ہمارے ایماندار ایم پی اے

تحریر: انور ساجدی
بلوچستان اسمبلی کے نامی گرامی ایماندار اراکین اسمبلی نے اپنی ایک ساتھی رکن فرح عظیم شاہ کے خلاف تحریک استحقاق جمع کروا دی ہے۔تحریک اے این پی کے پارلیمانی لیڈر زمرک خان اچکزئی نے جمع کروائی جبکہ اپوزیشن لیڈر اور جے یو آئی کے رکن یونس عزیز زہری نے اس کی حمایت کی ہے۔دیگراراکین میں رحمت صالح بلوچ،علی مدد جتک،محمد خان لہڑی،میر کوہ یار ڈومکی،بخت کاکڑ،خیرجان بلوچ شامل ہیں۔واضح رہے کہ 12مارچ کو اسمبلی میں کئی گئی اپنی تقریر میں فرح عظیم شاہ نے بلوچستان کی ترقیاتی اسکیمیں فروخت ہونے، ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی کے لئے20-20کروڑ روپے لینے کا الزام سیاستدانوں پر لگایا تھا۔تحریک استحقاق کے مطابق فرح عظیم شاہ کو اپنی تقریر پر معذرت کرنے کو کہا گیا جوکہ انہوں نے نہیں کی جس سے معزز اراکین کا استحقاق مجروح ہوا۔یہ بھی کہا گیا کہ خاتون کی جانب سے صوبہ کے موجودہ کشیدہ حالات کے ذمہ دار سیاست دانوں کو قرار دینے کے معاملہ کو استحقاق کمیٹی کے حوالے کیا جائے۔ویسے ازراہ اصول اتنے ایماندار اور مخلص رہنما جب خاتون سے معذرت کا مطالبہ کر رہے تھے تو انہیں معافی مانگ لینی چاہیے تھی معافی نہ مانگنے کی صورت میں ان کے خلاف تحریک استحقاق منظورہو جائے گی تاہم یہ معلوم نہیں کہ اگر کسی رکن کے خلاف تحریک استحقاق منظور ہوتی ہے تو اس کی کوئی سزا بھی ہے یا اسپیکر محض سرزنش کرکے معاملہ رفع دفع کر دیں گے۔اگر فرح عظیم شاہ نے معذرت کرنے سے انکار کیا ہے تو ضرور اس کی وجہ ہوگی۔وہ یقینی طورپر اس مسئلہ پرمزید بحث کرنا چاہیں گی۔ہوسکتا ہے کہ فنڈزکی تفصیلات بھی سامنے لے آئیں۔عوام کو تویہ پتہ نہیں کہ اراکین اسمبلی کو سالانہ ترقیاتی مد میں کتنا فنڈ ملتا ہے اور وہ کن منصوبوں پر یہ رقم خرچ کرتے ہیں۔ظاہرسی بات ہے کہ اتنے نامی گرامی کہنہ مشق اور نیک نام لوگ تو کرپشن کرنے اور عوام کے فنڈز کھانے سے رہے۔ضرور محترمہ فرح عظیم شاہ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں حسب مطالبہ فنڈز کم ملے ہونگے اور انہوں نے دل کی بھڑاس نکانے کے لئے دھواں دھار خطاب کیا ہوگا۔اس کا انہیں نقصان بھی ہوسکتا ہے اور فائدہ بھی مل سکتا ہے۔بلوچستان میں چونکہ ڈھنگ کی اپوزیشن ہوتی نہیں ہے اس لئے سب لوگ مل جل کر باہمی رضا مندی اور اتفاق سے اپنے اپنے پی ایس ڈی پی منظور کرواتے ہیں۔اگر لڑ جھگڑ لیں توان کے حلقوں کے عوام کو اس کا نقصان ہوگا چونکہ محترمہ کا اپنا تعلق باپ پارٹی سے ہے اس لئے انہیں بھی شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔وزیراعلیٰ سے بھی ان کے تعلقات اچھے ہوں گے لیکن ان کے جذباتی ہونے کی وجوہات کا پتہ نہیں ہے۔اگر ان کا مسئلہ زیادہ فنڈز کا حصول ہے تو دیگر اراکین کی طرح یہ بھی ان کا حق ہے۔کمی بیشی ہوتو بڑی سفارش سے یہ مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔اگر یہ مسئلہ نہیں تو پھر گمان کیا جا سکتا ہے کہ فرح عظیم شاہ ماضی کا کفارہ ادا کرنے پرآمادہ ہیں یہ محترمہ کون ہیں؟ نام تو ان کا1990سے سن رکھا ہے لیکن چونکہ ہم لوگ اقتدار اور حکمرانوں سے دور ہیں اس لئے ان کی شخصیت سے کماحقہ آگاہی نہیں رکھتے۔گزشتہ کچھ عرصہ سے وہ کچھ مختلف باتیں کرنے لگی تھیں۔جیسے کہ وہ اپوزیشن میں ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ حالیہ واقعات سے ان کا سافٹ وئیر بھی اپ ڈیٹ ہو چکا ہو اور وہ آئندہ سے احتیاط برتیں اور فرماں بردار بن کر رہیں۔اگر اس کے باوجود ان وطیرہ نہیں بدلا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پختہ عمر میں ان کا ضمیر جاگ گیا ہوگا؟حالانکہ ضمیر عرصہ ہوا بلوچستان سے غائب ہے۔جن لوگوں نے فارم47 کے تحت کامیابی حاصل کی وہ بھی دھڑلے کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہے ہیںکہ عوام نے انہیں ووٹ دے کرمنتخب کیا ہے۔وہ اس دعوے پر برحق ہیں کیونکہ پورے ملک میں یہی صورت حال چل رہی ہے۔بے چارے بلوچستان والوں کا کیا قصورہے؟۔اگر دیکھا جائے تو جس طرح ”ضمیر“ غائب ہو چکا ہے اسی طرح کافی عرصہ سے ایک مشہور پرندہ بھی بلوچستان سے ناپید ہو چکا ہے۔اس پرندے کا نام ہے”گدھ“ ۔یہ تو حیوانات کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ واقعی میں گدھ ختم ہوئے ہیں یا یہ ہمارا اندازہ ہے۔تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر گدھ ختم ہوگئے ہیں تو اس کی کیا وجوہات ہیں۔گدھ ایک مردار خور پرندہ ہے اس کی روزی روٹی توہرجگہ موجود ہے پھر یہ کیوں ناپید ہوا۔یہ سمجھ سے بالاترہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جس سماج میں انسان خونخوار ہو کرگدھ کی جگہ لے لیں تو گدھ کی نسل وہاں سے ختم ہو جاتی ہے۔بدقسمتی سے بلوچستان میں کسی شعبہ میں بھی کوئی تحقیقاتی ادارہ نہیں ہے۔کافی عرصہ سے دنیا کا ایک منفرد نباتات یعنی کوئٹہ پائن کو کینسر لگ گیا ہے اور یہ خوبصورت درخت تیزی کے ساتھ ناپید ہورہا ہے لیکن بلوچستان کا محکمہ جنگلات اس کی وجہ دریافت نہ کر سکا۔اللہ جانے یہ محکمہ کیوں قائم ہے اوراس کا کیا فنکشن ہے۔اسی طرح محکمہ زراعت کا بھی کوئی کردار نظر نہیں آتاہے۔فاصلہ ناپنے کے جو میل ہیں محکمہ کی جانب سے ان پرہر جگہ یہ لکھا نظر آتا ہے کہ اچھے بیج اور اچھی کھاد استعمال کریں۔خیر جودیگر محکمے ہیں ان کا بھی یہی حال ہے کیونکہ طویل عرصہ سے بلوچستان شدید قسم کے بیڈ گورننس کا شکار ہے۔آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔بیورو کریسی غیر فعال اور بے عملی کا شکارہے۔تباہ شدہ حالات نے اسے مزید بے عمل ہونے کا بہانہ فراہم کر دیا ہے۔پورے صوبے میں انتظامیہ ناکارہ اور غیرمستعد ہے۔انصاف ناپید ہے۔عوام مایوس اور لاتعلق ہیں۔شکرہے کہ ہمارے ایماندار ایم پی اے دن رات تندہی سے کام کر رہے ہیں اور عوام کی خدمت میں پیش پیش ہیں چونکہ کوئی پوچھنے والا اور جانچ کرنے والا نہیں ہے اس لئے جووہ کہتے ہیں اور جووہ اسکیمیں بناتے ہیں عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ من وعن اس پر یقین کرلیں۔دعویٰ تو میرٹ کا بہت ہوتا ہے لیکن معلوم نہیں کہ اس سے مراد کیا ہے جب کسی علاقہ کے نامساعد حالات ہوں تو وہاں انصاف اور میرٹ چہ معنی دارد،اگر عوام کو خوشحال کرنا مشکل ہے تو یہ بھی غنیمت ہے کہ ہمارے ایم پی اے اور وزراءصاحبان خوشحال ہو جائیں۔آخر ان کا تعلق بھی توبلوچستان سے ہے۔یہ کیا کم غنیمت ہے کہ وہ اسمبلی اجلاس میں آتے ہیں اور عوامی مسائل پر بحث کرتے ہیں۔بے شک وہ فرح عظیم شاہ کا مواخذہ کریں لیکن اپنے بارے میں چپ سادھ لیں سب کےلئے یہی اچھا ہے۔