نیم حکیم خطرہ جان
گل حسن بہلکانی
کہتے ہیں کہ نیم حکیم جان کے لیے خطرہ ہوتا ہے وہ کسی بیمار کی علاج کرنے اور ان کو صحتمند کرنے کی کوشش کرتے کرتے ان کی جان لے لیتا ہے۔ بلکل ایسے ہی سندھ حکومت نے تعلیم کے شعبہ میں نیم حکیم والا کردار اپنایا ہوا ہے جو بیمار تعلیمی نظام کو موت کے دہانے پہچانے کا باعث بن سکتا ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے سندھ حکومت نے صوبے بھر میں پہلی مرتبہ اساتذہ کےلئے ٹیچنگ لائسنس ٹیسٹ کا انعقاد کیا اور کامیاب اساتذہ کو ٹیچنگ لائسنس دینے اور پروموٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کا خیال سندھ گورنمنٹ کو ایک گلوکار شہزاد رائے نے دیا تھا۔ وہ گلوکار اور ان کی اہلیہ دو این جی او ز ‘دوربین’ اور ‘زندگی ٹرسٹ’ چلاتے ہیں۔ بظاہر تو یہ ایک اچھا خیال تھا۔ قابل اساتذہ کو ٹیچنگ لائسنس ملتا وہ فخر محسوس کرتے اور ان کی حوصلہ افزاٸی ہوتی، اس کے ساتھ ساتھ پروموشن بھی مل جاتی لیکن اس فیصلہ کے بعد جو نتائج سامنےآئے وہ متنازعہ اور شکوک وشبہات پر مبنی ہیں ۔
سندھ حکومت نے گلوکار شہزاد رائے کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نہایت ہی عجلت میں آٸی بی اے سکھر سے اساتذہ کے ٹیسٹ لینے کے لٸے خدمات حاصل کیں۔ حیران کن بات یہ تھی کے ٹیسٹ لینے سے پہلے پالیسی ہی نہیں بنائی گئی کہ ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے کتنے نمبر حاصل کرناضروری ہیں۔ ٹیسٹ لینے اور دینے والوں میں سے کسی کو کچھ نہیں معلوم تھا کہ ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے پاسنگ مارکس کراٸٹیریا کیا ہے؟جو کہ غیر قانونی ہے اور انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے خلاف ہے، نتیجتاً اس لا علمی کی وجہ سے ممتحن کی طرف سے بعض امیدواروں کو محض 0.25 نمبر پر فیل کیا گیا۔ یے پہلی مرتبہ کسی ٹیسٹ میں دیکھا گیا ہے کے امیدواروں کو موضوعی سوالات میں محض 0.25 نمبر پے فیل کیا گیا ہو، معروضی سوالات میں تو یہ ممکن ہے لیکن موضوعی سوالات میں اتنے معمولی سی پوائنٹس پے فیل کرنا ایک سوالیہ نشان ہے ۔ جس کا ممکنہ اور واضح جواب یے ہے کے ایگزمائینرس کو پاسنگ کرائیٹیریا کا معلوم ہی نہیں تھا ورنہ کوئی بھی ایگزمائینر اتنے معمولی سی پوائنٹس پے فیل نہ کرتا۔ آٸی بی اے سے ٹیسٹ رزلٹ لینے کے بعد گلوکار شہزاد رائے اور سندھ حکومت نے مل بیٹھ کر ایک متنازعہ پالیسی بنائی جس سے بظاہر گلوکار شہزاد رائے کے ادارے کو فائدہ ہوا اور نتیجہ میں بیشتر امیدوار اس گلوکار کے ادارے ‘دوربین’ سے ٹیچنگ ٹریننگ حاصل کرنے والے ہی پاس ہوئے۔ اللہ جانتا ہے کہ محض یہ اتفاق تھا , فنکاری تھی یا حکومتِ سندھ اور گلوکار کی ملی بھگت کہ رزلٹ دیکھنے کے بعد کلکیوشن کر کے وہ پالیسی بنائی گئی جس کے باعث زیادہ اسی ادارے کے امیدوار پاس ہوئے۔ بہرحال گلوکار شہزاد رائے کا دعویٰ ہے کہ پاس ہونے والے امیدواروں میں سے 83 فیصد کا تعلق دوربین سے ہے-
بدقسمتی سے ٹیچنگ لائسنس پالیسی بھی الیکشن 2024 کی طرح متنازعہ ثابت ہوئی ۔ جس طرح الیکشن 2024 میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ایک امیدوار کے فارم 45 میں ووٹ زیادہ تھے لیکن فارم 47 میں وہ ہار گیا، بلکل اسی طرح ٹیچنگ لائسنس ٹیسٹ میں 50 سے زیادہ مارکس اٹھانے والے اساتذہ، اس قدر کہ 63.75 مارکس اٹھانے والے کو بھی نااہل اور 50 مارکس اٹھانے والے اساتذہ کو اہل قرار دیا گیا ۔ اس متنازعہ پالیسی کی وجہ سے نا صرف قابل اساتذہ میں مایوسی پھیلی بلک شکوک وشبہات بھی پیدا ہوئے کے ٹیچنگ لائسنس کا خواب جس گلوکار نے دیکھا تھا 83 فیصد بینیفشری بھی اس کا ادارہ ہی کیوں؟ کیا سندھ کے باقی اساتذہ نااہل ہیں؟
کسی بھی پالیسی کو بنانے کے لیے اس شعبہ سے منسلک ماہرین کی آراء کے مطابق اس کے ہر پہلو پر غور وفکر کیا جاتا ہے تب ہی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے ۔ تعلیم سے منسلک پالیسی بنانے کے لیے تعلیی ماہرین کو شامل کرنا چاہیے تھا، نا کے کسی گلوکار یا کسی غیر متعلقہ شخص کو جس پالیسی کے وہ بینیفشری بھی ہوں۔ لیکن ٹیچنگ لائسنس پالیسی میں اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا جس وجہ سے بظاہر اس میں ظاہری اور قانونی سقم پاۓ جاتے ہیں ان پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔
جیسےکہ ٹیسٹ دو حصوں پر مشتمل تھا ، ایک حصہ معروضی سوالات پر مشتمل تھا اور دوسرا حصہ موضوعی تھا۔ٹیسٹ پاس کرنے کے لٸے پالیسی بنائی گئی کے پاس ہونے کے لیے ہر حصہ میں 50 فیصد مارکس اٹھانا لازمی ہیں۔ پالیسی سازوں نے یے بھی نہیں سوچا کے انسان اور کمپیوٹر میں فرق ہے ، کمپیوٹر پر چیک ہونے والے پہلے حصے کا نتیجہ تو 100 فیصد درست آئیگا لیکن دوسرا حصہ جو موضوعی تھا وہ انسانوں نے ہی چیک کرنا تھا اور انسانوں کی مارکنگ کی اکیوریسی لیول کبھی بھی 100 فیصد نہیں ہوتا بلکہ 80 فیصد سے بھی کم ہوتا ہےکیوں کہ مختلف انسان مختلف سوچ اور مزاج رکھتے ہیں موضوعی طریقہ امتحان میں ممتحن کی شخصیت ، اس کا مزاج اور معلومات اثر انداز ہوتی ہے۔ کوئی مارکس دینے میں ہاتھ ہلکا رکھتا ہے کوئی بھاری، کوئی ایک جواب کو کس نظریہ سے دیکھتا ہے کوئی کسی اور نظریہ سے، اور انسان کا مزاج ہمیشہ ایک جیسا بھی نہیں رہتا، نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کسی امیدوار کو زیادہ نمبر مل جاتے ہیں تو کسی کو کم، اس وجہ سے دنیا بھرمیں معروضی سوالات کو ترجیع دی جاتی ہے کیوں کہ اس میں نمبرات کی اکیوریسی 100 فیصد ہے ۔ جبکہ اس ٹیسٹ میں تو بعض امیدواروں کو موضوعی حصہ میں 0.25 نمبر سے بھی فیل کیا گیا جو پالیسی سازوں کی فلاپ پالیسی کا ثبوت ہے۔ اگر ٹیسٹ رزلٹ کو غور سے دیکھا جائے تو رزلٹ چیخ چیخ کے کہ رہا ہے کہ کوئی ممتحن نمبر دینے میں بڑا دل رکھتا ہے کوئی چھوٹا۔ رزلٹ کے پہلے صفحہ کو دیکھنے سےاندازہ ہوتا ہے کہ 59 میں سے 26 امیدوار پاس ہیں جبکہ آخری صفحہ میں 46 میں سے صرف 04 امیدوار پاس ہیں، اور یہ محظ اتفاق نہیں ہو سکتا ہے کہ پہلے صفحہ کے اکثر امیدوار قابل تھے اور آخری صفحہ والے نالائق، بلکہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موضوعی حصہ میں انسانی مزاج کی وجہ سے نمبر میں اکیوریسی نہیں۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسی سازوں کو کوئی ایسی پالیسی مرتب کرنا چاہیے تھی جس سے قابل اساتذہ کو مایوسی نا ہو جبکہ دیکھا جائے توبعض اساتذہ موضوعی حصہ میں محض ایک نمبر، 0.75 نمبر، 0.5 نمبر یا 0.25 نمبر سے فیل کیے گئے جو کہ ناانصافی پر مبنی ہے اور اس پالیسی پر نظر ثانی ناگزیر ہے۔
سی ایس ایس جیسے مقابلہ کے امتحان میں بھی موضوعی حصہ کا پاسنگ اسکور 40 فیصد ہوتا ہے اور سندھ حکومت اساتذہ کی بھرتی بھی 40 فیصد پر کررہا ہے، بڑی بات کہ 17 گریڈ کے افسر ہیڈ ماسٹر بھی کم و بیش اتنے ہی مارکس پے بھرتی کیے گئے اور ٹیچنگ لائسنس ٹیسٹ میں 63.75 مارکس اٹھانے والا بھی فیل کیوں؟
گورنمنٹ سروس میں آنے والے اساتذہ پہلے بھی این ٹی ایس یا آئی بی اے کی ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ہی نوکری کے اہل قرار پاۓ تھے کیا وہ قابلِ بھروسہ نہیں تھے؟ تو اساتذہ کو اس تختہ مشق کیوں بنایا گیا؟ کیا تعلیمی پالیسی اب فنکار بناٸیں گے؟ ان کی تعلیمی قابلیت سے کون واقف ہے؟ اگر ایسے نیم حکیم پالیسی ساز ایسی بے تکی پالیسی بناتے رہے تو خدا نخواستہ بیمار تعلیمی نظام موت کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔