مودی کا اکھنڈ بھارت

تحریر: انور ساجدی
ایسے وقت پر جبکہ اسرائیل پر ایران کے حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر ہے۔اسی باعث امریکہ نے ایران پر نئی معاشی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے صدر ایران سید ابراہیم رئیسی کے لئے ”دیدہ و دل“فرش راہ کرنے کا عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔ایرانی صدر کے دورے کا کیا مقصد ہے؟پاکستانی حکمرانوں نے کن موضوعات پر مذاکرات کئے یہ عام لوگ نہیں جانتے حالانکہ اصل صورت حال سے میڈیا بھی واقف نہیں ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ سوشل میڈیا کے شاہ سوار بھی خاموشی اختیار کرنے پرمجبور ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اسلام آباد میں ہونے والی مین استقبالیہ تقریب میں کہا کہ آپ کی آمد سے

چشم ماروشن دل ماشاد، انہوں نے اس سنجیدہ موقع پر روایتی نٹ کھٹ ہونے کا ثبوت بھی دیا اور کئی فارسی اشعار پڑھے معلوم نہیں کہ ان کا تلفظ صحیح تھا کہ غلط۔جو مذاکرات ہوئے اس کے دواہم نکتے تھے۔پہلا یہ کہ دونوں ممالک اپنے ہاں کی دہشت گرد تنظیموں پر پابندی عائد کریں گے۔اس عمل سے کون متاثر ہوگا یہ کوئی راز کی بات نہیں۔سرحدوں پر سختی کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ادھر ادھر دراندازی نہ ہوسکے۔دوسرا نکتہ دو طرفہ تجارت کو10 ارب ڈالر تک لے جانے کا عزم ہے۔ اگرچہ یہ کوئی مشکل ٹاسک نہیں اگر دونوں ممالک تیل وگیس کی تجارت کریں تو یہ ہدف آسانی کے ساتھ پورا ہوسکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ناممکن ہے کیونکہ امریکہ اور ایران کے ظاہری تعلقات اچھے نہیں ہیں جبکہ سعودی عرب کو ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے۔دونوں ممالک چین کی ثالثی سے سفارتی تعلقات استوار کرنے سے پہلے ایک دوسرے کے حریف بلکہ دشمن تھے۔سعودی عرب نے یمن پر قبضہ کے لئے اس پر حملہ کیا تھا جسے حوثی فورسز نے بری طرح ناکام بنا دیا۔جس کے بعد یہ جنگ وقتی طور پر بند کرنا پڑی۔غزہ پر اسرائیل کے حملہ سے پہلے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار بیٹھا تھا اور صدر بائیڈن نے اس کا پیشگی اعلان بھی کر رکھا تھا لیکن حماس کے اچانک حملوں نے نہ صرف یہ عمل خاک میں ملا دیا بلکہ ایک ہولناک جنگ کی بنیاد رکھی۔غزہ پر اسرائیل کی کارپٹ بمباری کے بعد یہ بات عیاں ہوگئی کہ کیا مصر کیا سعودی عرب کیا اردن اور کیا یواے ای کسی نے فلسطینیوں کا عملی طور پر ساتھ نہ دیا جبکہ ایران واحد ملک تھا جس نے اسرائیل کی بھرپور مذمت کی اور اس نے حماس کو ہر طرح کی امداد پہنچائی جبکہ ایران کی حامی حزب اللہ نے لبنان سے ملنے والی اسرائیلی سرحدوں کو غیر محفوظ بنا دیا اور رواں مہینے میں جب اسرائیل نے دمشق میں واقع ایرانی سفارت خانے پر بمباری کر کے اس کے کئی کمانڈر ہلاک کر دئیے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایران جوابی کارروائی کرے گا کیونکہ ایران اور اسرائیل کی سرحدیں کافی دور ہیں اور کسی اور ملک سے جوابی کارروائی کرنا ممکن نہ تھا۔اس معذوری کو ختم کر کے ایران نے اپنی سرزمین سے میزائل اور ڈرون حملے کئے جو اسرائیل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔یہ ایک علامتی حملہ تھا اور اس کا مقصد اسرائیل کو یہ بتانا تھا کہ اس کے میزائل وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔اسرائیل نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اصفہان میں ایٹمی تنصیبات کے قریب میزائل پھینکے لیکن یہ حملہ اور جوابی حملہ فرینڈلی فائر ثابت ہوئے جس کے بعد کشیدگی کم ہوگئی جبکہ اسرائیل یک سوئی کے ساتھ غزہ پر حملہ جاری رکھے ہوئے ہے۔عرب ممالک کا یہ حال ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے خلاف جنوبی افریقہ جو مقدمہ عالمی جنگی ٹریبونل میں لے گیا کسی نے اس کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی ”فریق“ بننے کی درخواست کی۔حتیٰ کہ پاکستان بھی اس عمل سے دور رہا جس کے بارے میں نسیم حجازی کے شاگردوں کا کافی عرصہ سے دعویٰ تھا کہ پاکستان عالم اسلام کا لیڈر ہے اور جہاں مسلم امت کے خلاف کارروائی ہوئی پاکستان وہاں پہنچے گا۔یہ تو معلوم نہیں کہ مشرق وسطیٰ کے حالات کیا کروٹ لیتے ہیں لیکن یہ طے ہے کہ امریکہ کی سرکردگی میں مغربی ممالک ایران کے خلاف کسی بھی فیصلہ کن کارروائی سے خوفزدہ ہیں۔اس کی ایک بڑی وجہ تیل کی گزرگاہ آبنائے ہرمز کا ڈسٹرب ہونا ہے جس کی وجہ سے عالمی معیشت تباہ و برباد ہو جائے گی۔دوسری وجہ جدید اسلحہ سازی میں ایران کی حیران کن پیش رفت ہے۔حالانکہ جب پاکستانی ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایران کو ٹیکنالوجی منتقل کی تھی تو کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ ملاصاحبان ایسے سائنس دان ڈھونڈ کر لائیں گے جو نہ صرف چار ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائل بنا لیں گے بلکہ ایٹمی اسلحہ بنانے میں بھی کامیابی حاصل کر لیں گے۔امریکہ اور اسرائیل کی تمام تر کوششوں کے باوجود ایران دونوں مقاصد کے حصول میں کامیاب رہا اگرچہ ایٹمی اسلحہ کے تدارک کی عالمی ایجنسی نے ایران کو باقاعدہ طورپر ایٹمی ہتھیار رکھنے والا ملک ڈیکلیئر نہیں کیا اور نہ ہی ایران نے اپنے ہتھیاروں کا ٹیسٹ کیا ہے لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک ہے۔غزہ کی جنگ شروع ہونے سے پہلے اسرائیل کے انتہاپسند وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ایران اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے اسرائیل کی سلامتی کو خطرہ ہے۔موصوف نے کئی سال پہلے یہ بڑھک ماری تھی کہ اگر امریکہ نہ روکتا تو ایران پر ایٹمی حملہ کر کے اسے نیست ونابود کر دیا جاتا لیکن سبھی جانتے ہیں کہ ایران پر ایٹمی حملہ ممکن نہیں ہے ورنہ کہاں کہاں سے ایٹمی ہتھیار باہر آکر استعمال ہوں گے اور یہ کرہ ارض کے خاتمہ کا آغاز ہوگا۔اس وقت دنیا میں دو ہی انتہاپسند اور خطرناک حکمران موجود ہیں ایک نیتن یاہو اور دوسرا نریندرمودی۔نیتن یاہو تو سیاسی طور پر کمزور ہوچکے ہیں جب بھی الیکشن ہوئے ان کی شکست یقینی ہے۔البتہ مودی کی سیاسی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔انڈیا میں پہلے مرحلے کے انتخابات ہوچکے ہیں جبکہ چار دیگر مراحل جون تک مکمل ہو جائیں گے اور4 جون کو انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوگا۔اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لئے بی جے پی نے اکھنڈ بھارت کا نقشہ بنا کر نئے پارلیمنٹ ہا?س کے اندر آویزاں کر دیا ہے۔یہ نقشہ 1940کی دہائی میں انتہاپسند ہندو تھیوکریٹ یا اسکالر ساوارکر نے بنایا تھا۔ مودی نے دوبارہ یہ نقشہ پبلک کر کے خطہ کے کئی ممالک کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔نقشہ میں موجودہ پاکستان،افغانستان، ایران، تبت، برما، نیپال، بنگلہ دیش اور سری لنکا کو اکھنڈ بھارت کا حصہ دکھایاگیا ہے۔تاریخ میں پہلی مرتبہ اکھنڈ بھارت دوہزار سال پہلے اشوک دی گریٹ کے دور میں قائم ہوا تھا لیکن اشوک بدھ مت کے پیروکار تھے۔انہوں نے ہندومت ترک کرکے بدھ مت اپنایا تھا ان کے انتہائی چالاک استاد کوٹلیہ چناکیا جسے پاکستانی پروفیسر چانکیہ کہتے ہیں ایسے بادشاہ گر تھے کہ انہوں نے جنوبی ایشیا کے بیشتر علاقے کو زیر کیا تھا۔دو ہزار سال بعد نریندر مودی انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے لئے ایک بار پھر اکھنڈ بھارت کا خواب دکھارہے ہیں حالانکہ ان کا مقصد چارسو نشستیں حاصل کرکے نہرو کے بنائے گئے آئین کو تبدیل کرنا اور بھارت کو جمہوریہ ہندوستان کے بجائے ہندو جمہوریہ ہندوستان بنانا ہے۔اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو انڈیا ایسے داخلی انتشار اورخانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا کہ اس کے حصے بخرے ہوسکتے ہیں اور اس کی تیزرفتار ترقی زمین بوس ہو سکتی ہے۔کانگریس اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ وہ مودی کے خطرناک عزائم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔انڈیا کا سیکولر آئین نہرو کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔انہوں نے انڈیا کی آزادی کے فوراً بعد دلت یا شودر قانون دان ڈاکٹر امبید کو آئین بنانے کی ہدایت کی تھی کہ وہ ایسا آئین بنا سکیں جس میں ذات پات،نسل اورلسان کی کوئی تفریق نہ ہو۔مودی اس شاندار آئین کو بدل کر رام راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندوتوا کی تحریک اس وقت زور وشور سے شروع کی جب ضیائ الحق نے 1973ئ کے آئین میں ردوبدل کر کے اسے اسلامی سانچے میں ڈھالا۔جس کے بعد آرایس ایس کے رہنماﺅں نے کہا کہ جب پاکستان اسلامی جمہوریہ ہوسکتا ہے تو انڈیا ہندو جمہوریہ کیوں نہیں کہلا سکتا۔دیکھیں کہ جون میں مودی کو کس حد تک کامیابی ملتی ہے۔

سردست اس بات پر غور وفکر کی ضرورت ہے کہ اعلیٰ سطح سعودی وفد کے جانے کے بعد صدر ایران کے دورہ پاکستان کے کیا مقاصد ہیں۔آیا چند ہفتے بعد سعودی عرب وعدے کے مطابق پاکستان کے منصوبوں پرسرمایہ کاری کرے گا یا صاف انکار کرے گا کیونکہ سعودی ولی عہد کا لگاﺅ اور رجحان انڈیا کی طرف زیادہ ہے۔اسی طرح عرب امارات بھی انڈیا کی طرف خاص جھکاﺅ رکھتا ہے۔اسی خاطر اس نے اپنے ہاں دنیا کا سب سے بڑا مندرتعمیر کرنے کی اجازت دی ہے۔امریکہ عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کو کیوں سپورٹ کررہا ہے اس کا مقصد کیا ہے۔آیا اس کا مقصد پاکستان کو چین سے دور کرنا مقصود ہے یا کچھ اور ہے۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان کوئی ثالثی پاکستان کے ہاں سے ہو رہی ہے اور یہ کون کر رہا ہے؟کیونکہ شہبازشریف میں اس طرح کی کوئی صلاحیت دکھائی نہیں دیتی۔کوئی اور شخصیت ایسی نہیں کہ وہ اتنا بڑا کام کر سکے۔ہاں پاکستان کے آرمی چیف کے ذریعے یہ کام ہوسکتا ہے کچھ عرصہ بعد جب صدر رئیسی کے دورے کے مقاصد معلوم ہو جائیں گے تب اس پر تبصرہ نگار اپنی آرائی دے سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں