چین کے نقش قدم پر

انورساجدی:
کراچی پریس کلب میں پیکا قانون کے خلاف منعقدہ اجلاس میں کلب کے سابق صدر اور ممتاز صحافی سعید سربازی نے یہ نکتہ سامنے رکھا کہ موجودہ حکومت چینی ماڈل اپنا رہی ہے۔پیکا قانون یا اظہار رائے پر قدغن اسی سمت ایک قدم ہے یہ واقعی ایک پتے کی بات ہے اگرچہ ہم بارہا اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت سوشل میڈیا سے تنگ آ چکی ہے اور وہ مختلف پابندیاں لگا کر چین روس اور شمالی کوریا کے نقش قدم پر چلنا چاہتی ہے۔اس کے ثبوت آہستہ آہستہ سامنے آ رہے ہیں۔سائبر کرائم اور ملکی قوانین کی موجودگی میں پیکا قانون کو نافذ کرنا اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ ریاست میں جمہوریت پہلے رخصت ہو چکی ہے پارلیمنٹ اپنی وقعت کھو چکی ہے۔سیاست کو ایک غیر سنجیدہ عمل بنا دیا گیا ہے۔اب آخری اقدام کے طورپر یہ بندوبست کر لیا گیا ہے کہ میڈیا اورخاص طورپر سوشل میڈیا کی زبان بندی کر دی جائے۔قانون کی بیڑیاں پہنا کر یہ بندوبست کرلیا گیا ہے کہ کوئی بھی ذی شعور شخص حکومتی شخصیات،عدلیہ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے اراکین کے خلاف بھی لب کشائی نہ کرے ورنہ وہ قابل گردن ذنی ٹھہرایا جائے گا۔حکومتی اکابرین کا خیال ہے کہ ملک میں موجود تمام تر خرابیوں کی وجہ سرکش سوشل میڈیا ہے کوئی شک نہیں کہ ہمارے لوگ انتہاپسند واقع ہوئے ہیں اور وہ ہر آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں لیکن ان سے زیادہ حکومتیں اپنے حق میں جھوٹا پروپیگنڈا کرتی ہیں حکمران روز جھوٹ بولتے ہیں اور ترقی کے ضمن میں سبز باغ دکھاتے ہیں لیکن ان کی دروغ گوئی سے قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوتی جس ریاست میں جمہوریت اور انصاف نہ ہوں وہاں پر ہر ظلم اور جبرکی تان ان لوگوں پر ٹوٹتی ہے جو حق کی خاطر آواز بلند کرتے ہیں۔عجیب دستورہے کہ اگر گوادر اور کیچ میں کتابوں کی نمائش ہو توکتابوں کو گرفتار اور پیش کاروں کو شرپسند قرار دیا جاتا ہے جب کہ یہ ساری کتابیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ مواد لاہور کراچی اور اسلام آباد کی دکانوں میں موجود ہے اگر کتابیں بلوچستان میں پڑھی جائیں تو وہ جرم ہے جبکہ دیگر علاقوں کے لئے اصول کوئی اورہے۔حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہی ہے کہ حکمران ادب آگہی اور شعورسے خوفزدہ ہیں وہ اپنی نئی نسل سے ڈرتے ہیں انہیں خطرہ ہے کہ اگر سماج میں اجتماعی شعور جم گیا تو موروثی سیاست ختم ہو جائے گی۔حالات کو جوں کا توںرکھنے کے حربے باقی نہیں رہیں گے۔اس کی آڑ میں کرپشن عروج پرہے۔عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔اس لئے پیکا کا قانون نافذ کیا گیا ہے تاکہ اگر کوئی ان خرابیوں کی نشاندہی کرے تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جائے۔اگر کوئی کہے کہ ہمارے حکمران نااہل اور عقل سلیم سے عاری ہیں تو اسے باقاعدہ الزام قرار دیا جائے اورخصوصی عدالتوں میں اس پر فرد جرم عائد کر دی جائے۔بلاشبہ حکمران جو قوانین بناتے ہیں ان کا مقصد ان کا تحفظ اور مخالفین پر قہر بن کر ٹوٹنا ہے کہنے کوتو آئین نافذ ہے قانون کی نظرمیں تمام شہری برابر ہیں لیکن کہاں؟ ایک دونمبری اشرافیہ کو سب پر فوقیت حاصل ہے وہ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات اور عوام کو کمی کمین اورکیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں۔اگر قانون برابر ہوتا تو بھوکے ننگے بھکاریوں کو گرفتار اور ملک ملک جا کر بھیک مانگنے والے حکمرانوں کو صاحبان عزوشرف قرار نہیں دیا جاتا۔اگر قانون کی نظر میں سب برابرہوتے تو ادریس خٹک ناکردہ گناہوں کی پاداش میں تاریک زندانوں میں نہ پڑے ہوتے یا علی وزیر کو اذیت خانوں میں نہ دھکیلا جاتا۔اعداد و شمارموجود نہیں ہیں لیکن خدشہ ہے کہ سینکڑوں لوگ جن میں سیاسی کارکن بھی شامل ہیں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں زیرحراست ہیں۔اگر کوئی عدالت ان کی رہائی کا حکم دیتی ہے تو حکمران اسے تسلیم نہیں کرتے اسی طرح بے شمار لوگ لاپتہ ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔خود حکومتی صلاحیتوں کا یہ حال ہے کہ کئی ہفتے ہوئے کرم آگ میں جل رہا ہے لیکن حکمرانوں میں دم نہیں ہے کہ وہاں پر لاکھوں لوگوں کا تحفظ کرے۔حکومت کا زور بندوق برداروں پر نہیں چلتا صرف شریف شہری ہی اس کا آسان ہدف ہیں۔ایک وی لاگر کے مطابق ایسا کوئی منصوبہ ہے کہ جس طرح امریکہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کروانے کی کوشش کررہا ہے اسی طرح کچھ عناصر چاہتے ہیں کہ پارا چنار انسانوں سے خالی ہو جائے۔اس خواہش کا کیا مقصد ہے یہ وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے یہ منصوبہ بنا رکھا ہے۔اگر ناکامیوں کو گنا جائے تو ان کا شمار نہیں خارجہ پالیسی ناکام ترین دورسے گزررہی ہے۔ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد دنیا کے چیدہ چیدہ لیڈروں سے ملاقات کی ہے اور فون کالز کی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ کو پتہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان بھی روئے زمین کا ایک ملک ہے۔ٹرمپ نے واشنگٹن بلا کرنریندرمودی سے ملاقات کی اور عاجزانہ التجا کی کہ بھارت امریکہ کا خیال رکھے اس کی زیادہ چیزیں خریدے جو گزشتہ صدر تھے جوبائیڈن اس کے دور میں عمران خان روز ٹیلی فون کے قریب بیٹھتے تھے کہ شاید امریکی صدرکی کال آ جائے لیکن ساڑھے تین سال میں کوئی کال نہ آئی۔اس وقت بھی تحریک انصاف کے رہنما منتظرہیں کہ صدر ٹرمپ کی کال آ جائے اور ان کے لیڈر عمران خان کو قید سے نجات مل جائے لیکن یہ خواہش ابھی تک ادھوری ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کا کوئی سفیر تعینات نہیں ہے۔اس صورتحال کے پیش نظر صدر آصف علی زرداری نے خارجہ پالیسی کا کچھ بوجھ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے چین کا دورہ کیا اور صدر شی پنگ سے اہم بات کی یہ تو معلوم نہیں کہ دونوں صدور کے درمیان کیا بات ہوئی البتہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ زرداری نے بعض یقین دہانیاں کروائی ہوں گی اور چینی صدر سے سی پیک جاری رکھنے کی درخواست کی ہوگی۔پاکستان کےلئے مشکل ہے کہ چین کے ایک دومشکل مطالبات کیسے منظور کرے۔ہوسکتا ہے کہ چین چاہتا ہوکہ گوادر میں اس کی عملی موجودگی ضروری ہے لیکن پاکستان یہ افورڈ نہیں کرسکتا ورنہ امریکہ کا ردعمل خطرناک ہو سکتا ہے۔بے شک آج صدر ٹرمپ کو پاکستان یاد نہ ہو اگر گوادر ”بیس“ بن جائے تو یہ امریکہ سے ہضم نہیں ہوگا۔اگرچہ بہت مشکل مقابلہ ہے کہ پاکستان کس طرح امریکہ سے جان چھڑا کر چین کے اثر اور تصرف میں آٰ جائے۔ہم سے طالبان اچھے ہیں کہ اس کے بیک وقت چین انڈیا اور امریکہ سے اچھے تعلقات ہیںاور وہ کسی کی پرواہ کئے بغیر اپنا کام کئے جا رہے ہیں۔ناتجربہ کار اوربے وسیلہ ہونے کے باوجود طالبان کی رٹ مضبوط ہے جبکہ پاکستان میں کسی بھی معاملہ میں حکومتی گرفت کمزورہے۔مولانا فضل الرحمن تواس بارے میں روز ڈراتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ دوصوبے کسی وقت بھی ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔مولانا کی تواپنی پالیسی بھی واضح نہیں ہے معلوم نہیں کہ وہ حکومت اور اپوزیشن میں سے کس کے ساتھ ہیں۔26ویں آئینی ترامیم کی منظوری میں انہوں نے اہم کردارادا کیا لیکن اس کے فوری بعد وہ دوبارہ اپوزیشن کی صفوں میں آ گئے۔اسی طرح پیپلزپارٹی حکومت میں شامل ہے لیکن اس کے لیڈر ایسا ظاہر کررہے ہیں جیسے وہ ن لیگ کے سب سے بڑ ناقد ہیں۔اس طرز عمل سے مایوس ہوکر بلاول باہر چلے گئے ہیں جہاں وہ اپنا مشکل وقت گزاررہے ہیں۔زرداری نے بہت کوشش کی کہ ان کے صاحبزادے وزیراعظم بن جائیں لیکن یہ کاوشیں قبل از وقت تھیں جبکہ آثاربتا رہے ہیں کہ اگلی باری مریم نواز کی ہے۔ادارے اور مریم بی بی جس طرح ایک پیج پرآئے ہیں جس طرح باہم رقم ہیں اس سے تو یہی ظاہرہوتا ہے کہ بلاول کو آئندہ دو الیکشن تک انتظارکرنا پڑے گا۔خود اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف بھی دوغلے پن کی شکار ہے۔اس نے دھاندلی زدہ انتخابات کو قبول کیا۔حکومت کوتسلیم کیا اور اپوزیشن کا رول نبھایا۔اس کے باوجود اس کا مطالبہ ہے کہ اس کا چوری شدہ مینڈیٹ بحال کیا جائے جو کہ ناممکن نظر آتا ہے۔اگر تحریک انصاف اسمبلیوں میں نہ بیٹھتی پختونخوا میں حکومت نہ بناتی اور استعفیٰ دے کر اسمبلیوں سے باہر نکل آتی تو اسے یہ دھکے نہ پڑتے۔اگر ٹرمپ نے مدد نہ کی توعمران خان کا ملٹری ٹرائل لازمی طورپرہوناہے جس کے بعد یہ جماعت مزید ٹوٹ پھوٹ اورتقسیم کا شکار ہو جائے گی۔جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو وہاں پر کچھ بھی ہو جائے زمین پلٹ جائے یا آسمان نیچے آ جائے کسی کو پرواہ نہیں۔ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی خلائی سیارہ ہے اور اس سے سلوک بھی ویسے ہی روا رکھا جا رہا ہے۔