حکومت گرانے کی سازش

تحریر: انور ساجدی
آٹھ فروری کے فراڈ الیکشن کے بعد جو بے اصولی سیاست چل رہی ہے اس میں کئی واقعات ہوئے ہیں۔اہم ترین نام نہاد حکمران جماعت ن لیگ کے اندر اختلافات ہیں ایسی صورت میں جبکہ پارٹی قائدین کومعلوم ہے کہ انہیں محض کرسی دی گئی ہے اختیار نہیں تو اس کے باوجود سپریم لیڈر نوازشریف اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں لگے ہیں۔اپنے چھوٹے بھائی سے غیر مطمئن میاں صاحب نے اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو عجلت میں ڈپٹی پرائم منسٹر لگوایا۔ ان کی خواہش تھی کہ اسحاق ڈار ایک بار پھر وزیر خزانہ بن کر معیشت کی نیا پار کریں لیکن بڑوں نے یہ خواہش پوری نہیں ہونے دی بلکہ محمد اورنگزیب کو یہ عہدہ دیا جو مقتدرحلقوں کے بااعتماد شخص ہیں۔ موصوف اسحاق ڈار سے زیادہ باصلاحیت اور جدید معیشت کو زیادہ سمجھتے ہیں۔چنانچہ اتوار کے دن جب وزیراعظم شہبازشریف سعودی دارالحکومت ریاض میں تھے تو زبردستی اسحاق ڈار کا نوٹیفیکیشن جاری کروایا گیا نہ صرف یہ بلکہ تین دن بعد فیصل آباد سے شکست خوردہ نوازشریف کیمپ کے لیڈر رانا ثناءاللہ کو مشیر لگوایا گیا اسی اثناءیہ اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ بہت جلد میاں صاحب پارٹی صدارت بھی سنبھالیں گے۔حالانکہ بظاہر وہ اس عہدہ کے لئے نااہل ہیں۔اگرانہوں نے صدارت کا عہدہ بھی سنبھالا تو شہبازشریف مزید بے اختیار ہوجائیں گے۔میاں صاحب ان دنوں چین کے پرائیویٹ دورے پر ہیں۔غالباً وہ وہاں پرسیروتفریح کے علاوہ اپنے بعض نجی کاموں کے لئے انویسٹرز بھی تلاش کر رہے ہیں۔میاں صاحب اگرچہ ایک تجربہ کار اور بڑے لیڈر ہیں لیکن وقت بدل چکا ہے۔وقت کے تقاضے بدل چکے ہیں۔پاکستانی نوجوان اگلے وقتوں کی سیاسی قیادت میں دلچسپی نہیں رکھتے ایک دونا دونا دو دونا چار کا زمانہ نہیں رہا۔یہ مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کا دور ہے۔ن لیگ کے پاس اب کوئی پروگرام نہیں کہ وہ نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرسکے ۔ اوپر سے حکومت کی کارکردگی بھی قابل رشک نہیں جبکہ16 ماہ کی حکومت شدید ناکامی سے دوچار ہوئی تھی جس کا منفی اثر پڑا ۔اسی کارکردگی کی وجہ سے ن لیگ الیکشن ہار گئی اور اسے معمولی اکثریت دلانے کے لئے بڑے جتن کرنے پڑے حتیٰ کہ نوازشریف خود دو نشستوں پر ہار گئے۔مٹی کی ناک رکھنے کے لئے انہیں لاہور کی سیٹ سے بڑی مشکل سے جتوایا گیا۔یہ تمام صورتحال نوازشریف کو ہضم نہیں ہو رہی ہے۔وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اینٹی مقتدرہ بیانہ بحال کردیں جو کہ مشکل ہے کیونکہ ن لیگ حکومت چلا رہی ہے اور حکومت کی موجودگی میں ایسا بیانیہ بنانا ناممکن ہے۔میاں صاحب کا جو ہارا ہوا لشکر ہے وہ مسلسل انہیں غلط تجزئیے پیش کر رہا ہے جس کی وجہ سے میاں صاحب اور کچھ کریں نہ کریں ایک بار پھر تصادم کے راستے پر چل نکلیں گے اور انجام بھی وہی 1999 اور2017 والا ہی نکلے گا کیونکہ ن لیگ عوام میں اپنی ساکھ کھوچکی ہے۔بوجوہ نوازشریف ماضی کے مقبول ترین لیڈر نہیں رہے وہ جی ٹی روڈ کی حمایت کھو چکے ہیں۔ جب ایک پارٹی اپنی مقبولیت کھو دے تو اسے دوبارہ بحال کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔انڈین کانگریس کی مثال سامنے ہے۔آزادی کی خالق جماعت طویل عرصہ سے خوار ہو رہی ہے لیکن بی جے پی کے آگے اس کی ایک نہیں چل رہی ہے۔خود اپنے ملک کے اندر پیپلز پارٹی کی مثال بھی سامنے ہے۔یہ2008 تک ملک کی ہمہ گیر اور مقبول جماعت تھی۔عمران خان کے آنے کے بعد اس کی مقبولیت کم ہو کر سندھ تک محدود ہو گئی۔پیپلز پارٹی کا جو اثاثہ نظر آ رہا ہے اس میں پارٹی کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ آصف علی زرداری کی ذاتی کاوشوں کا دخل زیادہ ہے۔

میاں صاحب نے اسحاق ڈار کو ڈپٹی پرائم منسٹر اور رانا ثناءاللہ کو مشیر لگوا کر تصادم کو دعوت دی ہے یا کسی بزر جمہر نے نکتہ اٹھایا ہے کہ جب تک شہبازشریف حکومت سے جان چھڑائی نہیں جائے گی پارٹی کی مقبولیت بحال نہیں ہوسکتی ہے۔ن لیگ کا خیال ہے کہ موجودہ بے اختیار حکومت کو وقت سے پہلے قربان کر دیا جائے تو آئندہ انتخابات میں وہ بھاری اکثریت حاصل کر لے گی لیکن یہ محض خوش فہمی ہے کیونکہ ن لیگ نے پنجاب کے اندر ایک خلا چھوڑا ہے جسے پی ٹی آئی پرچکی ہے۔اندازہ لگائیے کہ سندھ اور پختونخواہ میں پارٹی منظم ہی نہیں ہے جب دو صوبوں میں وہ الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں تو سارے ملک میں وہ کیسے اکثریت حاصل کر پائے گی۔ادھر پنجاب میں بی بی مریم کی تعیناتی بھی پارٹی کے لئے دھچکا ثابت ہو رہی ہے وہ ذاتی پبلسٹی کے لئے غیرسنجیدہ اور عامیانہ اقدامات کررہی ہیں۔کسان گندم کا ریٹ گر جانے سے زندہ درگور ہو گئے ہیں لیکن محترمہ ائیر ایمبولینس کھولنے کے اعلانات کر رہی ہیں جیسے کہ ان کے والد محترم نے میٹرو اور اورنج ٹرین کے منصوبے شروع کر کے ملک کو اتنا نقصان دیا کہ اس کا ازالہ ناممکن ہے اس کے علاوہ انہوں نے 80آئی پی پیز کھول کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کردیا ہے۔ان کی بیٹی بھی اسی طرح کے سطحی اور عامیانہ منصوبے شروع کر کے اپنی دانست میں پارٹی مقبولیت میں اضافہ کر رہی ہے لیکن لاہور شہر کا برا حال ہے۔ہر جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔اسٹریٹ کرائم کراچی سے بھی زیادہ ہیں۔اندرون لاہور کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور بی بی کے اپنے حلقے میں گٹر ابل رہے ہیں۔حالانکہ انتخابی مہم کے دوران ن لیگی رہنما فخریہ طور پر کہتے نہیں تھکتے تھے کہ لاہور پیرس سے زیادہ خوبصورت ہے۔شہبازشریف نے شہر کو کراچی سے کہیں زیادہ ترقی دی ہے لیکن ان کے اسلام آباد جانے کے بعد یکدم سے لاہور کی ترقی کا پول کھل گیا ہے۔ میاںصاحب نے کنی کترانے کا جو عمل شروع کیا ہے حکام بالا نے فوری طور پر اس کی توڑ یہ نکالی ہے کہ ایم کیو ایم کو ن لیگ کے کیمپ سے نکال کر پیپلزپارٹی کے کیمپ میں شامل کیا ہے۔ پارٹی قیادت نے وزیراعلیٰ ہاﺅس سندھ میں صدر زرداری سے ملاقات کر کے ن لیگ سے مایوسی کا اظہار کیا۔اس موقع پر وفاقی وزیر داخلہ اور پنجاب کے سابق نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی بھی موجود تھے۔محسن نقوی مقتدرہ کے نمائندہ ہیں اور ان کے زرداری سے بھی قریبی تعلقات ہیں۔

یہ تو معلوم نہیں کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران کیا ہوگا ؟ہاں ایسی نوبت آ سکتی ہے کہ شہبازشریف اپنی معمولی اکثریت کھو دیں ۔اس صورت میں چھوٹی پارٹیوں کے ووٹ بڑے کام آئیں گے۔ن لیگ کا فارورڈ بلاک پیپلزپارٹی اور چھوٹی پارٹیاں مل کر حکومت کو بچا سکتی ہیں یا نئی حکومت تشکیل دے سکتی ہیں۔حالات عجیب و غریب رخ پر جا رہے ہیں کیونکہ مولانا نے میدان میں آکر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے وہ عید کے بعد سڑکوں پرآنے کا پروگرام کھتے ہیں تاہم اس سے قبل انہوں نے مقتدرہ سے مذاکرات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔دو روز قبل انہوں نے کہا کہ شہباز حکومت کو کوئی اختیار نہیں اس لئے وہ بااختیار لوگوں سے بات کریں گے۔مولانا کیا بارگین کرنا چاہتے ہیں یہ آگے چل کر پتہ چلے گا جو بات پی ٹی آئی کہتی ہے اب مولانا بھی وہی بات کہہ رہے ہیں۔مولانا اور پی ٹی آئی دونوں کو خوش گمانی ہے کہ رواں سال ہی میں نئے انتخابات ہوں گے جس میں یہ پارٹیاں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔

اہل بلوچستان کو دعا مانگنی چاہیے کہ سعودی عرب پاکستان سے زرعی رقبہ جات طلب نہ کرے کیونکہ اگر اس نے ساحلی پٹی کا وسیع علاقہ طلب کرلیا تو عوام پوری ساحلی پٹی سے محروم ہوسکتے ہیں۔وزیراعظم شہبازشریف کے حالیہ دورہ کے دوران سعودی عرب نے زراعت کے شعبہ میں بھی سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی۔بلوچستان میں زمین تو کافی موجود ہے لیکن پانی نہیں ہے۔اگر سعودی عرب چاہے تو ڈیم بنا کر اوردیگر ذرائع استعمال کر کے پانی کا بندوبست کرسکتا ہے۔پاکستانی حکام چاغی میں واقع ریکوڈک منصوبہ کا نصف حصہ پہلے ہی سعودی عرب کو دینے کی پیش کش کر چکے ہیں جبکہ ایک آئل ریفائنری کے قیام پر بھی اتفاق ہوا ہے یہ ریفائنری بھی ممکنہ طور پر ساحل بلوچستان میں کسی جگہ قائم ہوگی۔نہ جانے اس کے علاوہ اور کیا کیا دینے کا وعدہ ہے؟۔

اپنا تبصرہ بھیجیں