بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہے

تحریر: انور ساجدی

رانا ثناءاللہ نے پتے کی بات کہی ہے کہ
جب معاملہ کھسروں تک پہنچ گیا ہے تو پی ٹی آئی سے صلح کر لینی چاہیے۔

جب سے خواجہ سراﺅں نے رﺅف حسن پر حملہ کیا ہے سارے ملک میں یہی موضوع چل رہا ہے۔پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے۔ایسی تصاویر جاری کی جارہی ہیں ایسی ٹرولنگ کی جا رہی ہے کہ”الامان الحفیظ“۔

پی ٹی آئی”کی بورڈ وارئیرز“ ثابت کر رہے ہیں کہ حملہ آور کھسرے کون تھے؟ حالانکہ ایف آئی آر میں ان کھسروں کو نامعلوم کہا گیا ہے۔زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ سپریم کورٹ اوردیگر اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات کی کارروائی کو براہ راست ٹیلی کاسٹ کیا جائے لیکن ایک محترم جج جسٹس کیانی کے حالیہ سخت ریمارکس اور اہم شخصیات کی طلبی کے بعد گزشتہ روز حکومت نے عدالتی خبروں کی اشاعت اور الیکٹرانک میڈیا پر ان کے نشتر ہونے پر پابندی لگا دی ہے۔اگرچہ ہمیں اندرونی لڑائی کا معلوم نہیں ہے لیکن پارلیمنٹ باالخصوص سینیٹ میں فیصل واوڈا اور وزیرقانون اعظم نذر تارڑ کی عدلیہ پر تنقید نے واضح کر دیا ہے کہ ریاست کے دو اداروں کے درمیان جنگ بہت تیز ہے۔واوڈا نے تو جسٹس اطہر من اللہ کے خلاف ایک تحریک استحقاق بھی جمع کروا دی ہے جسٹس صاحب نے کہا تھا کہ ”اپنے پراکیسیز“ کے ساتھ عدلیہ پر حملے بند کئے جائیں۔معلوم نہیں فیصل واوڈا نے کیوں خود کو پراکسی سمجھا۔دو اداروں کی لڑائی کے نتیجے میں عمران خان کو عدلیہ کی طرف سے مسلسل ریلیف مل رہا ہے۔اس سے یہی سمجھا جا رہا ہے کہ عدلیہ یا بعض معزز جج صاحبان پی ٹی آئی کی طرف داری کر رہے ہیں۔ کم ازکم حکومتی اراکین یہی ظاہر کر رہے ہیں۔بظاہر دونوں فریق صلح صفائی اور سمجھوتہ کے موڈ میں نہیں ہیں لیکن اندرون خانہ خفیہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔پہلے دو مرحلہ کے خفیہ مذاکرات ناکام ہوگئے تھے لیکن بیچ میں آئی ایم ایف نے حکومت کو واضح طور پر کہا کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی لہٰذا اپنے اندرونی حالات ٹھیک کئے جائیں اس دباﺅ پر ایک بار پھر رابطے ہوئے لیکن اچانک کھسروں نے رﺅف حسن پر حملہ کر دیا۔اس حملہ نے رسوائی کا بڑا سامان پیدا کیا ہے۔کیا ضرورت تھی خواجہ سراﺅں کی خدمات لینے کی۔اگر حملہ کرنا تھا تو مردانہ وار کرتے۔مردوں کی طرح کرتے ایک مظلوم طبقہ کو بدنام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟۔جب ایک سال میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے شاہ سواروں کو روکنا ممکن نہ ہوا تو پنجاب حکومت نے ہتک عزت کا قانون اپنی اسمبلی سے منظور کروایا۔اس کا مقصد حکومت مخالف مہم کو روکنا اور کڑی سزائیں دینا ہے لیکن یہ مقصد پورا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ہزاروں افراد جعلی شناخت لے کر حکومت مخالف پروپیگنڈے میں مصروف ہیں ان میں اکثریت بیرون ملک رہتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ان کے پروپیگنڈے کو کیسے روکا جائے گا ہاں غریب پاکستانی میڈیا کی شامت ضرور آئے گی اور چند ایک لوگوں کو پکڑ کر اور لاکھوں روپے جرمانہ عائد کر کے خوف و ہراس کی فضا ضرورت پیدا کی جائے گی۔گزشتہ کچھ ہفتوں سے بعض اہم شخصیات اور اداروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔توہین آمیز فیک تصاویر جاری کی جا رہی ہیں۔لگتا ہے کہ اس صورت حال سے حکومت کی قوت برداشت جواب دے گئی ہے اور جب سے کشمیر کے نامعلوم شاعر احمد فرہاد غائب ہوئے ہیں ہر طرف انہی کا چرچا ہے۔جس کی وجہ سے گمنام شاعر مشہور شخصیت ہوگئے ہیں۔چہار دانگ عالم ان کا چرچا ہے اور ان کی نظم”اٹھالو“ کو بار بار دکھایا جا رہا ہے اور لاکھوں لوگ جی بھر کر اسے دیکھ رہے ہیں۔معلوم نہیں کہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے شاعر کو کون اٹھا کر لے گیا ہے۔عدالت میں اداروں نے انکار کیا کہ شاعر ان کی تحویل میں نہیں ہے۔عدالت نے سخت ریمارکس دئیے لیکن شاعر برآمد نہ ہوسکا۔اگرچہ ہتک عزت بل پنجاب حکومت نے بنایا نہیں تھا بلکہ اپنایا تھا لیکن اسے منظور کروانے کی وجہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی ذات ہے۔اس وقت سارے سوشل میڈیا کی ہدف وہی ہیں۔بل کا مقصد ان کی ہتک کی مہم کو روکنا ہے لیکن سوشل میڈیا کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔اسے روکنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ ایکس کی طرح باقی تمام ایپس پر پابندی عائد کر دی جائے۔اگر مختلف گروپوں خاص طورپر پی ٹی آئی کی بورڈ وارئیرز نے اپنا چلن نہ بدلا تو حکومت کو بالآخر سوشل میڈیا کے تمام ذرائع پر پابندی عائد کرنا پڑے گی جس کی وجہ سے پاکستان جدید دور سے کٹ جائے گا اور برما کی طرح کا ایک ملک بن جائے گا جہاں عوام کو جان بوجھ کر باقی دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔برما کچھ ہم سے ملتا جلتا ہے انگریزوں کے دور تک اسے برصغیر کا حصہ سمجھا جاتا تھا آزادی کے بعد وہاں پر فوج نے تختہ الٹ دیا۔ایک مختصر وقفے کے لئے نوبل انعام یافتہ سیاست دان آنگ سان سوچی کو اقتدار ملا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد جنتا نے ان کا تختہ الٹ دیا۔اس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی اس حد تک بڑھ گئی کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔اب تو ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے اس کے باوجود جتنا اپنا قبضہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ پاکستان برما سے کافی مختلف ہے۔یہاں استادی کے ذریعے معاملات کو ڈیل کیا جاتا ہے۔ شائستگی کافی زیادہ ہے۔بظاہر آئین نافذ ہے جمہوریت بحال ہے پارلیمنٹ موجود ہے صدر وزیراعظم اور کابینہ اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہے لیکن یہ کرسی بہت کمزور ہے اس کے پہیے بیٹھنے والوں کے اختیار میں نہیں ہیں۔وجہ یہ ہے کہ سویلین یا منتخب حکومتوں پر اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔ہمیشہ یہ شک رہتا ہے کہ یہ لوگ جب طاقت ور ہو جائیں گے تو جنگ کا مصنوعی ماحول ختم کر دیں گے انڈیا سے تجارت شروع کر دیں گے جیسے کہ نوازشریف نے اپنے دور میں کیا تھا۔چند روز قبل نام کے نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے انڈیا سے دو طرفہ تجارت شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا لیکن ڈانٹ پڑنے کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔کم بخت آئی ایم ایف بھی یہی مشورہ دے رہا ہے کہ پڑوسیوں سے تعلقات معمول پر لاکر دو طرفہ تجارت شروع کی جائے۔ تجارت بند ہونے سے کتنا نقصان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میاں صاحب نے کھربوں مالیت کے نقصان میں چلنے والے کوئلہ کے جو پاورپلانٹ لگائے ان کے لئے کوئلہ10 ہزار کلومیٹر دور انڈونیشیا سے درآمد کیا جا رہا ہے اگر انڈیا سے تجارت بند نہ ہوتی تو مغربی بنگال سے کوئلہ لا کر پاور پلانٹوں میں آسانی سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔اسی طرح گندم یوکرین اور روس سے منگوانا نہ پڑتی۔میاں صاحب کے دوسرے دور میں انڈیا کے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہو میں کہا تھا کہ

”اگر آپ صبح حکم دیں تو ہم شام کو گیہوں آپ کے دروازے پر رکھ چھوڑیں گے“
اب جبکہ انڈیا بہت دور نکل چکا ہے سائنسی میدان میں وہ چاند پر پہنچ چکا ہے اور ہم نے ایک ڈبہ چین کے سیٹلائٹ پر رکھ کر خلا میں بھیجا ہے تو عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ ہم بھی پیچھے نہیں۔انڈیا نے اپنے آئین کی دفعہ 370 کو ختم کر کے آسانی کے ساتھ کشمیر کو ہڑپ کرلیا ہے اور وہ دنیا کی چوتھی معیشت بننے جا رہا ہے تو ایسی صورت میں ہماری دشمنی اور مقابلہ کا کیا فائدہ؟ بہتر ہوگا کہ اس سے تجارت شروع کی جائے۔افغانستان کو موقع نہ دیا جائے کہ وہ انڈیا کے تیار کردہ چاہ بہار پورٹ کو ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے استعمال کرے۔اپنے ملک کے اندر ایک جامع پالیسی کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے۔صرف مارکٹائی سے کام نہ لیا جائے بلکہ افغانستان سے متصل علاقوں کو معاشی پیکیج دیا جائے ان کے روزگار کے ذرائع کھولے جائیں ورنہ ان علاقوں میں کبھی امن نہیں آئے گا۔یہ ملک کی عملی تقسیم ہے اس کا تدارک کیا جائے۔کرغزستان میں جو طلباءپھنسے ہوئے ہیں وفاق پنجاب کے طلباءکو تو لا رہا ہے جبکہ پختونخواہ صوبہ اپنے طلباءکا بندوبست کر رہا ہے۔اسی طرح بلوچستان بھی اپنے طلباءکو لانے کی کوشش کر رہا ہے۔یہ پالیسی ترک کی جائے ملک کو وفاقی وحدت کی طرح چلایا جائے۔ جانبداری اقربا پروری سے گریز کر کے تمام صوبوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے۔اگر معاملات درست نہ ہو پائیں تو سوشل میڈیا پر پابندی کے بجائے ازسرنو شفاف انتخابات کروائے جائیںاور عہد کیا جائے کہ سیاسی معاملات میں مداخلت کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا۔اگر فوری طور پر اصلاح احوال نہ کی گئی تو کشکول کو مزید بڑا کرنا پڑے گا۔ملک ملک جا کر امداد و عطیہ اور قرضے مانگنے پڑیں گے۔

اپنا تو یہ حال ہے کہ سعودی ولی عہد بوجوہ پاکستان کے دورے پر نہ آسکے اور نہ ہی سرمایہ کاری کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو مل سکا۔اسی طرح یو اے ای نے بھی10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کرلیا جوپورا ہونا مشکل ہے کیونکہ جب کوئی ملک شدید بد انتظامی اور کرپشن کا شکار ہو وہاں کون سرمایہ کاری کرنے آئے گا۔یواے ای کے صدر دل میں ہنس رہے ہوں گے کہ اپنی ساری دولت لوٹ کر میرے ملک لا کر جمع کر لی ہے اور مجھ سے امداد مانگنے چلے آئے ہیں۔حکمران غوروفکر کریں کہ عوام کی شدید مایوسی کا کیانتیجہ نکلے گا۔جب اداروں کی توقیر ختم ہو جائے تو تضحیک کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے جیسے کہ اس وقت سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اس سے پہلے کہ پانی سر سے اوپر ہو جائے کچھ کرلیا جائے ورنہ سب کو پچھتانا پڑے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں