متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے الطاف حسین کیخلاف جائیدادوں کی ملکیت کا مقدمہ جیت لیا

لندن (مانیٹرنگ ڈیسک ) متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے پارٹی کے بانی الطاف حسین کیخلاف لندن میں پارٹی کی جائیدادوں کی ملکیت کا مقدمہ جیت لیا۔ انگلینڈ اینڈ ویلز ہائی کورٹ میں بزنس اینڈ پراپرٹی کے جج طور فرائض انجام دینے والے جائیداد اور کاروباری امور کے جج کلائیو جونز نے ایم کیو ایم پاکستان کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان ہی اصل ایم کیو ایم ہے اور اس کے اراکین ہی ٹرسٹ اور جائیدادوں کے مالک ہیں، جہاں عدالت میں درخواست دائر وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی(آئی ٹی) امین الحق نے دائر کی تھی۔ جج نے فیصلے میں کہا گیا کہ یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ 2015 کے آئین پر عمل درآمد کیا گیا ہے اور مقدمے کی رو سے بھی ایسا نہیں ہوا اور اس کے بجائے اپریل 2016 کا آئین کی پیروی کی گئی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور وفاقی وزیر سید امین الحق، الطاف کی زیر قیادت ایم کیو ایم کے سابق کنوینر ندیم نصرت اور سابق معتمد طارق میر نے نومبر 2022 کے اواخر میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف جائیداد کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ امین الحق کی سربراہی میں درج مقدمہ شمالی لندن کی سات جائیدادوں کے حوالے سے ایک کروڑ پاو¿نڈ مالیت کا تھا، جس پر الطاف حسین کے سابق وفاداروں نے ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔ ایم کیو ایم کے رہنماو¿ں نے اثاثوں کی ملکیت کے حوالے سے مقدمے میں کہا تھا کہ یہ جائیداد ایم کیو ایم پاکستان کی ہے جس کے اراکین ٹرسٹ یا اس کے تحت تعمیری ٹرسٹس سے مستفید ہوتے ہیں اور کرائے کی آمدنی یا فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سمیت اس سے حاصل ہونے والے تمام فوائد ایم کیو ایم پاکستان کو ’غریب اور نادار لوگوں‘ کو فائدہ پہنچانے کے لیے وقف کرنا چاہیے۔ ایم کیو ایم پاکستان کا موقف تھا کہ ٹرسٹ کی اس شق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے دعویٰ کرنے والے نے کہا کہ دیانت داری سے کام کرنے میں ناکامی اور فائدہ اٹھانے والوں اور یا ٹرسٹس کے مفاد میں وہ اپنے اور ایم کیو ایم پاکستان کے لیے یو کے ٹرسٹیز ایکٹ 1925 کے تحت ٹرسٹیز کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔شمالی لندن میں جائیدادوں کے حوالے سے ٹرائل جنوری کے آخر میں مکمل ہوگیا تھا، جس کے دوران ایم کیو ایم کے بانی نے سماعتوں میں شریک ہوئے اور اپنے ہی سابق وفاداروں کا سامنا کیا اور وہ خود کو بطور پارٹی سربراہ ان 7 جائیدادوں کا مالک ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں