کالم https://dailyintekhab.pk Mon, 29 Apr 2024 07:32:42 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.1.6 130469837 نانی ماتا، مزاحمت کی علامت https://dailyintekhab.pk/archives/466503 https://dailyintekhab.pk/archives/466503#respond Mon, 29 Apr 2024 07:32:42 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=466503 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر: انور ساجدی

اعتراف ہے کہ میری مذہب کے بارے میں معلومات اچھی نہیں ہیں، عقائد، مسالک اور گروہوں کے بارے میں آگاہی کماحقہ نہیں اس کے باوجود کہ ہم ایک ایسی ریاست میں رہتے ہیں جس کا باقاعدہ سرکاری مذہب ہے اور اس کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائیگا۔ لیکن ہمارے خیال میں جو اقلیت ہیں انہیں بحیثیت انسان زندہ رہنے اور اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے بانی پاکستان نے جو خطاب کیا تھا اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اقلیتوں کو زندہ رہنے کا حق دیا گیا تھا لیکن 76 سال گزرنے کے بعد اقلیتوں کے لئے زندہ رہنا اور اپنے عقائد پر چلنا مشکل ہوگیا ہے اس لئے جب میں ہندو یاتریو کو ہنگلاج ماتا جاتا دیکھتا ہوں تو خوشی ہوتی ہے۔ حال ہی میں اس کا جو سالانہ اجتماع ہوا اس میں شرکت کے لئے بڑی تعداد میں لوگ جن میں خواتین اور بچے شامل تھے گاڑیوں اور پیدل مارچ کرتے ہوئے ہنگول جاتے دیکھے گئے۔ ہنگلاج ماتا یا نانی کا مندر ہندومت کا ایک مقدس مقام ہے۔ اگر پہلا نہ ہو تو دوسر ااور دوسرا نہ ہو تو تیسرا ضرور ہے۔ لیکن برصغیر کے قدیم مذہب کے اس مقدس مقام کی وہ قدر نہیں کی جارہی ہے جو اس کا حق ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ وفاقی حکومت یہاں پر ایک جدید کمپلیکس تیار کرتی ، تمام بنیادی سہولتیں بہم پہنچاتی لیکن سرکاری سطح پر کوئی اچھا انتظام دیکھنے میں نہیں آرہا۔ کافی سال پہلے جب انڈیا کے فارن منسٹر شری جسونت سنگھ ہنگلاج ماتا کے درشن کرنے آئے تھے تو جام یوسف کی صوبائی حکومت نے لنک روڈ کو بہتر کیا تھا اس کے بعد کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے۔ وفاق تو اس لئے گریزاں ہے کہ یہ علاقہ بلوچ گلزمین میں واقع ہے اگر یہ پنجاب میں ہوتا تو کرتارپور جتنا کمپلیکس ضرور تعمیر کرتی لیکن ہنگلاج ماتا نے ڈومیسائل کی مار کھائی ہے۔

پنجاب نے اپنی تاریخ میں دو پیغمبر یا مذہبی پیشوا پیدا کئے ہیں ایک بابا گرونانک ہیں ان کا جنم استھان وسطی پنجاب کے قلب میں واقع ہے جبکہ کرتارپور بارڈر کے قریب بے جہاں بابا جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ اپنی رحلت تک وہ کھیتی باڑی کرکے اپنا گزارہ چلاتے تھے اور دن رات ان کا لنگر چلتا تھا۔ سکھ مذہب میں لنگر چلانا بنیادی روایات کا حصہ ہے۔ شری عمران خان نے واحد اچھا کام یہی کیا کہ انہوں نے کرتارپور کا کاریڈور بنایا اور باباجی کے شایان شان کمپلیکس بنایا۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے بٹوارے کے باوجود بابا گروناک کی زمینوں اور عبادت گاہوں پر قبضہ نہیں کیا گیا اور انہیں جوں کا توں رہنے دیا گیا۔ پاکستانی پنجاب سکھ مذہب کے مکہ اور مدینہ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ بابا جی یہیں پیدا ہوئے ، یہیں زندگی گزاری اور یہیں پر سورگھباش ہوئے۔ حسن ابدال میں پنجہ صاحب ہے جس کے بعد ضلع ہزارہ کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ رنجیت سنگھ کے دور میں یہ علاقہ سکھوں کے قبضہ میں آگیا تھا اور مذہبی طور پر اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔ راولپنڈی سے لے کر ہری پور تک کا علاقہ تاریخی طور پر برہم پترا ہے اور یہ ہندومت کا اہم ترین مرکز رہا ہے۔ جبکہ ٹیکسلا اس وقت ہندوستان کا مرکز تھا جب اشوک نے اکھنڈ بھارت قائم کیا تھا۔ تخت بائی سے لے کر ٹیکسلا تک پورا علاقہ بدھ مت کا مقدس ترین علاقہ ہے لیکن اسے پاکستانی ریاست نے نہیں سنبھالا۔ تاریخی طور پر پنجاب واحد سرزمین ہے جس نے دو مذہبی پیشوا پیدا کئے ہیں ایک سکھ مذہب کے بانی گرونانک اور دوسرا احمدیہ مذہب کے بانی غلام احمد قادیانی۔ بابا گرونانک سکھ عقیدہ کے متفقہ پیشوا ہیں اور انہیں ہندو بھی مانتے ہیں جبکہ غلام احمد قادیاتی بے حد متنازعہ اور مسلمانوں کے نزدیک زندیق اور کافر ہیں کیونکہ وہ ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ کرتارپور اور قادیان کے درمیان تھوڑا سا فافصلہ ہے اگر کبھی حالات صحیح ہوئے تو احمدیہ فرقہ کے لوگ بھی اس طرف آسکتے ہیں ۔ سکھ مذہب کے پیروکار کروڑوں میں ہیں اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں جبکہ قادیانی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ لیکن ان کا بھی دعویٰ ہے کہ ان کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ایک سیاسی شخصیت نے بتایا کہ جب پانچ جٹ اکٹھے بیٹھے ہوں تو ان میں دو ضرور احمدی ہوں گے۔ قادیانیوں کے خلاف ہندوستان میں پہلی تحریک مجلس احرار کے لیڈر سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے چلائی تھی۔ شاہ جی ایک اچھے مقرر اور بلند پایہ خطیب تھے۔ لوگ دیوانہ وار ساری رات ان کا خطاب سنتے تھے۔ انہےں گلہ تھا کہ میرے چاہنے والے تقریر تو سن لیتے ہیں لیکن مجھے ووٹ نہیں دیتے۔ ان کی جماعت مجلس احرار نے انگریزوں کے خلاف بھی تحریک چلائی تھی۔ شاہ جی ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن ان کی خواہش کے برعکس بٹوارہ ہوگیا۔ آزادی کے بعد انہوں نے دہلی مےں آخری جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”لو دلی والوں جو ملک تم نے بنایا میں کل وہاں رہنے جارہا ہوں جبکہ تم ہمیشہ کے لئے یہیں پڑے رہو گے اور ہندوﺅں کے غلام کی حیثیت سے زندگی گزارو گے“۔

قادیانیوں کے خلاف ایک عوامی تحریک جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلی مودودی نے 1953 میں چلائی تھی۔ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے لاہور میں فوج طلب کرکے کرفیو نافذ کردیا گیا تھا جبکہ سرسری عدالت نے مولانا صاحب کو سزائے موت سنائی تھی تاہم کچھ عرصہ کے بعد غالباً 1954 میں یہ سزا ختم کردی گئی تھی۔ تحریک ختم نبوت میں مولانا عبدالستار خان نیازی نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا لیکن گرفتاری کے خوف سے وہ داڑھی مونچھ مونڈ کر روپوش ہوگئے۔ پولیس نے اسی حالت میں گرفتار کیا تھا اور میڈیا پر اس کا اعلان کیا تھا جس کے بعد مولانا عبدالستار نیازی کو کبھی عروج حاصل نہیں ہوا۔ حالانکہ مولانا کو شاہ احمد نورانی نے انہیں اپنی جماعت کا سیکریٹری جنرل بھی مقرر کیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1975 میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔ حالانکہ قادیانیوں نے 1970 کے عام انتخابات میں من جملہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ قادیانیوں کی غالب اکثریت پنجاب میں ہے اور اس کے کئی لوگ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ عالمی عدالت انصاف کے پہلے صدر اور بانی پاکستان کے ساتھی اور وائسرائے کی کابینہ کے وزیر سر ظفر اللہ خان قادیانی تھا۔ ایوب خان کے دور میں پلاننگ کمیشن کے سربراہ ایم ایم احمد کا تعلق بھی اسی فرقہ سے تھا۔ پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام بھی احمدی تھے۔ 1965 کی جنگ کے ایک اہم کردار جنرل اختر حسین بھی قادیانی تھے۔ پاکستان کے راسخ العقیدہ سربراہ جنرل ضیاءالحق کا سسرال بھی قادیانی تھا جبکہ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے والدین بھی پیدائشی احمدی تھے۔ اقلیت قرار دیئے جانے کے بعد پاکستان میں اس فرقہ کا عروج ختم ہوگیا۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو ذکریوں کا مقدس مقام کوہ مراد تربت میں ہے۔ ہنگلاج ماتا کے بعد یہ دوسرا مقدس مذہبی مقام ہے۔ ہنگلاج کی صحیح تاریخ کسی کو معلوم نہیں یا نانی مندر میں ہندو پروہتوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس ضمن میں تحقیق کی ضرورت ہے۔

1930 کی دہائی میں ہندو فلاسفر سارواکر نے جب رام ارج کا تصور پیش کیا تھا تو انہوں نے دو ایسے مذہبی مقامات کی نشاندہی کی تھی جو جغرافیائی طور پر ان دنوں پاکستان میں واقع ہیں۔ ایک شاردا جو نیلم ویلی میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تین سے چار ہزار سال پہلے مذہبی عبادت گاہ کے طور پر قائم کیا گیا تھا جسے بعد ازاں یونیورسٹی کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ یہ مقدس مقام شدید طور پر نظر انداز ہے۔ ساواکر نے ہی ہنگلاج ماتا کو شاردا سے بھی قدیم مقام کہا تھا چونکہ ہندومت ایک دیو مالائی مذہب ہے اس لئے ہنگلاج ماتا کے بارے میں بھی غیر مرئی کہانیاں مشہور ہیں۔ دراصل وہ ایک دیوی تھی جس نے راجا مہاراجاﺅں کے خلاف بغاوت کی تھی اور ہزاروں میل دور پہنچ کر بلوچ گلزمین کی بانہوں میں پناہ لی تھی۔ ہنگلاج ماتا مزاحمت کی علامت ہے۔ بالادستی اور ظلم کے خلاف جدوجہد کی علامت ہے۔ آکسفورڈ پریس کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں نصیر خان احمد زئی کی کتاب کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میں نے کہا تھا کہ یہ ماہ رنگ اور سمی کی صورت میں بالادستی اور غلامی کے خلاف جدوجہد کا تسلسل ہے۔ واضح رہے کہ ماہ رنگ اور سمی سے مراد بلوچ زالبول ہے محض دو شخصیات نہیں۔ اس طرح ہنگلاج ماتا صرف ہندوﺅں کیلئے مقدس اور قابل احترام نہیں بلکہ بلوچوں کیلئے بھی ہے۔ اگر اچھے وقت آئے تو دنیا بھر سے لاکھوں عقیدت مند ہنگول پہنچ کر ماتا کی مزاحمتی اور عظےم ہستی کو خراج عقیدت پیش کرنے آئیں گے۔ برسوں پہلے لالہ شام کمار نے بتایا تھا کہ جس طرح ہنگول میں ہزاروں پہاڑی بکرے پائے جاتے ہیں ایک دن جہاں ضرور شیر اور چیتے بھی پیدا ہوجائیں گے۔ ہم نے پوچھا وہ کیسے تو کہنے لگے کہ بے شمار چرند اور پرند ہندومت کے عقیدہ کا حصہ اور علامات ہیںیہ علامات ضرور ہنگول کے پہاڑوں میں پیدا ہوں گی۔ گزشتہ دنوں وہاں پر ایک چیتے کی موجودگی اور بعد ازاں مارے جانے کی خبر عام ہوئی ۔ اس سے شام کمار کی بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ لہٰذا ہنگول پارک اور اطراف میں رہنے والے لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ ہر قسم کے شکار سے دور ہیں اور جو لوگ نایاب جنگلی حیات کو مارنے آتے ہیں انہیں سمجھانے کی کوشش کریں۔ ظاہر ہے کہ حکومت سے کوئی توقع نہیں کیونکہ اس کے وائلڈ لائف کا محکمہ برائے نام ہے اور وہ جنگلی حیات کو بچانے کے لئے کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہےں ہے۔ بلوچستان کے پہاڑوں میں جو حیات ہیں وہ اس عظےم گلزمین کی امانت ہیں اور اس کا تحفظ کرنا سب کا فرض ہے۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/466503/feed 0 466503
ایران پاکستان اتحاد امریکہ کے پہلو میں کانٹا https://dailyintekhab.pk/archives/465312 https://dailyintekhab.pk/archives/465312#respond Wed, 24 Apr 2024 13:00:26 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=465312 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر ؛ احمد رضا بلوچ
ایک زمانے میں پاکستان اور ایران کی سرزمین پر ایک خوبصورت دوستی کا پھول کھلا تھا امریکہ کی مسلسل مداخلت سے تنگ آکر دونوں ممالک نے ہاتھ ملانے اور ایک مضبوط اتحاد بنانے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی وہ چائے کے کپ کے لیے بیٹھ گئے امریکہ، خود ساختہ "عالمی پولیس” کمرے میں گھس آیا۔ "یہاں کیا ہو رہا ہے؟” انہوں نے پوچھا ان کی آنکھیں ناگواری سے جھک گئیں۔ پاکستان اور ایران ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور کہا صرف تجارتی اور سلامتی کے معاہدوں پر بات ہو رہی ہے پیارے امریکہ کیوں کیا تمہیں اس سے کوئی مسئلہ ہے؟ امریکہ نے جھنجھلا کر کہا،آپ ہماری اجازت کے بغیر دوست نہیں بنا سکتے! کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم ہی دنیا کو محفوظ رکھتے ہیں؟ پاکستان اور ایران نے قہقہہ لگایا اور کہا اوہ، واقعی؟ ہم نے سوچا کہ یہ ہماری اپنی فوجیں اور خفیہ ایجنسیاں ہیں جنہوں نے ہمیں محفوظ رکھا۔

امریکہ نے جھنجھلا کر کہا، "ٹھیک ہے، ایسے ہی رہو لیکن جب کچھ غلط ہو جائے تو ہمارے پاس رونے مت آنا اور اس کے ساتھ ہی امریکہ پاکستان اور ایران کو چائے اور بات چیت کے لیے چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گیا لیکن امریکہ کو بہت کم معلوم تھا پاکستان اور ایران ابھی شروع ہو رہے تھے انہوں نے اپنے اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کئے یہاں تک کہ انہوں نے ایک مشترکہ فوجی مشق بھی شروع کر دی جس سے امریکہ کو مایوسی ہوئی جیسے جیسے دن گزرتے گئے امریکہ کی ناراضگی صریح غصے میں بدل گئی انہوں نے بیان کے بعد ایک بیان جاری کیا جس میں پاکستان اور ایران کو ان کے اقدامات کے "نتائج” سے خبردار کیا۔ لیکن پاکستان اور ایران نے صرف ہنستے ہوئے کہا "نتائج؟ ہاہا! ہم صرف ایک بار کے لیے اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔تم ہم پر ہمیشہ کے لیے حکم نہیں دے سکتے امریکہ اور اس کے ساتھ ہی پاکستان ایران اتحاد مسلسل پھلتا پھولتا رہاجس سے امریکہ کی ناراضگی بہت زیادہ تھی۔

تمام سنجیدگی سے دیکھا جائے تو ایرانی صدر کا حالیہ دورہ پاکستان اور دونوں ممالک کے درمیان متعدد معاہدوں پر دستخط خطے میں ایک اہم پیش رفت ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور ایران امریکہ کی منظوری کے بغیر معاملات اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنا اتحاد بنانے کے لیے تیار ہیں۔ اس دورے اور معاہدوں پر امریکہ کا ردعمل متوقع ہے۔ انہوں نے اپنی "تشویش” اور "ناپسندیدگی” کا اظہار کرتے ہوئے بیانات جاری کیے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات خطے کو "غیر مستحکم” کر دیں گے لیکن پاکستان اور ایران اسے نہیں خرید رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کے خدشات خطے میں اپنا تسلط برقرار رکھنے کی ایک باریک پردہ پوشی کے سوا کچھ نہیں، پاکستان ایران دوستی ایک خوبصورت چیز ہے اور امریکہ کی ناراضگی اسے مزید مضبوط کرتی ہے اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ یہ سمجھے کہ وہ باقی دنیا پر ہمیشہ کے لیے حکم نہیں چلا سکتا پاکستان اور ایران معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں اور یہ جشن منانے کی چیز ہے۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/465312/feed 0 465312
ٹوکن سسٹم کا خاتمہ اور اسٹیکر سسٹم کا اجراء https://dailyintekhab.pk/archives/465309 https://dailyintekhab.pk/archives/465309#respond Wed, 24 Apr 2024 12:45:17 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=465309 ..مزید پڑھیں ]]> سراج احمد ساجدی

بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں عوام کی روزی کا دارومدار بارڈر ٹریڈ پر ہے۔ بارڈر ٹریڈ کو جب سے حکومت نے ٹوکن کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے تب سے بارڈر کاروبار سے منسلک غریب گاڑی مالکان کے بجائے بڑے بڑے سیٹوں نے حکومت سے ٹوکن لیکر غریب گاڑی مالکان کو بیچنے کا کاروبار شروع کیا ہے جس سے غریب گاڑی والوں کو سوائے نقصان کے کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے۔ ضلع کیچ اور آواران سے جتنے بھی لوگ ٹوکن حاصل کررہے ہیں ان میں ایک بہت بڑی تعداد کا بارڈر کاروبار سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ ٹوکن حاصل کرکے آگے بیچتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل ٹوکن سسٹم کو ختم کرکے اسٹیکر سسٹم کو شروع کرنا ہے۔

میری ڈی سی آواران اور ڈی سی کیچ سے گزارش ہے کہ وہ بارڈر کاروبار سے منسلک گاڑی مالکان کے نام پر ٹوکن سسٹم کو ختم کرکے اسٹیکر سسٹم شروع کریں۔ گاڑی مالکان کو اپنے دفتر بلا کر ان کی شناختی کارڈ کے مطابق ہر گاڑی میں ایک مخصوص اسٹیکر لگانے سے نہ صرف ٹوکن مافیا پر کنٹرول کیا جا سکے گا بلکہ اس سسٹم کے تحت صرف بارڈر جانے والی گاڑیوں کو ہی اسٹیکر لگایا جا سکے گا۔ مزید یہ کہ اسٹیکر لگانے کے بعد صرف وہی گاڑی ہی بارڈر جانے کے قابل ہوگا اس کے برعکس ٹوکن حاصل کرنے والا ٹوکن آگے بیچ کر کسی تیسرے فرد کو بارڈر بھیج سکتا ہے جس کا ریکارڈ ضلعی انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔ اسٹیکر سسٹم سے بارڈر جانے والے تمام گاڑیوں کی تفصیلات بھی ضلعی انتظامیہ کے پاس ہونگے اور اس کے ساتھ ساتھ اس سسٹم سے صرف حقداروں کو ہی فائدہ ہوگا اور ٹوکن مافیا کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

امید ہے کہ ڈی سی کیچ اور ڈی سی آواران اس تجویز پر غور کرکے بارڈر ٹریڈ سے منسلک چھوٹے کاروباری حضرات کے حقوق کو تحفظ فراہم کریں گے۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/465309/feed 0 465309
مودی کا اکھنڈ بھارت https://dailyintekhab.pk/archives/465199 https://dailyintekhab.pk/archives/465199#respond Wed, 24 Apr 2024 07:27:49 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=465199 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر: انور ساجدی
ایسے وقت پر جبکہ اسرائیل پر ایران کے حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے۔اسی باعث امریکہ نے ایران پر نئی معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کے لئے ”دیدہ و دل“فرش راہ کرنے کا عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔ایرانی صدر کے دورے کا کیا مقصد ہے؟پاکستانی حکمرانوں نے کن موضوعات پر مذاکرات کئے یہ عام لوگ نہیں جانتے حالانکہ اصل صورت حال سے میڈیا بھی واقف نہیں ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ سوشل میڈیا کے شاہ سوار بھی خاموشی اختیار کرنے پرمجبور ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اسلام آباد میں ہونے والی مین استقبالیہ تقریب میں کہا کہ آپ کی آمد سے

چشم ماروشن دل ماشاد، انہوں نے اس سنجیدہ موقع پر روایتی نٹ کھٹ ہونے کا ثبوت بھی دیا اور کئی فارسی اشعار پڑھے معلوم نہیں کہ ان کا تلفظ صحیح تھا کہ غلط۔جو مذاکرات ہوئے اس کے دواہم نکتے تھے۔پہلا یہ کہ دونوں ممالک اپنے ہاں کی دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کریں گے۔اس عمل سے کون متاثر ہوگا یہ کوئی راز کی بات نہیں۔سرحدوں پر سختی کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ادھر ادھر دراندازی نہ ہوسکے۔دوسرا نکتہ دو طرفہ تجارت کو10 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم ہے۔ اگرچہ یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں اگر دونوں ممالک تیل وگیس کی تجارت کریں تو یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا ہوسکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ناممکن ہے کیونکہ امریکہ اور ایران کے ظاہری تعلقات اچھے نہیں ہیں جبکہ سعودی عرب کو ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے۔دونوں ممالک چین کی ثالثی سے سفارتی تعلقات استوار کرنے سے پہلے ایک دوسرے کے حریف بلکہ دشمن تھے۔سعودی عرب نے یمن پر قبضہ کے لئے اس پر حملہ کیا تھا جسے حوثی فورسز نے بری طرح ناکام بنا دیا۔جس کے بعد یہ جنگ وقتی طور پر بند کرنا پڑی۔غزہ پر اسرائیل کے حملہ سے پہلے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار بیٹھا تھا اور صدر بائیڈن نے اس کا پیشگی اعلان بھی کر رکھا تھا لیکن حماس کے اچانک حملوں نے نہ صرف یہ عمل خاک میں ملا دیا بلکہ ایک ہولناک جنگ کی بنیاد رکھی۔غزہ پر اسرائیل کی کارپٹ بمباری کے بعد یہ بات عیاں ہوگئی کہ کیا مصر کیا سعودی عرب کیا اردن اور کیا یواے ای کسی نے فلسطینیوں کا عملی طور پر ساتھ نہ دیا جبکہ ایران واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کی بھرپور مذمت کی اور اس نے حماس کو ہر طرح کی امداد پہنچائی جبکہ ایران کی حامی حزب اللہ نے لبنان سے ملنے والی اسرائیلی سرحدوں کو غیر محفوظ بنا دیا اور رواں مہینے میں جب اسرائیل نے دمشق میں واقع ایرانی سفارت خانے پر بمباری کر کے اس کے کئی کمانڈر ہلاک کر دئیے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایران جوابی کارروائی کرے گا کیونکہ ایران اور اسرائیل کی سرحدیں کافی دور ہیں اور کسی اور ملک سے جوابی کارروائی کرنا ممکن نہ تھا۔اس معذوری کو ختم کر کے ایران نے اپنی سرزمین سے میزائل اور ڈرون حملے کئے جو اسرائیل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔یہ ایک علامتی حملہ تھا اور اس کا مقصد اسرائیل کو یہ بتانا تھا کہ اس کے میزائل وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اصفہان میں ایٹمی تنصیبات کے قریب میزائل پھینکے لیکن یہ حملہ اور جوابی حملہ فرینڈلی فائر ثابت ہوئے جس کے بعد کشیدگی کم ہوگئی جبکہ اسرائیل یک سوئی کے ساتھ غزہ پر حملہ جاری رکھے ہوئے ہے۔عرب ممالک کا یہ حال ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف جنوبی افریقہ جو مقدمہ عالمی جنگی ٹریبونل میں لے گیا کسی نے اس کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی ”فریق“ بننے کی درخواست کی۔حتیٰ کہ پاکستان بھی اس عمل سے دور رہا جس کے بارے میں نسیم حجازی کے شاگردوں کا کافی عرصہ سے دعویٰ تھا کہ پاکستان عالم اسلام کا لیڈر ہے اور جہاں مسلم امت کے خلاف کارروائی ہوئی پاکستان وہاں پہنچے گا۔یہ تو معلوم نہیں کہ مشرق وسطیٰ کے حالات کیا کروٹ لیتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ امریکہ کی سرکردگی میں مغربی ممالک ایران کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن کارروائی سے خوفزدہ ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز کا ڈسٹرب ہونا ہے جس کی وجہ سے عالمی معیشت تباہ و برباد ہو جائے گی۔دوسری وجہ جدید اسلحہ سازی میں ایران کی حیران کن پیش رفت ہے۔حالانکہ جب پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایران کو ٹیکنالوجی منتقل کی تھی تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ملاصاحبان ایسے سائنس دان ڈھونڈ کر لائیں گے جو نہ صرف چار ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل بنا لیں گے بلکہ ایٹمی اسلحہ بنانے میں بھی کامیابی حاصل کر لیں گے۔امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایران دونوں مقاصد کے حصول میں کامیاب رہا اگرچہ ایٹمی اسلحہ کے تدارک کی عالمی ایجنسی نے ایران کو باقاعدہ طورپر ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک ڈیکلیئر نہیں کیا اور نہ ہی ایران نے اپنے ہتھیاروں کا ٹیسٹ کیا ہے لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے۔غزہ کی جنگ شروع ہونے سے پہلے اسرائیل کے انتہاپسند وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ایران اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ ہے۔موصوف نے کئی سال پہلے یہ بڑھک ماری تھی کہ اگر امریکہ نہ روکتا تو ایران پر ایٹمی حملہ کر کے اسے نیست ونابود کر دیا جاتا لیکن سبھی جانتے ہیں کہ ایران پر ایٹمی حملہ ممکن نہیں ہے ورنہ کہاں کہاں سے ایٹمی ہتھیار باہر آکر استعمال ہوں گے اور یہ کرہ ارض کے خاتمہ کا آغاز ہوگا۔اس وقت دنیا میں دو ہی انتہاپسند اور خطرناک حکمران موجود ہیں ایک نیتن یاہو اور دوسرا نریندرمودی۔نیتن یاہو تو سیاسی طور پر کمزور ہوچکے ہیں جب بھی الیکشن ہوئے ان کی شکست یقینی ہے۔البتہ مودی کی سیاسی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔انڈیا میں پہلے مرحلے کے انتخابات ہوچکے ہیں جبکہ چار دیگر مراحل جون تک مکمل ہو جائیں گے اور4 جون کو انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوگا۔اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے بی جے پی نے اکھنڈ بھارت کا نقشہ بنا کر نئے پارلیمنٹ ہا?س کے اندر آویزاں کر دیا ہے۔یہ نقشہ 1940کی دہائی میں انتہاپسند ہندو تھیوکریٹ یا اسکالر ساوارکر نے بنایا تھا۔ مودی نے دوبارہ یہ نقشہ پبلک کر کے خطہ کے کئی ممالک کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔نقشہ میں موجودہ پاکستان،افغانستان، ایران، تبت، برما، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایاگیا ہے۔تاریخ میں پہلی مرتبہ اکھنڈ بھارت دوہزار سال پہلے اشوک دی گریٹ کے دور میں قائم ہوا تھا لیکن اشوک بدھ مت کے پیروکار تھے۔انہوں نے ہندومت ترک کرکے بدھ مت اپنایا تھا ان کے انتہائی چالاک استاد کوٹلیہ چناکیا جسے پاکستانی پروفیسر چانکیہ کہتے ہیں ایسے بادشاہ گر تھے کہ انہوں نے جنوبی ایشیا کے بیشتر علاقے کو زیر کیا تھا۔دو ہزار سال بعد نریندر مودی انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے ایک بار پھر اکھنڈ بھارت کا خواب دکھارہے ہیں حالانکہ ان کا مقصد چارسو نشستیں حاصل کرکے نہرو کے بنائے گئے آئین کو تبدیل کرنا اور بھارت کو جمہوریہ ہندوستان کے بجائے ہندو جمہوریہ ہندوستان بنانا ہے۔اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو انڈیا ایسے داخلی انتشار اورخانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا کہ اس کے حصے بخرے ہوسکتے ہیں اور اس کی تیزرفتار ترقی زمین بوس ہو سکتی ہے۔کانگریس اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ وہ مودی کے خطرناک عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔انڈیا کا سیکولر آئین نہرو کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے انڈیا کی آزادی کے فوراً بعد دلت یا شودر قانون دان ڈاکٹر امبید کو آئین بنانے کی ہدایت کی تھی کہ وہ ایسا آئین بنا سکیں جس میں ذات پات،نسل اورلسان کی کوئی تفریق نہ ہو۔مودی اس شاندار آئین کو بدل کر رام راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندوتوا کی تحریک اس وقت زور وشور سے شروع کی جب ضیائ الحق نے 1973ئ کے آئین میں ردوبدل کر کے اسے اسلامی سانچے میں ڈھالا۔جس کے بعد آرایس ایس کے رہنماﺅں نے کہا کہ جب پاکستان اسلامی جمہوریہ ہوسکتا ہے تو انڈیا ہندو جمہوریہ کیوں نہیں کہلا سکتا۔دیکھیں کہ جون میں مودی کو کس حد تک کامیابی ملتی ہے۔

سردست اس بات پر غور وفکر کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ سطح سعودی وفد کے جانے کے بعد صدر ایران کے دورہ پاکستان کے کیا مقاصد ہیں۔آیا چند ہفتے بعد سعودی عرب وعدے کے مطابق پاکستان کے منصوبوں پرسرمایہ کاری کرے گا یا صاف انکار کرے گا کیونکہ سعودی ولی عہد کا لگاﺅ اور رجحان انڈیا کی طرف زیادہ ہے۔اسی طرح عرب امارات بھی انڈیا کی طرف خاص جھکاﺅ رکھتا ہے۔اسی خاطر اس نے اپنے ہاں دنیا کا سب سے بڑا مندرتعمیر کرنے کی اجازت دی ہے۔امریکہ عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کو کیوں سپورٹ کررہا ہے اس کا مقصد کیا ہے۔آیا اس کا مقصد پاکستان کو چین سے دور کرنا مقصود ہے یا کچھ اور ہے۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کوئی ثالثی پاکستان کے ہاں سے ہو رہی ہے اور یہ کون کر رہا ہے؟کیونکہ شہبازشریف میں اس طرح کی کوئی صلاحیت دکھائی نہیں دیتی۔کوئی اور شخصیت ایسی نہیں کہ وہ اتنا بڑا کام کر سکے۔ہاں پاکستان کے آرمی چیف کے ذریعے یہ کام ہوسکتا ہے کچھ عرصہ بعد جب صدر رئیسی کے دورے کے مقاصد معلوم ہو جائیں گے تب اس پر تبصرہ نگار اپنی آرائی دے سکتے ہیں۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/465199/feed 0 465199
!گواڑخ بلوچستان کا قومی پھول https://dailyintekhab.pk/archives/464170 https://dailyintekhab.pk/archives/464170#respond Sat, 20 Apr 2024 13:02:23 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=464170 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر ؛ احمد رضا بلوچ
بلوچستان کا مشہور پھول گواڑخ جسے ا±ردو میں گلہ لالہ اور انگریزی میں (ٹیولپ) کہا جاتا ہے ، یہ موسم بہار میں ایک سے ڈیڑھ مہینے جلوے دیکھتا ہے ، موسم گرما میں جب پھول اور پتے مرجا جاتے ہیں تو وہ غیر فعال ہو جاتے ہیں لیکن موسم بہار کے اوائل میں زیر زمین بلب سے شوٹ کی طور پر زمین کے اوپر ابھرتے ہیں گواڑخ کے پودے 10 سے 70 سینٹی میٹر (چار اور 28 انچ ) اونچے ہو سکتے ہیں ، گواڑخ کو بلوچستان کا قومی پھول بھی کہا جاتا ہے گواڑخ کا پھل ایک گلوبوز یا بیضوی کیپسول ہے جس میں چمڑے کا احاطہ ہوتا ہے اسے کھایا جا سکتا ہے لیکن اس عام طور پر کھانا نہیں سمجھنا چاہیے۔ گواڑخ ایک پھولدار پودا ہے پودوں کی اس کی کو جنس لعلع ٹیولپ کہاجاتا ہے گواڑخ کے 100 قریب اقسام ہیں ، یہ ایشیا کے علاوہ یورپ اور افریقہ میں بھی پایا جاتا ہے لیکن قازکستان کی جنگلی علاقے اور ہندوکش کے شمالی علاقے اس کا خاص وطن ہے، گوڑخ کے پھول عام طور پر سرخ نارنجی پیلے اور سفید ہوتے ہیں ۔

خیال کیا جاتا ہے کہ گواڑخ کی کاشت غالبا دسویں صدی سے فارس میں ہوئی تھی سولویں صدی تک وہ شمالی یورپیوں کی توجہ میں نہیں ائی تھی جب عثمانی محل میں یورپی سفارت کاروں نے ان کا مشاہدہ کیا اور رپورٹ کی پھر انہیں یعنی گواڑخ کو یورپ میں متعارف کرایا گیا پھر اس کے بعد ساری دنیا میں اس کا رواج ہو گیا ، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ گواڑخ کا تذکرہ قدیم زمانے کے کسی بھی مصنف نے نہیں کیا ، گواڑخ کو بلوچی اور براہوی ادب میں خاص حیثیت حاصل ہے گواڑخ اپنی خوبصورتی اور منفرد رنگ کی وجہ سے بلوچستان کے شعراءکا اظہار خیال کا مرکز بھی ہے بلوچستان میں اکثر لڑکیوں کے نام گواڑخ رکے جاتے ہیں ۔ بلوچ اور بروہی زبان کے شعراءکے کلام میں گواڑخ کا تذکرہ جا بجا ملتا ہے۔اس کے علاوہ گواڑخ مختلف قوموں مذاہب اور ملکوں میں مختلف چیزوں کی علامت ہے، گواڑخ ایران میں شہادت کی قومی علامت ہے ترکی میں زمین پر جنت کی علامت ہے ہالینڈ میں یہ زندگی مختصر ہونے کی نمائندگی کرتا ہے اور عیسائیت میں گواڑخ جذبہ ، یقین اور محبت کی علامت کے طور پر سمجھا جاتا ہے ۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/464170/feed 0 464170
قرب قیامت https://dailyintekhab.pk/archives/464092 https://dailyintekhab.pk/archives/464092#respond Sat, 20 Apr 2024 06:47:29 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=464092 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر: انور ساجدی
اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر ایک اور ناکام حملہ کیا ہے۔یہ حملہ اصفہان میں واقع ایٹمی سائٹس پر کیا گیا لیکن کوئی نقصان نہیں ہوا۔تنصیبات محفوظ رہیں۔گزشتہ ہفتہ ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا بعد کی اطلاعات کے مطابق کچھ میزائل اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات کے قریب گرے ہیں تاہم کوئی نقصان نہیں ہوا۔ کھیل کھیل میں یہ حملے کسی وقت بھی خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں اور کوئی ایسی انہونی ہوسکتی ہے جس سے مشرق وسطیٰ تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔مثال کے طور پر اگر کوئی ایسا حملہ ہوا کہ اس سے تابکاری پھیل گئی تو بڑے پیمانے پر تباہی پھیل سکتی ہے جس کی وجہ سے یہ خطہ باالخصوص اور پوری دنیا باالعموم متاثر ہوگی۔امریکہ نے گزشتہ شب سلامتی کونسل میں پیش کی گئی اس قرارداد کو ویٹو کر دیا جس میں فلسطین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت دینے کی سفارش کی گئی تھی۔امریکہ واحد ملک تھا جس نے قرارداد کی مخالفت کی جبکہ اسرائیل کے خالق ملک برطانیہ اور سوئٹزرلینڈ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔اس طرح امریکہ ایک بار پھر تنہا رہ گیا لیکن واحد سپرپاور ہونے کی وجہ سے وہ تنہا بھی سب پر بھاری ہے۔اگرچہ اسرائیل اور ایران کے حملے فرینڈلی فائر ثابت ہوئے ہیں تاہم ان حملوں سے اور ایران کے اسلحہ کی اسرائیل تک رسائی سے اس کے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر ملیامیٹ ہوگیا ہے۔اگر امریکہ اس کی حمایت ترک کر دے تو عرب عوام صیہونی ریاست کی تکہ بوٹی کر دیں گے۔مشرق وسطیٰ باالخصوص ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے علاقائی امن و سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔اس صورتحال نے پاکستان کے لئے بھی مشکل حالات پیدا کر دئیے ہیں جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایرانی صدر کے دورے کی تفصیلات طے کرنے کے لئے فارن آفس میں جب ایرانی سفیر پہنچے تو وہاں پر عین اس وقت امریکی سفیر کی آمد بھی ہوئی۔اسرائیل سے حالیہ کشیدگی کے بعد پاکستان پہلا ملک ہے کہ ایرانی صدر اس کا دورہ کر رہے ہیں۔ پاکستان امریکہ اور ایران سے تعلقات کے ضمن میں انتہائی محتاط ہے۔اگرچہ اس کا دل ایران کے ساتھ ہے لیکن عملی حمایت امریکہ کے ساتھ ہے۔پاکستان بحیثیت ریاست اس حد تک مضمحل ہے کہ وہ امریکہ کی ناراضی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ہمارے ریجن کے قریب روس اور یوکرین کے درمیان ایک جنگ بھی چل رہی ہے۔ پاکستان نے غیر جانب داری کا اظہار کیا ہے لیکن ایسے شواہد موجود ہیں کہ امریکہ نے اسے کسی نہ کسی طرح یوکرین کی مدد کرنے پر مجبور کیا ہے۔حالانکہ مستقبل میں جو پاور بلاک بن رہے ہیں ان میں ایک کی قیادت روس کرے گا جن میں ایران،شام،شمالی کوریا اورکچھ دیگر ممالک شامل ہیں۔ چین بھی اس میں شامل ہوسکتا ہے لیکن چین ایسا منافع خور ساہوکار ہے کہ وہ کسی تنازع میں حصہ لے کر ایک دن کا نقصان بھی برداشت کرنے کا روادار نہیں ہے تاہم نوبت مکمل جنگ تک آگئی تو دنیا کا دو بلاکوں میں تقسیم ہونا ناگزیر ہوگا۔بادی النظر میں یہ تیسری جنگ عظیم کا شاخسانہ ہوگا۔خدا نہ کرے کہ تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے کیونکہ اس سے کرہ ارض کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور کروڑوں یا اربوں لوگ ہلاک ہو جائیں گے۔پہلی اور دوسری جنگ کا سارا فائدہ امریکہ نے اٹھایا تھا کیونکہ یہ جنگیں یورپ میں لڑی گئی تھیں جبکہ امریکہ اس کے اتراث سے بہت دور تھا لیکن ٹیکنالوجی کی خطرناک ترقی نے ایسی صورت پیدا کر دی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس سے محفوظ نہیں ہے۔

چند سال قبل شمالی کوریا نے ایک خوفناک کمپیوٹر ڈیمو میں خبردار کیا تھا کہ اس کے پاس ایسے خطرناک ہائیڈروجن بم اور دیگر اسلحہ ہے کہ جس سے دنیا کے تمام سمندروں میں خوفناک سونامی برپا کئے جا سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کرہ ارض پر موجود ہر قسم کی حیات نیست و نابود ہو کر رہ جائے گی۔حال ہی میں یہ رپورٹ آئی ہے کہ چین خلا میں فوجی اڈے بنا رہا ہے جبکہ امریکہ پہلے بنا چکا ہے یعنی مستقبل میں زمین کے علاوہ خلا سے بھی حملے ہوں گے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا ایک خطرناک نمونہ تو کورونا تھا جس کے بارے میں امریکہ نے الزام لگایا تھا کہ یہ چین کے شہر دوہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا جو لیک ہوکر ساری دنیا میں پھیل گیا تھا۔اسی طرح کے بے شمار تجربات جاری ہیں اور انسان اپنے ہاتھوں سے خود اس خوبصورت دنیا اور اپنے مسکن کرہ ارض کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔عہد حاضر کے عظیم سائنس دان اور مفکر اسٹیفن ہاکنگ کی پیش گوئی ہے کہ انسان اپنے خطرناک تجربات سے دنیا کو تباہ کرے گا اور یہی قیامت ہوگی۔اس کے علاوہ اور کوئی قیامت آنے والی نہیں ہے۔ہماری دنیا میں مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس جیسے لوگ بھی ہیں جن کی خواہش ہے کہ دنیا کی آبادی کم ہو کر ایک ارب تک محدود ہو جائے۔دوسرے سیٹھ یا موجد ٹیسلاکے بانی ایلن مسک ہیں جو دنیا کی تباہی کی صورت میں خلا میں شہر بسا کر آبادی کے ایک حصے کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں ان کا اسپیس ایکس پروگرام کا یہی مقصد ہے۔جہاں تک جنوبی ایشیا کے ممالک کا تعلق ہے تو وہ ابھی تک سوچ رہے ہیں کہ اپنے عوام کی بھوک کیسے مٹائیں۔بدقسمتی سے ان ممالک میں پاکستان اور انڈیا بھی شامل ہیں۔پاکستانی اکابرین نے ابتداءہی میں قرارداد مقاصد لا کر ریاست کی سمت کو انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی طرف موڑ دیا تھا۔1958 کے ڈائریکٹ الیکشن کے ذریعے ملک کی قسمت چند درجن سیٹھوں اور ملاصاحبان کے حوالے کر دی تھی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم لاتے لاتے قرارداد مقاصد کو 1973ءکے آئین کا حصہ بنا دیا۔اس طرح و خوش حالی کی راہیں مسدود کر دی گئیں۔ نہ جانے آج پاکستان کیا ہے آیا یہ اسلامی ریاست ہے جمہوری ملک ہے،پارلیمانی نظام ہے یا پھرہر فرد واحد کی آمریت ہے کیونکہ اس کے نام کے ساتھ جو لاحقے ہیں وہ کسی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔یہاں پر ہمیشہ الیکشن کے نام پر فراڈ یا سلیکشن ہوتا ہے۔اس کے نتیجے میں جعلی نمائندے مسلط کر دئیے جاتے ہیں جن کی دماغی استعداد ذاتی خوشحالی کے حصول سے آگے نہیں ہے۔ جب پاکستانی حکمران یہ کہتے ہیں کہ جلد ملک خوش حال ہو جائے گا تو مطلب یہی ہے کہ ان کی ذاتی خوشحالی میں مزید اضافہ ہوگا یا جب یہ کہا جاتا ہے کہ عوام کی تقدیر جلد بدل جائے گی اس سے مراد ان کی خاندانی تقدیر ہوتی ہے۔اس کے پارلیمان کا یہ حال ہے کہ گدھا گاڑی ہانکنے والے ایک رکن باجا اندر لاتے ہیں اور اسے بجا کر سمجھتے ہیں کہ ان کی تکریم اور شوکت بڑھ گئی ہے۔سیاسی جماعتوں کا یہ حال ہے کہ پہلے ان کی حالت بلوچستان میں این جی او جیسی تھی اب سارے ملک میں اور ساری جماعتوں کی یہی پوزیشن ہوگئی ہے۔تحریک انصاف سے لے کر ن لیگ، پیپلزپارٹی اور علاقائی جماعتوں تک کے پاس سنجیدہ اور باوقار سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے۔ کسی جماعت کا باقاعدہ منشور نہیں ہے۔ اگر ہے تو کسی جماعتی سربراہ نے اسے پڑھا تک نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ لوگ کیسے اتنی بڑی ریاست کو 21 ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرسکتے ہیں جب مستقبل قریب میں ریاست کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہوگا تو تمام لیڈر اور اہم شخصیات بندروں کی طرح اچھل کود کے سوا اور کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔پاکستان کے پڑوسی بھارت میں بھی معاشی ترقی کے سوا حالات اچھے نہیں ہیں۔وہاں پر صرف یک جماعتی نظام قائم ہوگیا ہے۔بی جے پی کے مقابلے میں کوئی مدمقابل جماعت نہیں ہے۔ملک کی خالق جماعت کانگریس کا بہت برا حال ہے۔عام آدمی پارٹی کو بھی مودی نے زیر کررکھا ہے۔ایک ارب ووٹروں کا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ سماجی اعتبار سے پستی کی جانب رواں دواں ہے۔ہاں وہ معاشی اعتبار سے تیز رفتار ترقی سے ضرور ہمکنار ہورہا ہے اور آئندہ عشرے میں یا دو عشروں میں وہ دنیا کی تیسری بڑی معاشی پاور ضرور بن جائے گا لیکن مذہبی جنون کی وجہ سے اسے ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/464092/feed 0 464092
بلوچستان کی وادی ہربوئی جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے https://dailyintekhab.pk/archives/463935 https://dailyintekhab.pk/archives/463935#respond Fri, 19 Apr 2024 13:12:19 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=463935 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر: احمد رضا بلوچ

ہربوئی بلوچستان کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے یہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے چار گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ہربوئی سطح سمندر سے 9000 فٹ بلند ہے ، اس وجہ سے یہاں موسم سرد رہتا ہے بلکہ گرمیوں میں ٹھنڈ ہوتی ہے۔ اس علاقے میں کالے اور بنجر پہاڑوں کا سلسلہ ہے۔ہربوئی کا مطلع شدہ علاقہ (55,230 ایکڑ) جسے 1961 میں نوٹیفاءکیا گیا تھا۔
لفظ ہربوئی ایک قدیم لفظ ہے بعض دانشوروں کے مطابق یہ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں
"خوشبوو¿ں کا مجموعہ”
اربوئی میں پہاڑوں کا مشرقی سلسلہ ہے ہربوئی کا یہ پہاڑوں کا سلسلہ دشت کے علاقے ڈیغاری سے شروع ہو کر ضلع خضدار کے علاقے زہری تک ہے۔
اسے بروہی سلسلے کا ہربوئی سلسلہ کہا جاتا ہے۔
ہربوئی کی خوبصورت اپنی مثال آپ ہے یہاں سنوبر کے جنگلات پائے جاتے ہیں ہربوئی سنوبر کی جنگلات کی وجہ سے کافی مشہور ہیں سنوبر کی درختوں کو سب سے قدیم بڑھنے والی درختوں کے انواع میں شمار کیا جاتا ہے ۔
یہ 3ہزارسال سے زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں سنوبر بلوچستان کی دیگر علاقوں زیارت کوئٹہ اور مستونگ میں پائے جاتے ہیں۔ ہربوئی میں سنوبر کے درختوں کے علاوہ اور بھی درخت ہے جو ہربوئی کے مقامی ہیں یہاں مختلف قسم کے جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہے ایک رائے کے مطابق یہاں پائے جانے والی جڑی بوٹیاں بلوچستان کے اور علاقوں کے نسبت بہت زیادہ ہے۔
ہربوئی میں تقریباً پانچ قدرتی ندیاں ہے جو سارا سال بہتی رہتی ہے ، یہاں جنگلی جانور بھی پا? جاتے ہے۔ ہربوءمیں بلوچستان اور پاکستان کے مخلتف شہروں سے لوگ پکنک منانے کیلئے آتے ہے۔
ہربوئی کا راستہ بھی بہت خوبصورت ہے لیکن اس علاقے میں رہنے والے مقامی لوگوں کو حکومت کی طرف سے بنیادی ضروریات فراہم نہیں کی جاتی لہذا وہ اندھن پناہگاہ اور روزمرہ سہولت کے لیے یہ لکڑی کی طور پر استعمال کرتے ہیں جنگل کے وسائل کا استحصال کرتے ہیں.

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/463935/feed 0 463935
عرش سے فرش تک https://dailyintekhab.pk/archives/463517 https://dailyintekhab.pk/archives/463517#respond Thu, 18 Apr 2024 07:00:20 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=463517 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر: انور ساجدی
کراچی کی ایک سڑک پر گزرتے ہوئے مجھے سیلانی ،عالمگیر ٹرسٹ،اسلامی ٹرسٹ کے دسترخوان اور جے ڈی سی کا موبائل دستر خوان نظر آیا۔پہلے بحریہ ٹاﺅن بھی کئی دسترخوان چلاتا تھا لیکن منافع میں کمی کے باعث اس نے بند کر دیا۔کراچی کے علاوہ لاہور،راولپنڈی اور دیگر مقامات پر بھی غربا کو مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ برسوں پہلے غربا عبداللہ شاہ غازی اور داتا دربار جاتے تھے جہاں خیرات کے چاول اور زردہ مفت مل جاتا تھا۔کوئٹہ میں ملنگ کا ہوٹل اور کراچی کے سندھی مسلم سوسائٹی میں کیفے محمود کے باہر موالی نشئی اور دیگر غربا بڑی تعداد میں نظر آتے تھے اور شاید یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔عمران خان نے سیلانی کی مدد سے لنگرخانے کھولے تھے اور اربوں روپے دھان کر دئیے تھے ان کے جاتے ہی سلسلہ بند ہوگیا۔رمضان شریف میں ایک خبر میڈیا پر آئی کہ ایک نمائشی سیٹھ نے اپنے لنگرخانے کے ذریعے غریبوں کے لئے ایک افطار کا اہتمام کیا جس میں دیگر لوازمات کے ساتھ شترمرغ کا گوشت خاص طورپر پیش کیا گیا۔ پاکستان میں شترمرغ کا گوشت سب سے مہنگا ہے۔ویسے تو لنگر خانے کھولنا ثواب کا کام ہے لیکن پاکستان میں یہ ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے۔کلفٹن کے بلاک8 میں سیلانی کے لنگرخانے میں بڑی تعداد میں بکرے بندھے نظر آتے ہیں۔یہ بکرے صاحب ثروت لوگ لے آتے ہیں تاکہ غریبوں کا پیٹ تازہ گوشت سے بھرا جا سکے۔ آبادی اور غربت میں اضافہ کی وجہ سے بھیک مانگنا، لنگرخانوں سے جاکر غذا حاصل کرنا اور دسترخوان کھولنا ایک بہت بڑا اور منافع بخش بزنس بن چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ضرورت مند بھی ان سے فیضیاب ہوتے ہوں لیکن اکثر تعداد نشئی لوگوں کی ہے جو رات کو چوری چکاری کر کے نشہ کا سامان لے آتے ہیں اور خیراتی لنگرخانوں سے مفت کا کھانا کھاتے ہیں۔اس عمل نے غربا اور فقیروں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ کر دیا ہے۔

گزشتہ دنوں ایک سروے آیا تھا جس کے مطابق پاکستان کے بھکاریوں کی تعداد3کروڑ80 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جو کل آبادی کا20فیصد حصہ بنتا ہے لیکن درحقیقت بھکاریوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔تمام بڑے شہروں اور خاص طور پر کراچی میں بھکاریوں کے جتھے سڑکوں پر نظرآتے ہیں ان میں سے اکثر کا تعلق ملک کے دیگر علاقوں سے ہوتا ہے۔پاکستان تشکیل تو پایا تھا ایک ویلفیئر اسٹیٹ کے طور پر لیکن حکمرانوں اور اداروں کی غلط پالیسیوں نے76 سال کے دوران اسے نہ صرف انحطاط کا شکار کر دیا بلکہ قوموں کی برادری میں اسے شدید پستی میں گرا دیا۔فیس بک کے ایک سروے کے مطابق ایشیاءکے48 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر44ہے۔اتنی پستی اور پسماندگی کا شکار کوئی اور ملک نہیں ہے۔ ایک اور سروے کے مطابق پاکستان کا تعلیمی اور صحت کا بجٹ ساری دنیا سے کم ہے جبکہ اس کے غیر منافع بخش کاموں کا بجٹ سب سے زیادہ ہے۔اس کی وجہ سے پاکستان تعلیم،تکنیک اور جدید ٹیکنالوجی کی دوڑ میں کسی شمار میں نہیں آتا۔ساتھ ہی یہ خبر آئی تھی کہ انڈیا کی سافٹ ویئر ایکسپورٹ سعودی اور عراق کی تیل کی مالیت سے بڑھ گئی ہے۔ہوا یہ کہ پاکستان میں گنگا جمنی پروفیسروں نے حقیقت سے دور اور خیالی کہانیوں پر مبنی نصاب ترتیب دیا۔اس نصاب نے سائنس دان اور موجدوں کے بجائے محمد بن قاسم،احمد شاہ ابدالی،غوری اور غزنوی پیدا کئے۔اگر پیدا نہیں کئے تو طلباءیہی سمجھتے ہیں کہ نسیم حجازی کے ناولوں کے یہ کردار ہی اصلی ہیرو ہیں۔صفدر شاہ فرماتے ہیں کہ 1965ءکی جنگ کے دوران ہری پگڑی پہنے کچھ فرشتہ نما بزرگ انڈیا کے میزائلوں کو ہاتھ سے پکڑ کر پھینک دیتے تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ شاہ جی1971 کو یہ بزرگ کہاں چلے گئے تھے توجواب ندارد۔دو سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام اور قدیر خان پیدا ہوئے تھے لیکن ہری پگڑی پہنے ہوئے بزرگوں نے ان کا وہ حشر کر دیا جو ہزار سال پہلے البیرونی،الخوارزمی،امام ابوحنیفہ اور دیگر اکابرین کا کیا گیا تھا۔ڈاکٹر عبدالسلام نے پہلا نوبل پرائز جیتا لیکن مسلک کی وجہ سے انہیں دھتکار دیا گیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ 76سالوں کی بدعنوانیوں،کرپشن اور بیڈ گورننس نے پاکستانی قوم کو بھکاری بنا دیا۔یہاں پر بھکاریوں کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔پہلے درجہ میں تو عام لوگ اور پیشہ ور بھکاری ہیں دوسرے درجہ میں اعلیٰ افسران تیسرے درجہ میں وزراءاور پارلیمنٹ کے اراکین جبکہ اعلیٰ درجہ کے بھکاریوں میں بڑے بڑے سیٹھ اور خاص لوگ شامل ہیں۔یہ لوگ سب سے زیادہ فائدے میں ہیں۔معاشرہ میں انہیں بڑا بڑا سیٹھ کہا جاتا ہے لیکن یہ خزانہ اور معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور میں ان سیٹھوں نے ہیرپھیر کر کے ایک رات میں اسٹاک ایکس چینج کے ایک سو ارب روپے لوٹ لئے تھے۔یہ سبسڈی ،امداد،قرضوں ،ری فنڈ اور ری بیٹ کے نام پر مسلسل لوٹ مار کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔دیانت داری اور ایمانداری کے مجسم لیڈر عمران خان نے ایک ہی دن میں کورونا کے نام پر آئی ہوئی عالمی امداد میں سے3 ارب ڈالر کی خطیر رقم ان بھکاری سیٹھوں میں تقسیم کر دی تھی۔ماضی میں بیوروکریسی کا طبقہ منصوبوں میں سے کک بیک اور کمیشن وصول کرتا تھا لیکن کافی عرصہ پہلے یہ کام ایک اور طاقتور طبقہ نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔باعث شرم واقعہ ہے کہ جس دن شہبازشریف،ان کی بھتیجی مریم نواز اور وفد کے دیگر اراکین سعودی ولی عہد کو کورنش بجا لانے اور عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب میں موجود تھے تو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ تین ہزار چار سو پاکستانی بھکاریوں کو گرفتار کر لیا گیا جو پاکستانی زعما گئے تھے وہ بھی دراصل صدقہ خیرات،امداد اور قرض مانگنے گئے تھے لیکن ان کی عزت رکھی گئی۔کوئی تین سال پہلے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں سعودی عرب کے وزیرخزانہ نے کہا تھا کہ آئندہ کسی کو امداد نہیں ملے گی۔البتہ سرمایہ کاری کو فوقیت دی جائے گی۔یہی غرض لے کر شہبازشریف سعودی عرب گئے تھے ان کی درخواست پر وزیرخارجہ ایک بڑے وفد کے ساتھ پاکستان آیا یہاں پر پاکستانی حکومت نے ریکوڈک،پی آئی اے اور متعدد دیگر ادارے ان کے سامنے پیش کر دئیے یہ بھی کہا کہ سمندر میں جہاں چاہو ریفائنری قائم کردو۔اسلام آباد میں فائیو اسٹار ہوٹل بناﺅ۔بھاشا ڈیم بھی لے لو۔اس رپورٹ کی جب تفصیلات سامنے آئیں گی تو لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے۔ہم تو معیشت کے طالب علم بھی نہیں بلکہ صفا کورے ہیں لیکن اگر یہ اثاثے بک بھی گئے یا ان پر سرمایہ کاری بھی ہوئی تو ان کی بدولت اتنا بڑا ملک اتنی بڑی آبادی اور اتنے زیادہ اخراجات کیسے چلیں گے اور پورے ہوں گے۔شہباز حکومت تو ہاتھ پیر ماررہی ہے کوشش کر رہی ہے لیکن ملک کو اس حال میں پہنچانے میں متعدد حکومتوں اور شخصیات کا کردار ہے۔اگر ایک ریاست اپاہج ہے تو اس کے ریلوکٹے معذور حکمران اسے کیسے21ویں صدی کے چیلنجوں سے نکال باہر کریں گے۔

ناقص منصوبہ کیا ہوتا ہے کہ عرب امارات کے سیلاب برد ہونے کے واقعہ سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔دبئی کی عالی شان عمارتوں کا دبدبہ ایک طوفانی بارش نے ملیا میٹ کر دیا ہے جبکہ پاکستان میں سرے سے کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں ہے۔پالیسیوں کا کوئی تسلسل نہیں ہے۔ہر حکومت اپنی پالیسی ایڈہاک ازم کی بنیاد پر لاتی ہے۔عالم یہ ہے کہ رات کو وفاقی حکومت تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرتی ہے صبح وزیراعلیٰ پنجاب اپنے والد میاں نوازشریف کے ہمراہ تندوروں کا معائنہ کر کے روٹی کی قیمت کم کرنے کا حکم دیتی ہے۔بھلا جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو تو روٹی سمیت دیگراشیاءکی قیمتیں کیسے کم ہوسکتی ہیں۔حیف ہے مریم نواز پر کہ انہوں نے بزرگ والد محترم اور پارٹی کے سپریم لیڈر کو عرش سے گرا کر تندوروں تک پہنچا دیا ہے۔ماضی میں پرائس کنٹرول کے اہل کار اور اعزازی مجسٹریٹ یہ کام کرتے ھتے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے لیڈروں کا کیا لیول رہ گیا ہے۔نوازشریف کی اس بے تکریمی سے بہتر ہے کہ انہیں باقی ماندہ زندگی لندن میں گزارنے کی اجازت دی جائے۔انہیں رائے ونڈ اور لاہور میں نظربند کرنا اور تندور کمیٹی سے مذاکرات پر مجبور کرنا کم عقلی کی انتہا ہے۔ان حالات و واقعات سے عیاں ہے کہ مستقبل قریب میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔معیشت سیاست اور آئینی بحران میں مزید اضافہ ہوگا کوئی ایسی لیڈرشپ نہیں جو ان بحرانوں کو حل کرسکے۔جنرل ضیاءالحق کے دور میں شہر شہرپرائس کنٹرول کمیٹیاں بنی تھیں کوئٹہ کی کمیٹی کے اعزازی سربراہ سردار خیرمحمد تاجک تھے خدا کی قسم ان کی کارکردگی مریم اور نوازشریف سے بہترتھی۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/463517/feed 0 463517
پڑوس میں جنگ کا خطرہ https://dailyintekhab.pk/archives/463047 https://dailyintekhab.pk/archives/463047#respond Tue, 16 Apr 2024 13:04:31 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=463047 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر: انور ساجدی
پاکستان کے پڑوس میں اور بلوچ ساحل کے آمنے سامنے جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔اسرائیل پرایران کے جوابی حملوں کے بعد خطرہ ہے کہ اسرائیل ایران کو طاقت کے ساتھ جواب دے گا تاہم سردست اسرائیل کی یہ کوشش ناکام ہوگئی ہے کہ امریکہ بھی جنگ میں ملوث ہو جائے۔صدر بائیڈن جو خود اپنے ملک میں الیکشن کی جنگ لڑ رہے ہیں اور جنہیں سخت ترین حالات کا سامنا ہے اسرائیل کے ساتھ عملی جنگ سے گریزاں ہیں۔ ایران نے اسرائیل کے مختلف ٹھکانوں کو ڈرون اور میزائلوں سے جو نشانہ بنایا وہ دراصل فرینڈلی فائر کی حیثیت رکھتے ہیں۔اکثر ایرانی میزائل خاص ٹھکانوں پر نہیں گرے بلکہ ادھر ادھر گرے۔ اس کے باوجود خطے میں ایران کا رعب قائم ہوگیا ہے اور اس نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ ایرانی حملوں سے یہ بھی ثابت ہوگیا ہے کہ اسرائیل اب ناقابل تسخیر نہیں رہا۔فضائی حملوں سے قبل ایران نے بحر بلوچ میں آبنائے ہرمز کے قریب ایک اسرائیلی جہازکو بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا اس واقعہ کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ جہاز کے عملے میں دو پاکستانی بھی شامل ہیں جن کی رہائی کے لئے پاکستانی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان دعا مانگے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی نہ بڑھے اور نوبت جنگ تک نہ آئے اگر خلیج متاثر ہوا تو شاخ نازک کے طور پر پاکستان زیادہ متاثر ہو گا ۔ مثال کے طور پر اگر ایران نے آبنائے ہرمز سے تیل کے جہازوں کی گزرگاہ بند کر دی تو ساری دنیا اور بالخصوص مشرقی ایشیا ہندوستان سخت متاثر ہوں گے۔آبنائے ہرمز سے دنیا کا کل20 فیصد تیل گزرتا ہے جب بلوچستان متحد تھا تو آبنائے ہرمز کے حوالے سے بندرعباس تک کا علاقہ صوبہ ”ہرمزگان“ کہلاتا تھا۔ایران نے ڈیموگرافی تبدیلی کے ذریعے صوبوں کے نام تبدیل کر دئیے ہیں اور کافی سارے علاقے بلوچستان سے علیحدہ کر کے اس کے نام کے ساتھ سیستان کا لاحقہ بھی لگا دیا ہے۔اس کی کوشش ہے کہ جلد یا بدیر بلوچستان کا نام کاٹ کر صوبے کا نام صرف سیستان رکھ دیا جائے۔

اسرائیل کے خلاف ایران کی کارروائی کے بعد صرف شام،یمن،حماس اور حزب اللہ نے اس کی حمایت کر دی ہے جبکہ سعودی عرب کی قیادت میں امریکی اتحاد نے اس کی مذمت کر دی ہے جبکہ اردن کے فوجی اڈوں سے اڑنے والے اینٹی میزائل سسٹم نے ایرانی میزائلوں کو نشانہ بنایا۔اگر امریکہ کو ضرورت پڑی تو وہ بحرین،کویت ،یو اے ای اورقطر کے اڈے بھی ایران کے خلاف استعمال کر سکتا ہے تاہم خلیجی ممالک جنگ سے خوفزدہ ہیں کیونکہ ایران خطے کی سب سے بڑی طاقت ہے اگر خلیجی چھوٹے ممالک نے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں حصہ لیا تو ایران انہیں ملیامیٹ کر سکتا ہے یہ جو بلند بالا عمارتیں اور خوشحالی ہے یہ پل بھر میں زمین بوس ہو جائیں گی۔یورپی ممالک مسلسل اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کا قضیہ اگر جاری رہا تو یہ تیسری جنگ عظیم کا باعث بن سکتا ہے۔ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ہوں گے جبکہ دوسری جانب روس،ایران، شمالی کوریا،شام اور عراق ہوں گے البتہ چین منافقانہ درمیانی پالیسی اختیار کرے گا۔روس کے صدر پوتن نے یوکرین کی جنگ کی وجہ سے کافی عرصہ پہلے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکہ نے مشرقی یورپ میں ایٹمی میزائل نصب کر دئیے تو روس ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہوگا۔گو کہ بظاہر یہ ناممکن نظر آتا ہے کہ کوئی بھی ملک ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کرے کیونکہ اس سے ساری دنیا تباہ ہو جائے گی اس وقت سات ممالک اعلان شدہ ایٹمی قوت ہیں یعنی امریکہ، روس، چین،برطانیہ،فرانس،انڈیا اور پاکستان جبکہ اسرائیل بھی ایک خفیہ ایٹمی قوت ہے اس نے اپنے ہتھیاروں کا کولڈ ٹیسٹ کر لیا ہے چونکہ وہ بہت چھوٹا ملک ہے اس لئے وہ کھلے عام تجربات نہیں کرسکتا۔اسرائیل اتنا چھوٹا ہے کہ اس پر ایٹمی حملہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس سے دیگر پڑوسی ممالک بھی تباہ ہو جائیں گے البتہ امریکہ اور اسرائیل ایران کو ایٹمی حملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں کیونکہ ایران بہت وسیع و عریض علاقہ ہے۔ کافی سال پہلے اسرائیل نے ایران کے ایٹمی سائٹس کو نشانہ بنایا تھا لیکن یہ زیرزمین سائٹس محفوظ رہے تھے۔حالیہ جنگ کے دوران وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ دو اسرائیل مخالف ملک ایران اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت سے اسرائیل کو خطرہ ہے حالانکہ پاکستان کی ریاست اور حکومت اسرائیل کے مخالف نہیں ہیں ان کی مخالفت محض زبانی کلامی ہے صرف بھٹو نے اسرائیل کی مخالفت کی تھی اور 1973 کی جنگ میں پاکستانی پائلٹوں نے باقاعدہ حصہ لیا تھا۔بھٹو کے بعد جب عالم اسلام کے عظیم سپہ سالار مرد مومن ضیاءالحق کی قیادت میں افغان جنگ لڑی گئی تھی تو اسرائیل کی بے شمار نفری اسلام آباد میں مقیم تھی اور روس کے خلاف جنگ میں امریکی دستوں اور باریش مجاہدین کا ساتھ دے رہی تھی۔جنرل پرویز مشرف کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری نے انقرہ میں اسرائیل کے وزیرخارجہ سے باضابطہ ملاقات بھی کی تھی ۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے دور میں ایک وفد بھی اسرائیل بھیجا تھا وفد میں تحریک انصاف کے حامی امریکی شہری اور ایک پاکستانی صحافی شامل تھا۔پاکستان کی پالیسی سعودی عرب کے ساتھ وابستہ ہے اگر کل سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرے تو پاکستانی حکام بھی اس بارے میں غوروفکر کرینگے لیکن انہیں اپنے عوام کے غیض و غضب کا ڈر ہے کیونکہ پاکستانی عوام یہودیوں اور اسرائیل کے بارے میں خاصے جذباتی ہیں اور وہ اسرائیل کا نام تک سننے کے رودار نہیں ہیں حالانکہ خود پی ایل او مصر اردن تیونس متحدہ عرب امارات اور ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔
ایک بات واضح ہے کہ اسرائیل زیادہ دیر تک جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا حالیہ جنگ نے اس کی معیشت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔امریکہ اب تک اسے اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرچکا ہے اور کئی ارب ڈالر کی امداد دے چکا ہے۔معیشت کی خرابی کی وجہ سے اسرائیل کے اندرونی سیاسی حالات بھی خراب ہیں اور لوگ نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اگر اسی دوران عام انتخابات ہوئے تو نیتن یاہو بری طرح ہار جائیں گے۔ادھر پاکستانی حکومت اور معیشت نے ابھی تک ٹیک آف نہیں کیا ہے۔ شہبازشریف کی حکومت حد درجہ کمزور،مضمحل اور ناتواں ہے۔اسے فارم47 کی کامیابی کے چیلنج کا سامنا بھی ہے جبکہ اپوزیشن نے ایک تحریک کا آغاز بھی کر دیا ہے۔اگر تحریک انصاف اور جمعیت نے بھرپور طریقے سے تحریک میں حصہ لیا تو سیاسی عدم استحکام عروج پر پہنچ جائے گا۔بلاول زرداری نے واضح طور پر کہا ہے کہ اپوزیشن پی این اے ٹو ہے۔پی این اے ون نے1977 میں ان کے نانا بھٹو کا تختہ الٹ دیا تھا۔اس تحریک کو فوج کی حمایت حاصل تھی جبکہ اس وقت شہبازحکومت کو یہ حمایت حاصل ہے۔عدم استحکام کا یہ عالم ہے کہ دو صوبوں بلوچستان اور پختونخواہ میں ابھی تک کابینہ تشکیل نہیںپاسکی۔اس کی وجہ اتحادیوں کے اندرونی اختلافات ہیں جبکہ پختونخوا میں کابینہ سازی پر تحریک انصاف کے اندر شدید اختلافات ہیں۔وہاں پر عمران خان کے جیالے امین گنڈاپور کا سافٹ وئیر تبدیل کرنے کا عمل جاری ہے۔توقع ہے کہ یہ عمل جلد مکمل ہو جائے گا جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں پر شنید کے مطابق سینئر وزارت پر اختلافات ہیں۔تقسیم کے فارمولے کے تحت یہ عہدہ ن لیگ کو ملنا ہے لیکن پیپلزپارٹی خود یہ عہدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔کابینہ کی تشکیل میں تاخیر سے حکومتی مشینری ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔ بلوچستان حکومت کو امن وامان اور دہشت گردی میں اضافہ کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔حالانکہ طویل عرصہ سے لا اینڈ آرڈر ایک اسپیشل سبجیکٹ ہے اور تزویراتی طورپر اہم ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت کا عمل دخل بہت کم ہے۔بہرحال حقائق کچھ بھی ہوں ڈرائیونگ سیٹ پر جو وزیراعلیٰ تشریف فرما ہیں حالات کو ٹھیک کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔باقی دو صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں اسٹریٹ کرائم قابو سے باہر ہے اس کی وجہ بے روزگاری، معاشی زبوں حالی اور اسلحہ کی فراوانی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعات پوسٹ انارکی کا شاخسانہ ہے۔اگر صوبائی حکومتیں اسی طرح کمزور اور بے بس رہیں تو حالات قابو سے باہرہو جائیں گے۔سندھ میں کچے کے ڈاکو پولیس کے مقابلے میں زیادہ بالادست ہیں اور کیا گیا حکومتی آپریشن کامیاب دکھائی نہیں دے رہا۔اس کے علاوہ ایک بھاری بھرکم سعودی وفد پاکستان آ رہا ہے جو سرمایہ کاری کے مختلف پہلوﺅں پر غور کر رہا ہے۔حکومت سعودیہ کو ریکوڈک پراجیکٹ پر سرمایہ کاری کی پیش کش کر چکی ہے۔دیکھیں کہ یہ منصوبہ سعودی حکومت کو قائل کر سکتا ہے کہ نہیں کیونکہ موجودہ حکومت بے حد کمزور ہے اور ایسی حکومت کے دور میں سرمایہ کاری مشکل ہے۔اوپر سے سیاسی عدم استحکام عروج پر ہے یعنی سرمایہ کاری کے لئے حالات انتہائی ناموافق ہیں۔پاکستان میں اس وقت روز کماﺅ اور کھاﺅ والی پوزیشن ہے۔کمائی بھی قرضوں ،امداد اور عطیات کی مرہون منت ہے۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/463047/feed 0 463047
تہذیبی شکنی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار اور تیسری دنیا کا گرداب https://dailyintekhab.pk/archives/462987 https://dailyintekhab.pk/archives/462987#respond Tue, 16 Apr 2024 09:42:57 +0000 https://dailyintekhab.pk/?p=462987 ..مزید پڑھیں ]]> تحریر : انجینئر محمد صدیق کھیتران

(گزشتہ سے پیوستہ )
اصل اسٹوری چھ مہینے قبل جاری کی گئی تھی تو اس وقت پڑھنے والوں کی تعداد 32 صفحوں پر مشتمل تھی۔ لیکن جب حکمران پارٹی کی سوشل ٹیم نے اس واقعہ کو اپنے پیچز پر نیا واقعہ بنا کر پیش کیا تو اس کو پڑھنے والوں کی تعداد 105،000 صفحوں پر پہنچ گئی۔اس طرح کہانی پڑھنے والوں کی تعداد 3281 گنا بڑھ گئی۔واقعہ کی رپورٹنگ کرنے والے اکاو¿نٹس ہولڈروں کو کنگھالاگیا تو بظاہر 26 اکاونٹ فیک نکلے۔ان کے پروفائلز کا موازنہ ہوا تو اکثر کا مخصوص علاقوں سے ہی تعلق نکل رہا تھا۔مثلا” ایک نے لکھا ہوا تھا کہ وہ سافٹ ویئر تجزیہ نگار ہے۔ اس کے اصل اکاونٹ کےبمطابق اس کے دوستوں کی کل تعداد صرف 17 تھی۔جبکہ وہ خود 100 سے زیادہ فیس گروپس کا ممبر تھا۔اس طرح ایک گروپ کے ارکان کی تعداد ہزاروں پر مشتمل تھی۔جب ایک فیک پیغام جاری ہوتا تھا۔ تو وہ براہ راست 30 سے 40 لاکھ افراد کے پاس چلاجاتا تھا۔اس جیسے ہزاروں دیگر فیک اکاونٹ روجیرو ڈیوریٹ کی سوشل ٹیم کا حصہ بنے۔موصوف ٹارگٹ کلر کی شہرت رکھتے تھے۔فلپائن کی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس کے دور صدارت میں 27 ہزار افراد کی ماورائے عدالت قتل کی شکائتیں درج کرا رکھی تھیں۔ ملک میں جب آمر قابض ہوتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ انتظامیہ، مقننہ،کاروبار اور میڈیا کو کمزور کرتے ہیں۔یہی کام روجیرو ڈیوریٹ نے کیا۔اس نے بزنس مین رابرٹو آنگپن کی کمپنی کے خلاف میڈیا کو استعمال کیا۔جس سے اس کی کمپنی کے حصص کی قیمت 46.3% گر گئ۔ اس نے اپنے مئیر شپ دور کے دوست کی کمپنی یوفنگس کو سپورٹ کیا تو نا صرف ملک کا نیا بزنس ٹائیکوئن پیدا ہوگیا بلکہ اس کی کمپنی کے حصص کی قیمت 92% تک بڑھ گئ۔اسی طرح سابق سیکریٹری ہیومن کمیشن اور موجودہ سینیٹر لیلٰی ڈی لیما نے جب ماورائے عدالت ٹارگٹ کلنگ کے تحقیقاتی کمیشن کی سربراہ بنی تو اس کے خلاف گندی وڈیوز،الزام تراشی اور سزایافتہ منشیات فروش قیدیوں سے جھوٹی گواہیاں دلا کر 6 سال تک جیل میں رکھا گیا۔میڈیا کی 2021 کی نوبل انعام یافتہ صحافی ماریا رئیسہ پر 12 جعلی مقدمات چلاکر جیل میں بند رکھا گیا۔

اس کا نقصان یہ ہوا کہ دنیا سے نظریاتی سیاست سکڑ گئی۔اس کی جگہ پر شخصیات کو چلانے والی سیاسی جماعتیں آگے آگئیں۔ معاشروں میں مایوسی پھیلنے لگی ہے۔اکثر نوجوان جمہوری سیاست سے کنارہ ہوکر تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں۔سوشل میڈیا گاڑی کی طرح اپنا دشمن خود ہے جو بھی اس کی سیٹ پر سوار ہوجائے تو پھر جہاں وہ لے جائے اس ڈرائیور کی مرضی ہے۔سوشل میڈیا کی بات سرحدوں تک بھی محدود نہیں رہتی۔جو پیغام مقامی لگتا ہے وہ دراصل گلوبل بن جاتا ہے اور اسی طرح گلوبل پیغام بیک وقت لوکل بھی ہوتا ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں۔جس سے اکیسویں صدی میں دنیا کے اندر قانون کی حکمرانی اور جمہوری نظام کی دوراندیشی پر شکوک اٹھنے لگے ہیں۔کوئی موثر ریگولیٹری نظام نہیں رہا ہے۔آن لائن سوشل میڈیا کے انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن منیجرز ، دونوں کو استثنءحاصل ہے۔ یہی استثنءپھر آف لائن زندگی میں داخل ہوجاتا ہے۔ سماجی معاملات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اثر پزیری ایک دیوتا کا روپ دھار چکی ہے۔جو ہماری زندگیوں کو جھوٹ، فریب اور ریاکاری کے وائرس سے متاثر کر رہی ہے۔ ڈس انفارمیشن ہی دراصل انسانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیتی ہے۔سماج میں تشدد، بدگمانی، خوف ،غصہ ، نفرت اور بیگانگی کا ماحول معمول بن گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 122 ممالک میں قائم جمہوری نظام داو پر لگ گیا ہے۔ رجعت، آمریت اور مطلق العنانیت تیزی سے واپس آرہی ہے۔اکیسویں صدی کی سیاست میں نفرت، غصہ، جھوٹ،چوری ،دھوکہ اور تابعداری رواج پاچکی ہے۔حالانکہ حقائق کے بغیر سچائی کی تلاش ناممکن ہے۔ جب سچائی نہیں ہوگی تو اعتماد نہیں ہوگا۔اور جب کسی سماج میں یہ بنیادی اجزائے ترکیبی غائب ہو جایئنگے تو وہاں جمہوریت نہیں رہے گی۔ماہرین کہتے ہیں بظاہر دکھائی نہ دینے والا جوہری بم ہمارے انفارمیشن نظام کے اندر پھٹ چکا ہے۔اس کا چین ری ایکش ہر جگہ اور ہر زندگی کے ہر پہلو میں دکھائی دے رہا ہے۔ ٹیکنالوجی نے جیو انفارمیشن کی مدد سے جیو پولیٹیکل پاور حاصل کرلی ہے۔ سچی مگر پریشان کن بات یہ ہے فیک اطلاعاتی نظام نے آمروں کیلئے آسانیاں پیدا کردی ہیں۔دنیا میں واپس مذہبی شدت پسندی،نسل پرستی اور توسیع پسندی جیسے المیے جنم لے رہے ہیں۔2014 میں ہی روس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا غلط استعمال کرکے سرعت سے کریمیا پر قبضہ کیا اور وہاں پہلے مرحلے میں تابعدار ریاست قائم کی۔قدیم قابضین کی طرح پھراس ریاست کو اپنی مملکت میں ضم کردیا۔ اس نے امریکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارموں کواپنے ریاستی مقاصد کیلئےاستعمال کیا۔اس نے مسلسل جھوٹ پھیلا کر ایک نیا ماحول پیدا کیا۔پیغام رسانی اور جھوٹ کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کیلئے "بوٹس” کی فوج تیار کی۔ان کی مدد سے دنیا میں حقائق کو کاربن لگایا۔جب وہ اس محاذ پر کامیاب ہوا تو 8 سال بعد 24 فروری 2022 کو یوکرین پرحملہ آور ہوا۔اس جنگ کو دوسال سے زیادہ وقت گزر چکا ہے مگر ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے دنیا انرجی کے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔تیل کی قیمت 56.33% تک بڑھ گئی ہیں۔خوراک کی پیداوار میں کمی اس کے علاوہ ہے۔دنیا مہنگائی کی چکی میں پس کر رہ گئی ہے۔

ہٹلر کے پروپہگنڈا وزیر "پاول جوزف گوئبلز” کہاکرتے تھے۔ اگر تم بہت بڑا جھوٹ بولتے ہو تو اس وقت تک اس کو دوہراتے رہو جب تک لوگ اس پر یقین نہ کرلیں۔ٹیکنالوجی اس جھوٹ کو ایک منٹ میں ہزاروں دفعہ دہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔شاید ایک وجہ یہ بھی ہو۔کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد نئے تقاضے نبھانے کیلئے اقوام متحدہ، نیٹو جیسے دفاعی اتحاد، میثاق عالمی انسانی حقوق اورعالمی عدالت انصاف جیسے ادارے بنائے گئے۔مگر 1990 کی دھائی میں ختم ہونے والی سرد جنگ کے بعد نئے تقاضوں کے مطابق ادارے نہ بن سکے۔ تہزیبی خلفشار کو سنبھالنے کیلئے آج دنیا کو نئے عالمی اداروں کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔جمہوریت اپنی جگہ وقعت کھو رہی ہے۔اس کو بچانا پورے پورے کرہ ارض کے 8 ارب انسانوں کی ذمہ داری بنتی ہے۔ مغرب کی نئی پود کو شاید جمہوریت کی اتنی قدر نہیں ہے۔ان کو جمہوریت کی ضرورت کو سمجھنے کیلئے تیسری دنیا خاص کر اسلامی ممالک سعودی عرب، ایران،مصر اور پاکستان جیسے ملکوں سے سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ہمارے ہاں تو اب تربت جیسے شہروں کی مئیر شپ پر بھی کروڑوں روپے اسٹیبلشمنٹ کو دینے پڑتے ہیں۔امریکہ کی پرنسٹن یونیورسٹی میں جب طلبا کوامتحان کیلئے پرچہ دیا جاتا ہے۔تو طلبا کو پیپر شروع ہونے سے پہلے یونیورسٹی کے اعزازی کوڈ کی پابندی کیلئے دستخط کرنے پڑتے ہیں۔ایک دفعہ جب کمرہ امتحان میں طلبا دستخط کرلیتے ہیں تو اساتذہ سوال نامہ ان کے حوالے کرکے خود کمرہ امتحان سے چلے جاتے ہیں۔اس کے بعد پوری جماعت کسی کو نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔کیونکہ اب اس عہد کی پابندی سب کی مشترکہ ذمہ داری بن جاتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 23 کروڑ کا ملک جس میں 98.5% مسلمان آبادی ہو وہ 50 سالوں میں ایک دفعہ بھی شفاف انتخابات کیوں نہیں کراسکتا۔ ہمارے ملک کی کریم اپنے ناموں کے ساتھ کئی سابقوں و لاحقوں کے ساتھ جسٹس، جرنیل، سردار، سید زادہ ، مومن، الحاج اور حافظ ساتھ لگاتے ہیں۔ مگر تاریخ کے سامنے سب بے آبرو ہیں۔تاریخ گواہ ہے یہ فوجی آمر کسی کو مفت میں جمہوریت نہیں دیتے۔21 اگست 1983 کو فلپائن کے جلاوطن سیاسی راہنما نینو اکینو نے جب وطن واپس آنے کی حامی بھری۔تو وہاں پر1972 سے غاصب فرڈیننڈ مارکوس مارشل لا کی طاقت سے اقتدار پر قابض چلا آرہا تھا۔اس نے ملک میں ظلم و جبر کی انتہا کر رکھی تھی۔ اس دور کے حزب اختلاف کے سیاسی راہنما "نینواکینو” کو اپنی جان کی فکر رہتی تھی۔وہ میڈیا پر آکر کہتا رہا۔جلاوطنی میں بھی بلٹ پروف جیکٹ پہن کر گھر سے نکلتا ہوں۔اس کا خدشہ درست نکلا۔ جیسے ہی جلاوطنی چھوڑ کر وہ منیلا کے ائیر پورٹ پہنچا۔ابھی وہ جہاز کی آخری سیڑھی سے نہیں اتر پایا تھا کہ وہاں پر کھڑے فوجی نے سرپر گولی مار کر اس کو قتل کر دیا تھا۔ ان آمر لوگوں کو نہیں پتہ ہوتا۔ سیاست کبھی نہیں مرتی۔اکینو کی بیوہ” کوریزان اکینو” میدان سیاست میں اترگئی۔ 1986 کو فلپائن میں الیکشن ہوئے۔حسب عادت صدر مارکوس نے ہمارے نظام کی طرح فارم 47 کا بہانہ بنایا اور اپنی جیت کا اعلان کیا۔لاکھوں لوگ منیلا کی سڑکوں پر نکل آئے اورصدارتی محل کا گھیراو¿ کیا۔مارکوس نے گولی چلانے کا بھی حکم دیا۔مگر فوج نے احکامات ماننے سے انکار کیا۔ عوام کی جیت ہوئی جس کو "عوامی طاقت” کا نام دیا گیا۔

کیا پاکستان میں نینو اکینو جیسے واقعات کم ہوئے ہیں۔بنگلہ دیش کی جنگ، لیاقت علی کا قتل، فاطمہ جناح کی فوجی مخالفت، ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی، بے نظیر کا لاہور میں 50 لاکھ افراد کا استقبال، ایم آر ڈی کی قربانیاں، نوازشریف کا تین دفعہ اقتدار سے ہٹایا جانا اور بے نظیر بھٹو کی 2007 میں جلاوطنی سے پاکستان واپسی اور آج کے ملکی حالات سب درد ناک کہانیاں ہیں۔ یہ دردناک اور خونی واقعات ہی جمہوری جنگیں تھیں۔بے نظیر بھٹو جب دبئی سے واپس آرہی تھیں تو اس کو بھی اپنی جان کی فکر تھی۔ واپس آنے سے پہلے اس نے بھی برطانیہ کے مسٹر ڈیوڈ ملی بینڈکو ممکنہ قاتلانہ حملوں کی نشاندہی کی تھی۔اس کے باوجود جب کارساز کراچی میں اس کا قافلہ پہنچا تو دو خودکش بمبار بھیج کر 180 افراد کو مار دیا گیا۔کئی تحقیقاتی افسروں کو بعد میں راستوں سے ہٹایا گیا۔مگر اصل بات یہ ہے امریکہ اور برطانیہ اس کی جان بچانے میں ناکام رہے۔دو مہینے کے اندر اندر بے نظیر بھٹو کو بھی لیاقت باغ راولپنڈی کے کھلے میدان میں قتل کردیا گیا۔یہاں کی تاریخ بہرحال پیچیدہ ضرور ہے۔اس کے بعد آج تک تینوں سیاسی جماعتیں بشمول عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ حالت کمپرومائز کرنے کو جمہوری انقلاب سمجھتے ہیں۔ کوریزان اکینو کے جمہوری انقلاب کے بعد دنیا میں کئی مقامات پر تبدیلیوں کا سلسلہ چل نکلا۔کیونکہ وہ سچا عوامی طاقت کا جمہوری انقلاب تھا۔جبکہ ہم پاکستان میں پانچ سال کی ٹرم بھی عوامی طاقت سے نہیں گزار سکے۔ حقیقی انقلاب ایک جگہ نہیں رکتے۔1986 فلپائن کے انقلاب کے بعد 1987 میں کوریا،1988 میں برما و چین کا عوامی ابھار، 1989 میں مشرقی یورپ اور 1991 میں روس میں جمہوری انقلابات آئے۔ سلسلہ آگے بڑھا تو دنیا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا۔

پھر کیا وجہ ہے۔ہماری طرح فلپائن بھی جمہوریت کی ٹوپی پہن کر واپس آمر گھرانوں کی غلام گردشوں میں جگہ بنا رہا ہے۔ 8 فروری 2022 کو 36 سال بعد مارکوس خاندان کے بیٹے فرننیڈو مارکوس جونیئر فلپائن کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی جاگیرداروں کی تیسری نسل اقتدار جبکہ جنرلوں کے پوتے لیڈر آف دی اپوزیشن بن بیٹھے ہیں۔جب مارکوس جونیئر نے فلپائن میں صدارتی امیدوار کے طور پر مہم چلائی۔ تو اس نےاپنے والدکے 1972 والے ترانے کو نئی موسیقی کی دھن میں ریلیز کیا۔گانے کے بول کچھ اس طرح تھے۔فلپائن ایک نیا ملک بنے گا۔ایک نیا راستہ اختیار کرے گا۔جمہور دور کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے گی۔اور ایک نیا معاشرہ تخلیق کیا جائے گا۔حالانکہ ابھی تک گنیز بک آف ورلڈ میں اس کے والد کو دنیا کا سب سے بڑا 10 بلین ڈالر کے چور کا اعزاز حاصل ہے۔ آج بھی اس کی والدہ امیلڈا مارکوس کے قیمتی جوتوں کی کہانیاں ادبی تحریروں کا مواد بنتی ہیں۔ اس خاندان کی لوٹی ہوئی دولت کا ابھی تک صرف 3.4 بلین ڈالر واپس فلپائنی عوام کو مل سکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے والد کے دور میں 70 ہزار سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔34 ہزار افراد پر عقوبت خانوں میں تشدد کیا گیا۔3240 سیاسی کارکنوں کو قتل کیا گیا۔ اتنا ہونے کے باوجود ان کا 66 سالہ بیٹا اپنے باپ کی 60 سالہ پرانی وردی پہن کر عوامی اجتماعات سے مخاطب ہوتا ہے۔یہ سوشل میڈیا کی مینوپولیشن ہے جس نے وہاں کی نوجوان نسل کو تاریخ سے دورکردیا ہے۔ مارکوس جونیئر نے 2014 میں سوشل میڈیا کی طاقت دیکھ کر فیس بک پر بیان جاری کیا تھا۔ کہ ان کے والد پر چوری کا کوئی کیس ثابت نہیں ہوا۔ اس کی والدہ نے بدعنوانی کے تمام کیس عدم ثبوت کے بنا پر جیتے ہیں۔ یہ دونوں دعوے جھوٹ تھے۔بلکہ ان ہی دنوں مارکوس جونیئر نے اپنے پروفائل میں لکھا وہ آکسفورڈ اور وارٹن یونیورسٹی آف پنسلوانیہ سے ڈگری یافتہ ہے۔جوکہ سراسر جھوٹ تھا۔جب سنجیدہ لوگوں نے ان درغوگوئیوں کا پول کھولا۔تو پروفائل ہی بدل دیا گیا۔اس کے باوجود مارکوس جونیئر کے بیان کو 331000 بار شئیر کیا گیا۔32000 کمنٹس لکھوائے گئے۔369000 لوگوں سے مثبت رائے حاصل کی گئ۔جب الیکشن کا دن آیا تو 9 مئی 2022 کو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ٹیکنالوجی ہنڈلرز نے بتادیا۔فلپائن کو جانا ادھر ہوگا جدھر ٹیکنالوجی چاہے گی۔

]]>
https://dailyintekhab.pk/archives/462987/feed 0 462987