بھارتی حکام کیلئے خالصتان رہنما کی گرفتاری درد سر بن گئی، کوئی میرے بال تک کو نہیں چھو سکتا، امرت پال

نئی دہلی (صباح نیوز) بھارتی حکومت کے لئے خالصتان کے حامی سکھ رہنماءامرِت پال سنگھ کی گرفتار ی درد سر بن گئی ،اس دوران انڈیا میں خالصتان کے حامی اور ’وارس پنجاب دے‘ تنظیم کے سربراہ امرت پال سنگھ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا ہے۔امرت پال سنگھ کی یہ ویڈیو گذشتہ روز اچانک مختلف ڈیجیٹل اور سیٹلائٹ چینلز پر آنا شروع ہو گئی،میڈیا رپورٹس کے مطابق اگرچہ انڈین پنجاب کی پولیس نے اس ویڈیو کے وقت اور جگہ کی تصدیق نہیں کی لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ اس سے پنجاب پولیس کا مو¿قف ثابت ہو گیا کہ امرت پال سنگھ ان کی تحویل میں نہیں۔اس ویڈیو کو بنانے کے وقت کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا لیکن اس ویڈیو میں انھوں نے اکال تخت کے جتھیدار ہرپریت سنگھ کی طرف سے 27 مارچ کو بلائی گئی میٹنگ کا ذکر کیا۔اس میٹنگ میں ہرپریت سنگھ نے پنجاب حکومت کو ماضی میں گرفتار کیے گئے بے قصور نوجوانوں کو رہا کرنے کے لیے 24 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا۔یاد رہے 26 مارچ کو پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادیو کی ٹویٹ کے مطابق پولیس نے 353 افراد کو حراست میں لیا تھا جن میں سے 197 کو رہا کر دیا گیا ہے۔اس کے علاوہ امرت پال نے اپنی ویڈیو میں 28 مارچ کو سوشل میڈیا پر جتھیدار ہرپریت سنگھ اور پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان کے درمیان ہونے والی زبانی جنگ کا بھی ذکر کیا۔ویڈیو میں امرت پال سنگھ نے 18 مارچ کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’اگر حکومت گھر سے گرفتار کرتی تو میں اسی وقت گرفتاری دے دیتا، انھوں نے طاقت اور گھیراو¿ کے ذریعے ہمیں پکڑنے کی کوشش کی لیکن رب کے فضل سے ہم بچ گئے۔‘ ویڈیو میں امرت پال نے کہا ’جب انٹرنیٹ بند تھا اور ہمارا کوئی رابطہ نہیں تھا، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ خبروں میں کیا ہو رہا ہے۔ اب جب میں آپ سے مخاطب ہوں تو میں نے بتانا ہے کہ پنجاب میں کیا ہو رہا ہے۔گرفتاری کے حوالے سے امرت پال نے کہا کہ ’یہ خدا کے ہاتھ میں ہے، میں صحت مند ہوں اور کوئی میرے بال تک کو نہیں چھو سکتا۔‘امرت پال سنگھ کے دس دن قبل غائب ہونے کے بعد سے ان کے بارے میں افواہوں کا بازار گرم ہے کہ وہ کہاں ہیں۔امرت پال سنگھ کی تلاش کے لیے بڑے پیمانے پر کارروائی جاری ہے، جو اقدامِ قتل سمیت کئی مقدمات میں مطلوب ہیں۔رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امرِت پال سنگھ کو 18 مارچ کو پنجاب ریاست میں گرفتاری سے بچنے کے بعد سے کم از کم چار انڈین ریاستوں بشمول دارالحکومت دلی میں تلاش کیا جا رہا ہے۔پیر کے روز نیپال نے کہا تھا کہ اس نے امرِت پال سنگھ کو نگرانی کی فہرست میں ڈال دیا ہے جب انڈین سفارتخانے نے انھیں خبردار کیا کہ وہ ملک میں داخل ہو سکتے ہیں۔منگل کی رات انڈین پنجاب پولیس نے ہوشیار پور ضلع کے ایک گاو¿ں میں گھروں کی تلاشی کی، جس سے میڈیا میں قیاس آرائیاں شروع ہوئیں کہ وہ اب بھی اسی ریاست میں ہیں۔مفرور ہونے کے پہلے دن ریاستی حکومت نے پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ کو بتایا تھا کہ پولیس امرِت پال سنگھ کو ’پکڑنے کے قریب‘ ہے۔پچھلے پندرہ دن کے دوران انڈیا کا میڈیا ان کی تلاش کی کوششوں سے بھرا ہوا ہے۔ پولیس افسران ریاستی سرحدوں پر چھاپے مار رہے ہیں، سڑکوں اور گلیوں میں تلاش کر رہے ہیں اور ان کی تلاش میں نگرانی کے فوٹیج کی جانچ کر رہے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ امرت پال سنگھ کے نظریات نے پنجاب میں تشدد کی نئی لہر کے آغاز کا خدشہ پیدا کردیا ہے۔امرِت پال سنگھ جو فروری میں اپنے پیروکاروں کے ہمراہ ایک پولیس سٹیشن پر دھاوا بولنے کے بعد اچانک پورے انڈین پریس کی توجہ کا مرکز بنے، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انھوں نے خالصتان یا سکھوں کے الگ وطن کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شہرت نے 1980 کی دہائی میں پنجاب میں ہونے والی پرتشدد شورش کی یادیں تازہ کر دی تھیں جس میں ہزاروں افراد مارے گئے تھے۔پنجاب پولیس نے سب سے پہلے 17 مارچ کو امرِت پال سنگھ کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی جب وہ اور ا±ن کے سینکڑوں حامیوں نے ا±ن کے ایک گرفتار ساتھی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک پولیس سٹیشن پر دھاوا بول دیا تھا۔اگرچہ ا±س وقت تھانے کی حفاظت کے لیے سینکڑوں پولیس اہلکار تعینات تھے تاہم امرت پال سنگھ تیز رفتارکار میں سوار ہو کر پولیس کے پیچھا کرنے کے باوجود فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ان کے فرار ہونے کے واقعہ کو ان کے ساتھیوں نے سوشل میڈیا پر براہِ راست نشر کیا تھا۔پولیس نے کہا کہ امرِت پال سنگھ مرسڈیز ایس یو وی میں سوار تھے جب پولیس نے انھیں پکڑنے کے لیے ان کا پیچھا کیا تھا لیکن بعد میں وہ ایک چھوٹی کار میں سوار ہو گئے اور آخر میں ایک موٹرسائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ (اس کے بعد سے، سینیئر پولیس حکام نے کئی بار کہا کہ امرت پال بھیس بدل کر ابھی بھی انڈیا میں گھوم پھر رہے ہیں۔)امرِت پال سنگھ کے فرار ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر، حکام نے پنجاب میں انٹرنیٹ کی سروسز کو معطل کر دیا تھا، لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا اور امرِت پال سنگھ کے سینکڑوں حامیوں کو گرفتار کر لیا۔ان سخت پابندیوں میں بالآخر نرمی کر دی گئی لیکن سرچ آپریشن جاری ہے۔ بی بی سی پنجابی نے کئی لوگوں سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ ان کے قصبوں اور دیہات میں پولیس کی موجودگی نے ان کی ذہنی صحت اور کاروبار کو متاثر کیا۔ انڈیا میں متعدد صحافیوں اور کارکنوں کے ٹوئٹر اکاو¿نٹس کو بھی بلاک کر دیا گیا۔21 مارچ کو پنجاب پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی جس میں مبینہ طور پر امرِت پال سنگھ کو بھیس بدل کر موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہوتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔اسی دن، پولیس نے مختلف لباسوں میں ان کی سات تصاویر بھی جاری کیں۔ جس میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے تیار کردہ تصاویر بھی شامل ہیں جس میں ان کو داڑھی کے بغیر دکھایا گیا۔ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ شاید امرِت پال سنگھ نے دھاڑی منڈوا دی ہو۔کئی میڈیا تنظیموں نے 24 مارچ کو کہا تھا کہ امرِت پال سنگھ کو دہلی میں دیکھا گیا تھا۔ بھارتی خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے نامعلوم پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امرِت پال سنگھ کو ایک ساتھی کے ساتھ ایک ساد±ھو یا ہندو بھگت کے بھیس میں ایک مقامی بس ٹرمینل پر دیکھا گیا تھا۔اس کے بعد دہلی اور پنجاب پولیس کی ٹیموں نے دارالحکومت اور اس کے سرحدی علاقوں میں ان کی تلاش شروع کی اور مزید لوگوں کو گرفتار کیا، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ امرِت پال سنگھ کے حامی تھے۔پنجاب کے انسپیکٹر جنرل آف پولیس سکھ چین سنگھ گِل نے صحافیوں کو بتایا کہ فرار ہونے کے بعد امرِت پال سنگھ نے پڑوسی ریاست ہریانہ میں ایک خاتون کے گھر پناہ لی تھی۔ افسر نے بتایا کہ امرِت پال سنگھ نے پہلے ہریانہ میں دریا کو عبور کرنے کے لیے کشتی لینے کی کوشش کی تھی لیکن بعد میں انھیں پیدل چلنا پڑا تھا۔انھوں نے مزید کہا کہ خاتون، جنھیں 26 مارچ کو گرفتار کیا گیا تھا، نے پوچھ گچھ کے دوران انکشاف کیا کہ امرِت پال سنگھ پچھلے ڈھائی سال سے ان کے ساتھ رابطے میں تھے۔پولیس نے نگرانی کی فوٹیج بھی جاری کی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ امرِت پال سنگھ ہریانہ میں ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، ویڈیو کلپ میں سفید شرٹ اور گہرے نیلے رنگ کی جینز پہنے ایک شخص کو چھتری سے اپنا چہرہ چھپاتے ہوئے دکھایا گیا۔رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ امرِت پال سنگھ شمالی ریاست اتراکھنڈ فرار ہو سکتے ہیں تاہم پنجاب پولیس نے باضابطہ طور پر اس کی تصدیق نہیں کی ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں