امارت اسلامیہ جنوبیہ

تحرہر : انور ساجدی

مولانا آج کل سخت غصے میں ہیں اور انہیں سجھائی نہیں دیتا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں جب سے انہیں صدارت کےمنصب سے محروم کر دیا گیا ہے مولانا روز گرجتے ہیں لیکن برستے نہیں ہیں ۔ایک طرف وہ تحریک انصاف سے نالاں ہیں تو دوسری جانب اسی سے مذاکرات کر رہے ہیں۔دل تو ان کا چاہتا ہے کہ لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر نکال کر حکومت کا دھڑن تختہ کر دیں لیکن عوام بڑی تعداد میں ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ حال ہی میں مولانا نے ایک تہلکہ خیز بیان دیا لیکن میڈیا نے اس بیان کو بلیک آؤٹ کر دیا۔انہوں نے کہا وہ پختونخواءکے جنوبی اضلاع میں
”امارت اسلامیہ “ بنتے دیکھ رہے ہیں۔
ان کا یہ دعویٰ ہے کہ جنوبی اضلاع یعنی ڈیرہ اسماعیل خان،بنوں، کوہاٹ اور وزیرستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہاں پر رات کو پولیس اہلکار تھانے بند کر کے اندر رہتے ہیںباہر نکلنے کی جرات نہیں کرتے۔مولانا کا بیان ایک طرح سے حالات کی پیش بینی ہے یا اسے دھکی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے یعنی اگر مجھے اکاموڈیٹ نہیں کیا گیا تو پاکستانی طالبان صوبہ پختونخواہ کے دو ٹکڑے کر کے جنوبی حصے میں اپنی ریاست قائم کر دیں گے۔وہ دراصل جنوبی اضلاع کے سقوط کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں حالانکہ ان اضلاع میں مولانا کو شکست ہوئی ہے اور تحریک انصاف نے بیشتر نشستیں حاصل کرلی ہیں۔سوال ہی ہے کہ مولانا تحریک انصاف کو اپنے ساتھ ملا کر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔آیا وہ امارت اسلامیہ جنوبی کی حمایت کا ارادہ رکھتے ہیں یا اسے روکنا چاہتے ہیں۔ اگر گورنمنٹ کی رٹ نہیں ہے تو حکومت حق بجانب ہے کہ کچھ کرے لیکن کچھ کرنے پر بھی مولانا کو اعتراض ہے وہ تحریک انصاف اور محمود خان اچکزئی سے مل کر مجوزہ فوجی آپریشن کی شدید مخالفت کر رہے ہیںاگر جنوبی اضلاع میں مسئلہ اتنا گھبمیر ہے تو مولانا اس کا حل بھی پیش کریں اور عوام کو بتائیں کہ حکومت کیا کرے جو حالات ٹھیک ہو سکیں۔
کوئی شک نہیں کہ جنوبی اضلاع بہت خاص ایریا ہے۔فاٹا کے بارے میں انگریزوں نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ آزاد علاقہ رہے گا اس میں ہندوستان یا افغانستان کے قوانین لاگونہیں ہوں گے بلکہ تمام معاملات کو قبائلی مشران جرگوں کے ذریعے حصل کریں گے۔اس بارے میں انگریزوں کا ایک معاہدہ بھی ہے جس کی مدت 90سال مقرر کی تھی یعنی اس مدت کی تکمیل کے بعد فاٹا کے لوگ اپنے مستقبل کا جو چاہیں فیصلہ کریں۔معاہدہ کے چند سال بعد پاکستان بن گیا اور وائسرائے کے اختیارات پاکستان کی مرکزی حکومت نے سنبھال لئے حالانکہ پاکستان بننے کے سال مرزا علی یعنی فقیر ایپی نے وزیرستان میں پشتونستان کی پہلی ریاست قائم کی تھی جس کے اخراجات افغانستان اٹھاتا تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد فقیر ایپی نے اپنی تحریک ختم کر دی پاکستان کی سرکار نے 1948 میں یہیں سے قبائلی لشکر اکٹھے کئے۔کشمیر کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا یہ فاٹا کے عوام کا پہلا مسلح استعمال تھا۔1965ءکی جنگ کے دوران بھی یہاں پر رضا کار دستے اکٹھے کئے گئے۔فاٹا کے علاقہ کا بدترین استعمال جنرل ضیاءالحق نے سوویت افواج کے بعد کیا ۔پہلے جہادی جتھے وزیرستان میں اکٹھے کئے گئے انہیں تربیت دی گئی اور جنگ کے لئے افغانستان پہنچا دیا۔
سوویت افواج کے واپس جانے اور امریکی حمایت یافتہ نام نہاد مجاہدین کے افغانستان پر قبضہ کے بعد امریکہ اورپاکستان دونوں نے غریب الوطن مجاہدین کو بے یارومددگار چھوڑ دیا۔اس وجہ سے ہزاروں جنگجو وزیرستان میں آ کر آباد ہوگئے لیکن نائن الیون کے بعد حالات بدل گئے جنرل پرویز مشرف نے یوٹرن لیا اور امریکہ کا اتحادی بن کر جنگجوؤں پر ٹوٹ پڑا۔اس کے بعد سے اب تک اس علاقے میں گیارہ آپریشن ہو چکے ہیں۔بدقسمتی سے ہر آپریشن یا سارے آپریشن ناکام ہوگئے۔حتیٰ کہ فاٹا کے پختونخواہ میں انضمام کے بعد بھی صورتحال معمول پر نہیں آئی ۔اس کے باوجود کو دو ملین لوگوں کو دربدر کیا گیا ان کے کاروبار ختم کئے گئے لیکن حالات قابو میں نہیں آئے اب جبکہ طالبان دوحہ معاہدہ کے تحت افغانستان میں برسراقتدار ہیں تو انہوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے انکار کر دیا ہے۔سرحد پار سے یا اندر سے جو حملے ہو رہے ہیں ان کا الزام ٹی ٹی پی پر لگایا جاتا ہے اس کو جواز بنا کر ایک نئے آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا گیا ہے۔اس حکومتی اقدام کو عوام کی حمایت حاصل نہیں ہے کیونکہ پختونخواہ کے عوام جانتے ہیں کہ اس سے ایک اور تباہی آ ئے گی حالات کی بہتری میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔خاص طور پر ایسی صورت میں جبکہ8 فروری کے بدترین جھرلو کے ذریعے جو حکومت مسلط ہے۔وہ عوامی تائید سے یکسر محروم ہے۔ حتیٰ کہ پاکستان کے مائی باپ امریکہ نے بھی ان انتخابات کو مشکوک دھاندلی زدہ اور فراڈ قرار دیا ہے۔چند روز قبل امریکی کانگریس نے ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا کہ ان انتخابات کی انکوائری کروائی جائے تاکہ شکایات کا ازالہ ہو سکے۔قرارداد کے حق میں368اور مخالفت میں صرف7 ووٹ آئے یہ سات ووٹ بھی پاکستانی رجیم کے طرف دار نہیں تھے بلکہ صدر آصف علی زرداری کے ذاتی دوست تھے۔یہ ہے پاکستانی سفارت کاری کا حشر۔حکومت نے قرارداد کی منظوری کے بعد امریکہ میں متعین سفیر مسعود خان کو سبکدوش کر دیا ہے۔ویسے بھی اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکامی کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ دوسو کے قریب ممالک میں اس کا کوئی دوست نہیں ہے حتیٰ کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی کنی کترانے لگے ہیں۔واحد دوست چین ہے جو کچھ عرصہ قبل تک ناراض تھا اور اس کا مطالبہ تھا کہ چینی انجینئروں اور اہل کاروں کی حفاظت یقینی بنانے کےلئے آپریشن کیا جائے لیکن موجودہ حکومت نہ تو آپریشن شروع کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی سیکورٹی صورتحال کو سنبھالنے کی پوزیشن میں ہے۔اگر چین کے مطالبات نہ مانے گئے تو اس کا ناراض ہونا بھی یقینی ہے۔جب سے پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کے مقابلے میں چین کو ترجیح دے گا امریکہ سخت ناراض ہے حالانکہ اس نے اپنے بندے کو وزیرخزانہ اور وزیر داخلہ لگوا دیا ہے۔وزیرخزانہ نے ایسا بجٹ پیش کیا ہے اور غریبوں پر اتنے ٹیکس لگائے ہیں کہ یہ عمل بذات خود حکومت کی پیٹھ پر چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔ اگر پاکستانی عوام کو کوئی لیڈر کرنے والا ہوتا تو لاکھوں عوام سڑکوں پر آکر حکومت کا تیا پانچا ایک کرتے لکین کیا کریں مولانا کی بھی اپنی مصلحتیں ہیں اور عمران خان کی اپنی مجبوریاں۔وہ اس حد تک جانا نہیں چاہتے کہ ایجی ٹیشن کے ذریعے حکومت کا خاتمہ ہو۔ان کا اندرونی مطالبہ یہی ہے کہ حکومت ان کے حوالے کی جائے حالانکہ یہ کام ازسرنو عام انتخابات کے بغیر ممکن نہیں ہے۔مقتدرہ انتخابات کروانے سے اس لئے خوفزدہ ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج نہیں لاسکتی جس طرح ن لیگ کو فارم47 کے ذریعے زبردستی لایا گیا وہ حاکمان بالا کو ہی پتہ ہے۔8فروری کے انتخابات اور حکومت کی تشکیل کے بعد ن لیگ کا تقریباً صفایا ہو گیا ہے۔انتخابی مہم کے دوران میاں نوازشریف کو ایک بار پھر لانچ کیا گیا لیکن عوام میں اچھا تاثر لانے میں ناکام رہے۔اسی طرح مریم نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد اپنے والد محترم کو ایک بار پھر لانچ کیا وہ ن لیگ کے صدربھی بن گئے لیکن لاحاصل ۔اس جماعت کا پنجاب میں دوبارہ اٹھنا ایک معجزے سے کم نہ ہوگا۔بنیادی طورپر پاکستان کے عوام موجودہ تمام جماعتوں سے مایوس اور ناامید ہیں کیونکہ ملک کے معاشی حالات روز بروز خراب ہوتے جا رہے ہیں حکومت بجلی کی فراہمی کے بغیر پورے بل بھیج رہی ہے۔گیس کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کیا جا چکا ہے ٹیکسوں کی ادائیگی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔بلوں کی وجہ سے کئی لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں ایک ٹی وی اداکار اور شیخ رشید بھی خودکشی کی دھمکی دے چکے ہیں۔شدید گرمی میں دن رات کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے عوام کو جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے۔پیپلز پارٹی نے سودے بازی کرکے اوربے ایمانی سے کام لے کر عوام میں اپنی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر دی ہے ۔آئندہ آنے والے حالات زیادہ خوفناک ہوں گے اگر مولانا امارت اسلامیہ جنوبی بنا کر لوگوں کو وہاں بلائیں تو شاید انہیں ریلیف مل جائے ورنہ ادھر تو حالات ٹھیک ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں