروگرام اور ترقی نظرآتی ہے،انہوں نے کہاکہ وفاقی حکومت نے بلوچستان حکومت کی جانب سے متعین کردہ منصوبوں کو آن بورڈ لیاہے بلکہ وفاق کی طرف تشکیل کردہ ان کمیٹیوں کی سربراہی بھی صوبائی حکومت کررہی ہے اور سالانہ پی ایس ڈی پی کے تحت مختص فنڈز،منصوبوں پر اختیار اور اصل کام زمین پر ہی شروع ہوتاہے،وزیراعظم کی جانب سے منصوبوں کی نگرانی کاایک طریقہ ہے وہ بلوچستان کا دورہ اور پھر صوبائی حکومت سے اس پر تبادلہ خیال کرتے ہیں،انہوں نے کہاکہ سابقہ حکومتوں نے بہت سے منصوبے شروع کئے ہوں گے لیکن بہت سے ذمہ داری کے حوالے سے غائب تھے،میں اپنے والد اور اپنے دادا سمیت دیگر وزرائے اعلیٰ سے مختلف ہوں جب میں وزیراعلیٰ بنا تو میرے لئے سب سے بڑا مسئلہ گورننس جو ایک چیلنج تھا میں نے دیکھا کہ گورننس کے معاملے میں کیا کمی ہے اور اس میں کیا تبدیلی آسکتی ہے میرے نزدیک گورننس کا مسئلہ صرف بلوچستان نہیں بلکہ پاکستان کی سطح پر بھی درپیش ہیں،انہوں نے کہاکہ زیادہ تر لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ جب وہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے عوام کی نمائندہ بن کر حکومت بناتے ہیں ان کے کام کاطریقہ کار مختلف ہوتاہے انتخاب سے پہلے سیاسی ٹیم جو حکومتی معاملات بہترانداز میں نہیں چلاپاتے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں وہی لوگ ٹیم ممبران کی حیثیت سے منظم اور زیادہ شیئر ہولڈرز وپالیسی ساز بن جاتے ہیں جس سے سب سے زیادہ نقصان ہوتاہے،انہوں نے کہاکہ بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں کچھ کر دکھانے کیلئے حکمرانی کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ہمیں ٹیکنوکریٹس کی ٹیم کی طرز پر کام کرنے کیلئے عالمی اداروں کی طرز پر طریقہ کار،انتظام اور تدابیر کو اپنانا ہوگا انہوں نے کہاکہ بہتر ٹیم،مسائل رکھنے والے علاقوں کی نشاندہی،ٹی او آرز،بجٹ سے متعلق حکمت عملی،منصوبوں کی نگرانی کیلئے ٹیکنالوجی کو آلے کے طورپر استعمال،حکومتی معاملات اور کارکردگی سمیت صوبے بھر میں حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی آئی ٹی کے ذریعے نگرانی سمیت دیگر شامل ہوں،اگر ہم ماضی کے اسٹیٹس کو کی طرز پر اپنی حکومت چلاتے رہے تو ہم اپنا کام تو ختم کرسکیں گے لیکن یہ پتہ نہیں ہوگا کہ ہم نے کیا کیا ہے اور کیاکرناچاہیے تھا ان مسائل جیسے کہ استعداد،وسائل،نظرانداز ہونے والے فیکٹرز،ناکامی کی صورت میں ان سے نمٹناسمیت دیگر پر غور لازمی ہے،پالیسی اور منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے ہر شعبہ کاکوئی آؤٹ فٹ نہیں،انہوں نے کہاکہ ہمارا نقطہ نظر مجموعی طرز حکمرانی اور موجودہ صورتحال کے حوالے سے جامع ہے۔ تمام محکموں کے 45فیصد سے زیادہ افرادی قوت کاجائزہ لیاگیا بلکہ ان محکموں کی محصولات اور صلاحیت کا بھی جائزہ لیاگیا بجٹ کو ری وائز کرنے میں پہلے سے نظرانداز کئے گئے بہت سے علاقوں کو دوبارہ شامل کیاگیاہے۔اپنے اقدامات سے متعلق صوبائی کابینہ اور ٹیم روزانہ کی بنیاد پر باضابطہ اجلاس بلاتے ہیں،ہر محکمے کے ساتھ مخصوص اجلاس منعقد کرتے ہیں کابینہ اجلاس میں اضافہ کیاہے اس طرح کابینہ اور تمام محکمے آن بورڈ ہیں،تمام فیصلے ایک ٹیم کی حیثیت سے کررہے ہیں،ماضی میں صوبے میں تمام امور سے واقفیت اور اس پھر اس پر اسٹیک ہولڈرز کاان بورڈ ہونا بہت کم تھا اب بھی بہت زیادہ بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں