سندھ کا ڈاکہ،ہربوئی میں خان کے گھر کی تباہی

تحریر: انور ساجدی

یہ پہلاموقع نہیں ہے کہ سندھ نے بلوچستان کے کسی مقام پر قبضہ کر کے اسے اپنی حدود میں شامل کیا ہے۔1970تک ضلع دادو میں واقع بلند مقام گورکھ کا بیشتر علاقہ بھی بلوچستان میں شامل تھا لیکن چند سال بعد اسے سندھ کا حصہ بنایا گیا۔درمیان میں ضلع حب کے علاقہ دریجی سے متصل پہاڑ بھی سندھ میں شامل کئے گئے۔دراصل اس علاقہ سے گیس اور تیل کے ذخائر ملے تھے ایک مرتبہ اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا گیا تھا لیکن اچانک یہ منصوبہ ترک کر کے کہا گیا کہ یہ علاقہ سندھ کا حصہ ہے۔تازہ واقعہ یہ ہے کہ تحصیل کرخ کا علاقہ ڈاڈھیارو کو حکومت سندھ کے محکمہ کلچر اور ٹورازم نے ضلع قمر اورشہداد کوٹ کا حصہ قرار دیا ہے۔اس واقعہ کا نوٹس سوشل میڈیا نے لیا ورنہ بلوچستان کی حکومت کو اس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ڈاڈھیاروکے پاس”کتے چی قبر“ واقع ہے۔شاید سندھ حکومت نے یہ سمجھا ہو کہ یہ نام سندھی میں ہے اس لئے اسے سندھ کا حصہ ہونا چاہیے اگر بلوچستان حکومت کو احساس ہوتووہ اس مسئلہ کو پہلے سندھ کے ساتھ اٹھائے اور اس کے بعد سندھ وبلوچستان کی باقاعدہ حد بندی کے لئے وفاق سے رجوع کرے چونکہ وفاق میں دونوں حکومتوں کا باس ایک ہی ہے۔اس لئے مسئلہ آسانی کے ساتھ حل ہوسکتا ہے۔
جہاں تک بلوچستان کی بندر بانٹ کا تعلق ہے تو یہ کافی پرانا مسئلہ ہے جو انگریزوں نے کیا۔وہ تو ماضی کا حصہ ہے لیکن فیلڈ مارشل ایوب خان نے تفتان سے متصل میر جاوا کا علاقہ بشمول پانچ ہزار میل کے ایران کو بطور تحفہ دیا حالانکہ ایوب خان کا جو آبائی ضلع ہے ہری پور اس کا رقبہ بھی اتنا بڑا نہیں تھا اس نے مال مفت یا اپنے باپ کا مال سمجھ کر اسے ایران کے حوالے کیا حالانکہ انگریزوں نے مغربی بلوچستان اورمشرقی بلوچستان کی سرحدیں اپنے دور میں متعین کی تھیں۔انگریزوں کے جانے کے بعد یہ حصہ پاکستان کوملا۔اس صورتحال میں اس امر کی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کیرتھر کی چوٹی گورکھ سندھ کا حصہ تھا یا اسے بھی زبردستی چھین کر شامل کیا گیا۔سندھ اور بلوچستان کی سرحدوں کے تعین کے لئے ایک باؤنڈری کمیشن کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسا مسئلہ پیدا نہ ہو۔1984 میں سندھ کی حکومت نے حب ندی پرقبضہ کیا تھا تاہم اس وقت ضیاءالحق کے سمدھی رحیم الدین خان بلوچستان کے گورنر تھے۔اس لئے انہوں نے اپنے اثرورسوخ سے یہ قیمتی اثاثہ واپس لے لیا ورنہ آج دریائے حب سندھ کا حصہ ہوتا۔سندھ میں آج کل تنگ نظری کی روایات زور پکڑ رہی ہیں۔گزشتہ ماہ کراچی میں جب صوبائی حکومت نے بلوچ خواتین کی ریلی پر تشدد کیا تھا تو ڈاکٹر صاحبہ نے کہا تھا کہ کراچی میں سب سے زیادہ بلوچ آباد ہیں اس پر سندھ کے جعلی قوم پرستوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا حالانکہ اے این پی کے لیڈر اسفند یار ولی نے کافی سال پہلے کہا تھا کہ پٹھانوں کا سب سے بڑا شہر کابل اور پشاور نہیں بلکہ کراچی ہے اس بات کا یہ مقصد نہیں کہ پٹھانوں نے کراچی پر قبضہ کا دعویٰ کیا ہے حالیہ تحریک کے دوران یہ ہوا ہے کہ جو سماٹ آباد ہیں اور جنہوں نے معاشرے میں اپنی تکریم بڑھانے کے لئے بلوچ قبائل کے نام اپنائے تھے وہ واپس اصل کی طرف لوٹ گئے ہیں اور وہ بلوچوں پر سخت تنقید کر رہے ہیں ان کی خواہش ہے کہ یہ سارے بلوچ خود کو صرف سندھی کہیں اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس پرکوئی پابندی نہیں ہے ہر ایک کی مرضی ہے کہ وہ کیا لقب یا نسل اختیار کرتا ہے۔جدید سندھی نیشنلزم کے بانی جی ایم سید اپنی رحلت تک اپنے نام کے ساتھ سید لکھتے رہے جبکہ شکارپور کے پٹھان آج بھی پٹھان یا درانی کا ٹائٹل اختیار کئے ہوئے ہیں۔کسی کو ان پر اعتراض نہیں ہے۔سندھیوں کا حالیہ ردعمل کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے اس کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا کیونکہ سندھی بھی ایک محکوم قوم ہے وہ وسائل سے مالامال ہے لیکن یہ وسائل سندھ پر خرچ ہونے کے بجائے دیگر علاقوں پر خرچ ہوتے ہیں۔دریائے سندھ کے پانی کا حساب کتاب بھی اس کے حق میں نہیں ہے جبکہ حال ہی میں زرداری حکومت نے 55 ہزار ایکڑ کا کارپوریٹ فارمنگ کے لئے دی ہے۔مزید زمینوں کی الاٹمنٹ بھی ہونے جا رہی ہے۔پانی پہلے ہی کم ہے۔ان زمینوں کو آباد کرنے کے لئے ریاست کا سب سے بڑا کارپوریٹ سیکٹر پانی بھی ضرور حاصل کرے گا۔جس کے بعد سندھ کے زمیندار اور خاص طور پر ہاری ایک نئی آزمائش سے دوچارہو جائیں گے۔سندھ کے شہروں کراچی اور حیدر آباد میں آبادی کا دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔گزشتہ چار عشروں میں دنیا بھر کے لوگ کراچی میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ حالانکہ ریاستی میڈیا رطب اللسان ہے کہ پنجاب تیزی کے ساتھ ترقی کررہا ہے اور لاہور پیرس سے زیادہ خوبصورت ہوگیا ہے لیکن پنجاب کے لوگ اپنے پیرس میں رہنے کے بجائے مستقل کراچی کا رخ کررہے ہیں۔
اگر پنجاب کی ترقی تیز ہے تو روزگار کے ذرائع بھی بڑھنے چاہئیں لیکن آبادی کی بڑے پیمانے پر کراچی آمد چغلی کھاتا ہے کہ پنجاب کی تیز فرتار ترقی کا دعویٰ جھوٹ ہے۔بے ہنگم آبادی کی وجہ سے کراچی دنیا کا سب سے بڑا سسلم یعنی کچی آبادی بن گیا ہے اس شہر کو سنبھالنے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔سندھ حکومت کی ترجیحات بھی ٹھیک نہیں ہیں۔کراچی کی بہتری اس کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔ملک کا60فیصد ٹیکس کراچی میں جمع ہوتا ہے لیکن وفاق ایک آنا بھی دینے کو تیار نہیں ہے۔سندھ حکومت کا رویہ عجیب ہے۔کراچی میں پیپلز پارٹی کی جڑیں مضبوط نہیں ہیں یہ صرف ان علاقوں میں پائی جاتی ہے جہاں بلوچ اور سندھی آبادی ہے لیکن ان علاقوں کی حالت قابل رحم ہے۔ایک لیاری اورملیر سنبھالا نہیں جاتا ملیر کے ساتھ تویہ ظلم ہوا ہے کہ وہاں کی زمینیں ظالم اور بے رحم بلڈر ملک ریاض کے حوالے کر دی گئی ہیں۔موصوف نے درجنوں یا سینکڑوں گوٹھ ملیا میٹ کر کے بحریہ ٹاؤن بنایا ہے جس کا رقبہ کراچی سے بڑا ہے۔یہ شہر مقامی لوگوں کے قبرستانوں اور اجداد کی میراث پر بسایا گیا ہے۔بحریہ ٹاؤن اتنا پھیل چکا ہے کہ یہ کراچی سے کافی دور دو مزید اضلاع اس کی حدود میں آگئے ہیں۔یہ سارے پیپلزپارٹی کے ووٹر ہیں لیکن سندھ حکومت نے اپنی آبادی اور ووٹروں کا کوئی خیال نہیں رکھا بلکہ بحریہ ٹاؤن کو ترجیح دی۔یہ بہت ہی گھاٹے کا سودا ہے جو جلد یا بدیر پیپلز پارٹی کے گلے کا طوق بن جائے گا۔
17سال سے برسراقتدار یہ جماعت سندھ کو ترقی دینے میں بری طرح ناکام ہے اگر اس نے اپنے موجودہ دور میں کراچی کو ٹھیک نہ کیا تو آئندہ انتخابات میں اس کے لئے مشکلات ہی مشکلات پیدا ہوں گی یا شاید پیپلزپارٹی کو یقین ہے کہ آئندہ انتخابات بھی فارم47 کی مرہون منت ہوں گے اس لئے ورکروںکی کوئی پرواہ نہیں۔اب بھی وقت ہے کہ پیپلزپارٹی ہوش کے ناخن لے اور اپنی پالیسیاں درست کرے ورنہ وہ کب تک ماضی کی قربانیوں کی بدولت سیاست کرے گی۔
ایک افسوسناک خبر یہ آئی ہے کہ قلات کے قریب کوہ ہربوئی میں واقع بلوچستان کے آخری خان میر احمد یار خان کا جو گھر تھا اسے بارودی مواد سے اڑا دیا گیا ہے۔پرنس موسیٰ جان کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اسے ڈرون کے ذریعے تباہ کیا گیا ہے۔ہربوئی کا یہ گھر جوکہ مقامی جونیپرکی لکڑی سے بنایا گیا تھا خان میر احمد یار خان کا گرمائی ہیڈ کوارٹر تھا۔وہ جون جولائی اور اگست میں یہاں آ کر وقت بتاتے تھے۔1948ءمیں جب پرنس عبدالکریم بلوچ ابتدائی مزاحمت کے بعد واپس آئے تووہ کوئٹہ اور قلات کے بجائے اس گھر میں جا کر رہے۔ جہاں سے انہیں گرفتار کیا گیا اور نام نہاد جرگہ کے ذریعے انہیں18 برس کی قید کی سزا سنائی گئی یہ مکان ایک علامت تھا اور خان قلات کی آخری نشانی بھی جن لوگوں نے اسے تباہ کیا ہے اسے قلات کی آخری نشانی سمجھ کر ایسا کیا ہے۔ہربوئی میں زیارت کے بعد سب سے زیادہ جونیپرکے درخت پائے جاتے تھے لیکن بوجوہ یہ جنگلات انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے شدید خطرات سے دوچار ہیں۔چند سال قبل وہاں پر گیس یا تیل کے ذخائر بھی ملے تھے۔اگر اس منصوبہ پر عمل کیا گیا تو یہ قدرتی ورثہ مکمل طورپر تباہ ہو جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں