کنٹریکٹ ملازمین کی برطرفی کیس ، سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنی ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے، چیف جسٹس

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے کنٹریکٹ ملازمین کو برطرف کرنے کے کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل کی جانب سے اطمینان بخش جواب نا ملنے پر سپریم کورٹ نے برہمی کا ظہار کیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم دیکھیں گے کہ سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں ، سرکاری ادارے کیا کررہے ہیں؟ صرف لوگوں کو سرکاری نوکریوں میں بھرا جارہا ہے، صرف ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں، حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ بس کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں ، ایک ایک اسامی پر تین تین گنا ملازمین کو بھرتی کررہے ہیں، سرکاری نوکریاں ان کو پکڑنی ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے، غیر قانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں ؟وکیل درخواست گزار نے ایڈووکیٹ ملک نعیم نے بتایا کہ صدر اور گورنر کے پیکج کے تحت بھرتیاں ہوئیں تھیں، حکومت نے خود پراجیکٹ شروع کیا بعد میں ملازمین کو واپس بھیج دیا۔اس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہمیں حکومت تو نہیں چلانی ، حکومت وہ خود چلائیں، کیا قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں اختیارات کے نام پر، صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے ؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے ؟انہوں نے کہا ہم آئین کی دھجیاں اڑانے کی اجازت نہیں دیں گے، صدر کے پاس کیسے اختیار آیا کہ جسے چاہیں پیسے بانٹتے رہیں۔بعد ازاں حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایچ ڈی اے) کے برطرف ملازمین نے ایچ ڈی اے کے باہر احتجاج کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ وہ ایچ ڈی اے میں کم سے کم اجرت پر کنٹریکٹ ملازمین کے طور پر کام کر رہے تھے لیکن محکمہ نے تصدیق کرنے کے بجائے انہیں بغیر کسی وجہ کے نوکری سے فارغ کر دیا۔بعد ازاں واسا کے منیجنگ ڈائریکٹر نے برطرف ملازمین میں سے 60 فیصد کو بحال کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ باصلاحیت کارکن تھے، انہوں نے ڈان کو بتایا تھا کہ جلد ہی بحال کیے جانے والے افراد کی فہرست کو تقریباً حتمی شکل دے دی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں