نئی گریٹ گیم اور پاکستان

تحریر: انور ساجدی
کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہی ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے توسط سے دنیا کے اہم حصے میں جو گریٹ گیم شروع کیا تھا بے نظیر بھٹو کا کمپنی باغ راولپنڈی کے سامنے دن دیہاڑے قتل اسی گیم کا حصہ تھا۔قتل کے کچھ عرصہ بعد روسی انٹلی جنس نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ قتل ڈیپ اسٹیٹ اور تحریک طالبان کے مشترکہ منصوبے کا حصہ تھا اور یقینی طورپر امریکی سی آئی اے اور برٹش ایم آئی6 اس منصوبے سے آگاہ تھے لیکن انہوں نے محترمہ کو اس سے آگاہ نہیں کیا۔بے نظیر کے قتل کے بعد فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کا زوال شروع ہوا کیونکہ امریکہ اس کو افغانستان میں استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کر چکا تھا جیسے کہ ضیاءالحق کے ذریعے سوویت یونین کو شکست سے دوچار کرنے کے بعد امریکہ نے17اگست1988 کو اس کا حشر کر دیا تھا۔
اگرچہ امریکا نے تحریک طالبان کی بنیاد بے نظیر سے رکھوائی تھی لیکن جب یہ تحریک اپنے عروج پر پہنچی تو اس نے بے نظیر ہی کی جان لے لی۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے طالبان حکومت کا خاتمہ کر کے اسے تتر بتر کر دیا اور کابل کے تخت پر پہلے حامد کرزئی اور بعدازاں اشرف غنی کو بٹھایا لیکن وہ نااہل ثابت ہوئے۔امریکہ نے جس افغان فوج کی تربیت کی تھی اس میں لڑنے کی سکت نہیں تھی چنانچہ امریکہ نے قطر میں طالبان سے مذاکرات شروع کر دئیے جس کے نتیجے میں افغانستان ایک بار پھر طالبان کے حوالے کر دیا۔امریکہ اور طالبان کے معاہدہ کی کئی باتیں پوشیدہ ہیں یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک خفیہ معاہدہ بھی ہوا تھا جس کے تحت طالبان اہم مواقع پر امریکہ کی مدد کرنے کے پابند ہیں۔امریکہ خود چھوڑ کر چلا گیا لیکن معلوم نہیں کہ اس خطے میں اسے کس طرح کا تعاون درکار ہے۔بظاہر تو طالبان چین کے ساتھ تعلقات بنا رہے ہیں اور چین نے افغان کارویڈور بھی بنا دیا ہے۔جواب میں طالبان نے ایغور دستوں کو نکال دیا ہے جو سنکیانگ میں آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔غالب امکان یہی ہے کہ ایغور ترکی پہنچ گئے ہیں جہاں انہوں نے دمشق کے قبضہ میں اہم کردار ادا کیا لیکن امریکہ میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کسی بھی اتحاد کو توڑ سکتا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے جبکہ ضرورت پڑنے پر پیر بھی پکڑ سکتا ہے۔کوئی بعید نہیں کہ کل کلاں امریکہ طالبان خاص طور پر ٹی ٹی پی کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرے۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کبھی گرم کبھی نرم رہے ہیں امریکہ نے چین سے پاکستان کی دوستی کے باوجود کئی حکمرانوں کو اپنے مقصد کی خاطر استعمال کیا ہے مثال کے طور پر اس نے ایٹمی پروگرام کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاءالحق کی نام نہاد عدالتوں کے ذریعے مروایا جب اس نے دیکھا کہ ضیاءالحق ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے تو اس نے ضیاءالحق کا بھی حشر کردیا۔اس نے دیکھا کہ ضیا ئالحق کے بعد بھی یہ پروگرام جاری ہے تو نائن الیون کا بدلہ لینے کے لئے اس نے پاکستان کو استعمال کیا۔اس کے بدلے میں ایٹمی پروگرام پر خاموشی اختیار کرلی لیکن گزشتہ سال اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ بیان دیا تھا کہ ایران اور پاکستان کی ایٹمی تنصیبات اس کے ہدف پرہیں ۔صدر بائیڈن یا اس کی انتظامیہ نے اس بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس سلسلے میں اسرائیل کا کہا ضرور مانے گا حال ہی میں امریکہ نے چار پاکستانی کمپنیوں پر پابندی عائد کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ ایک وارننگ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی نظر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور خاص طورپر بیلسٹک میزائلوں پر ہے۔
اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران کے میزائل جس طرح تل ابیب تک پہنچے پاکستان کے میزائل تکنیکی طورپر ایران سے کہیں آگے ہیں اور وہ اسرائیل کو کامیابی کے ساتھ ہدف بنا سکتے ہیں چنانچہ پاکستان کے جدید اسلحہ پر نظر رکھنا یا اسے روک دینا عالمی ”گریٹ گیم “ کا حصہ ہے۔منتخب صدرٹرمپ کی نامزد انتظامیہ نے ابھی سے مختلف بیانات دیتے ہیں خاص طورپر اس کے ایک مشیر برائے شمالی کوریا نے عمران خان کی نظربندی پر تنقید کرتے ہوئے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔نئے مشیر کو پاکستان اور افغانستان کے امور کا قلمدان بھی دیا جا رہا ہے اس طرح یورپی یونین نے ملٹری کورٹ کی جانب سے9مئی کے ملزمان کے ٹرائل پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے عالمی اصولوں او انصاف کے منافی قرار دیا ہے۔اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ عمران خان کے خلاف کارروائیوں کو لے کر ٹرمپ انتظامیہ مزید سخت بیانات جاری کرے گی۔یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل کے دباؤ پر ایٹمی پروگرام اور بین البراعظمی میزائلوں کے پروگرام سے متعلق بھی سخت قدم اٹھایا جائے یہ اقدام معاشی پابندیوں کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔ماضی میں امریکہ نے گریٹ گیم شروع کر کے اپنے اہداف حاصل کئے تھے لیکن 7جنوری2024 کو جب حماس نے اسرائیل کے اندر گھس کر یہودیوں کو قتل کیا اسرائیل نے امریکی آشیرباد سے جوابی حملے کر کے غزہ کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔غزہ وہ مقام ہے جہاں سے اسرائیل دنیا کی عظیم ترین آبی گزرگاہ بنا رہا ہے جو سوئز کینال کا متبادل ثابت ہوگا۔اس میگاپروجیکٹ پر55 ارب ڈالر خرچ آ رہا ہے۔اسرائیل کو اپنے مقاصد کی خاطر فلسطین کی مزید زمین درکار ہے اور اس نے ابھی تک کامیابی کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کا خواب چکنا چور کر دیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ گریٹر اسرائیل منصوبہ پر امریکہ اور اسرائیل ایک پیج پر آ گئے ہیں شام میں تبدیلی اس کا پتہ دیتی ہے۔شام،مصر کے بعد مشرق وسطیٰ کا اہم ترین ملک ہے جس کا جغرافیہ مصر سے بھی زیادہ اہم ہے۔حیات التحریر کے ذریعے اسرائیل نے عملاً شام پر قبضہ کر لیا ہے۔وہ ترکی کو شہ دے رہا ہے کہ وہ شامی کردستان کو اپنے قبضے میں لے لے تاکہ اسرائیل کو مزید علاقے ہتھیانے کا موقع مل جائے۔شام کے نئے لیڈر سابق الجولانی اور موجودہ الشرع نے ٹائی پہن کر اپنے اوپر انتہاپسند ہونے کا لیبل اترنے کی کوشش کی ہے وہ غاصب ترکی کے وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران ایک نئے روپ میں سامنے آئے۔الشرع نے دمشق میں اعلان کیا ہے کہ وہ حضرت امیر معاویہؓ کے سیاسی فلسفہ پر چلنے کی کوشش کریں گے اور انہوں نے یزید کے مزار کو ازسر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔اسرائیل نے الشرع کے قبضہ کے بعد شام کی ساری جنگی قوت کو تہس نہس کر دیا ہے لیکن نئے لیڈر نے اس کی کوئی مذمت نہیں کی ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ اسرائیل کو شام سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔گریٹر اسرائیل کیا ہے یہ شام اردن عراق اور مکہ مدینہ پر مشتمل ہوگا ۔اگرچہ اس پلان پر سوفیصد عمل درآمد ممکن نہیں ہے لیکن وہ اپنے ارد گرد واقع تمام ممالک کو امریکی تعاون سے اپنا مطیع اور باجگزار بنا لے گا۔اپنی سلامتی کو لاحق خطرات کا رونا رو کر وہ ایران کو اگلا ہدف بنائے گا جبکہ اس کے بعد امکانی طورپر پاکستان کی باری ہے۔یہ واقعہ تو سب کو یاد ہوگا کہ ضیاءالحق کے دور میں اسرائیلی طیارے سری نگر ائیرپور پر اترے تھے اور وہ کہوٹہ کے ایٹمی پلانٹ کو نشانہ بنانے کے لئے اڑان بھرنے والے تھے کہ امریکہ نے اسے روک دیا تھا۔اگرچہ پاکستان کو نشانہ بنانا اسرائیل کے لئے اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ فاصلہ زیادہ ہے اور پاکستان کے پاس صلاحیت ہے کہ وہ اسرائیلی طیاروں کو مار گرائے۔اسرائیل کو کسی بھی کارروائی کےلئے انڈیا کے اڈے استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی جبکہ مودی جنگ و جدل سے دور اپنے ملک کو دنیا کو تیسری بڑی معیشت بنانے میں مصروف ہیں۔مودی برک کا حصہ بن گئے ہیں جو چین اور روس نے قائم کیا ہے۔یہ بلاک ڈالر کے مقابلے میں نئی کرنسی لانے کا پروگرام رکھتا ہے۔اگر پاکستان بھی برک کا حصہ بن گیا تو مودی بھی اس کے خلاف کوئی کارروائی کا نہیں سوچے گا البتہ مختلف کھلاڑی افغان اور پاکستانی طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر کے اسے داخلی طور پر مزید کمزور بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔دہشت گردی سے معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں۔سیاست دانوں کی چپقلش شدید سیاسی عدم استحکام کا باعث ہے جس کی وجہ سے ریاست پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور ہے اس پر حملہ کےلئے باہر کی قوتوں کی ضرورت نہیں ہے جو خانہ جنگی ہو رہی ہے وہی کافی ہے۔اگرپاکستانی حکمرانوں نے ماضی سے سابق نہیں سیکھا آپس میں صلح نہیں کی سیاست میں مداخلت کی روش ترک نہیں کی انتخابات میں مداخلت سے باز نہیں آئے تو یہاں پر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔حکمران سوچیں کہ پاکستان عالمی گریٹ گیم سے دور نہیں ہے بلکہ اس کی زد میں ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ چند دنوں میں اقتدار سنبھال لیں گے تو عمران خان کے لئے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی جبکہ ن لیگی چاہتے ہیں کہ عمران خان سولی چڑھ جائے۔عمران خان نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں امریکی مداخلت کے خلاف ابسلوٹلی ناٹ کا نعرہ لگایا تھا لیکن تھے وہ امریکہ اور مغرب کے آدمی۔شواہد یہی ثابت کر رہے ہیں کہ یہ پاکستانی سیاستدانوں کا وطیرہ ہے کہ وہ کہتے اور ہیں کرتے اور ہیں ان کا ظاہر اور ہے اور باطن اور ہے۔یہ صرف عمران خان پر موقوف نہیں بلکہ سارے ایک جیسے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں