پبلک اکانٹس کمیٹی اجلاس، محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کی آڈٹ میں بے ضابطگیوں کا انکشاف

کوئٹہ (آن لائن) پبلک اکانٹس کمیٹی کے اجلاس میں محکمہ جنگلات و جنگلی حیات کی آڈٹ میں بے ضابطگی پائی جاتی ہے پی اے سی کا جائزہ اجلاس میں محکمہ جنگلات و جنگلی حیات سے متعلق آڈٹ پیراز اور تخمینی کھاتوں پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔بجٹ سرنڈر اور فنڈز کی منسوخی تخمینی کھاتوں کے جائزے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ محکمہ جنگلات و جنگلی حیات نے خالی آسامیوں کی وجہ سے غیر ترقیاتی بجٹ کا 12.03% سرنڈر کر دیا۔ پی اے سی کے رکن زابد علی ریکی نے روزگار کے مواقع کی کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آسامیوں کو پر نہ کرنا ادارے کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ چیئرمین پی اے سی اصغر علی ترین نے کہا کہ مختص شدہ فنڈز کا سرنڈر یا ضائع ہونا ناقابل قبول ہے اور یہ غفلت کے مترادف ہے۔چیئرمین نے یقین دہانی کرائی کہ پی اے سی انتظامی مسائل کے حل میں محکمہ کی مدد کرے گی، تاہم اگر کسی افسر کو کسی کوتاہی کا ذمہ دار پایا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ مزید کہا گیا کہ کسی بھی افسر کی جانب سے غفلت برتنے پر اسے حکومت کو رپورٹ کر کے تبدیل کروایا جائے گا۔دس بلین درختوں کے ریکارڈ کی عدم فراہمی ایک اہم مسئلہ جو زیر بحث آیا، وہ 2019-20 کے مالی سال میں دس بلین درخت لگانے پر خرچ کیے گئے رقم کے ریکارڈ کی عدم فراہمی تھی۔ جنرل فنانشل رولز (GFR) اور آڈیٹر جنرل کے آرڈیننس کے مطابق محکمے آڈٹ کے لیے تمام ریکارڈ فراہم کرنے کے پابند ہیں، لیکن بار بار کی یاد دہانیوں کے باوجود کوئی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔کمیٹی نے ریکارڈ کے گم ہونے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ چیئرمین نے کہا، اگر سابقہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر (DFO) ریٹائر ہو چکے ہیں تو ان کے خلاف کارروائی ہوگی، اور موجودہ DFO کو بھی بغیر مکمل ریکارڈ لیے چارج سنبھالنے پر جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔پی اے سی نے محکمے کو فوری طور پر متعلقہ افسر سے رابطہ کر کے درختوں کی شجرکاری کے فوٹو گرافک ثبوت حاصل کرنے کی ہدایت دی۔ تاہم، کمیٹی نے فراہم کردہ شواہد کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور خبردار کیا کہ اگر ریکارڈ فراہم نہ کیا گیا تو ذمہ دار افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے۔ سست روی کا شکار منصوبہ 2,752.247 ملین روپے غیر استعمال شدہ پی اے سی نے بلین ٹری پروگرام کے سست روی سے جاری کام پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ یہ منصوبہ 2019-20 میں 2,968.889 ملین روپے کی مالی گنجائش کے ساتھ شروع کیا گیا تھا، لیکن اب تک صرف 216.642 ملین روپے (7.30%) خرچ کیے گئے، جبکہ 2,752.247 ملین روپے غیر استعمال شدہ رہ گئے۔محکمے نے فنڈز کی تاخیر سے ریلیز اور عملے کی کمی کو منصوبے کی سست پیش رفت کی وجوہات قرار دیا۔ چیئرمین نے محکمے کو فوری طور پر تفصیلی ریلیز اور اخراجات کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ کمیٹی نے آڈٹ پیرا کو ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ایک ہفتے کے اندر مکمل پیش رفت رپورٹ جمع کروائی جائے۔نگرانی اور جائزہ و پیشرفت کی کمی کمیٹی نے 165.688 ملین روپے کے اخراجات کے باوجود منصوبے کی مثر نگرانی اور جائزہ لینے میں ناکامی پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔ پی اے سی نے اس بات پر زور دیا کہ منصوبوں کی شفافیت اور جوابدہی یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ اور ایویلیوایشن ضروری ہیں۔چیئرمین نے کوئٹہ میں شجرکاری کا Physical Verification کروانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان کی ماحولیاتی ذمہ داریوں کی نگرانی کر رہی ہیں۔ انہوں نے آڈیٹر جنرل کے دفتر کو ہدایت کی کہ وہ پی اے سی کے ممبران کے ساتھ مل کر دو ہفتوں کے اندر اس منصوبے کی تصدیق کریں۔بے ضابطہ خریداری کے طریقے ٹینڈر کے بغیر ٹھیکوں کا اجرا کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ 9.985 ملین روپے بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (BPPRA) کے قواعد پر عمل کیے بغیر خرچ کیے گئے۔ چیئرمین نے رقوم کو چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے ٹینڈر کے ضابطے سے بچنے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے خریداری کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ غیر قانونی ایڈوانس ادائیگیاں پی اے سی نے انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے کام مکمل ہونے سے قبل دی گئی ایڈوانس ادائیگیوں کی بھی تحقیقات کی۔ ایک کیس میں گوادر میں دفتر کی عمارت کی تعمیر کے لیے 5.950 ملین روپے کی ادائیگی کی گئی، جو معاہدہ ملنے کے صرف آٹھ دنوں میں مکمل کر لی گئی۔ جو کہ ایک غیر حقیقی ٹائم لائن ہے۔ اسی طرح چلتن نیشنل پارک میں سیاحتی جھونپڑیوں کی تعمیر کے لیے 5.940 ملین روپے کی پیشگی ادائیگی کی گئی، لیکن کام اب تک مکمل نہیں ہوا۔کمیٹی نے مالی بے ضابطگیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ ان اخراجات کی تصدیق کے لیے تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کروائی کی جائے اور متعلقہ آفیسر کو ایک سال کیلئے OSD کیا جائے پی اے سی کی ہدایات اور آئندہ کے اقدامات اجلاس کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے چیئرمین پی اے سی نے خبردار کیا کہ اگر محکمہ جنگلات و جنگلی حیات تمام ریکارڈ فراہم کرنے اور اخراجات کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا تو معاملہ قومی احتساب بیورو (NAB) کو بھیجا جائے گا۔چیرمین پی اے سی نے کہا، اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں لیکن زمین پر کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آ رہی۔ ہر آڈٹ پیرا میں بھاری رقوم شامل ہیں، لیکن محکمہ کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں۔ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ ان معاملات کو مکمل حقائق جان کر سخت سے سخت فیصلے کرینگے۔ اور صوبے کے غریب عوام کا ایک ایک روپیہ کا حساب محکمہ کے ذمہ داران و محکمہ کے اعلی حکام سے وصول کر کے رہینگے۔ ہی ہمارے کمیٹی و اس کے ممبران کی پختہ عزم ہے۔ محکمہ پی اے سی کے ہر فیصلہ کا پابند ہوگا۔ پی اے سی نے محکمے کو تمام زیر التوا رپورٹس مقررہ مدت میں جمع کرانے کی ہدایت کی اور خبردار کیا کہ مالی بے ضابطگیوں اور انتظامی غفلت کے ذمہ دار افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔پبلک اکانٹس کمیٹی (PAC) کا اجلاس چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت کمیٹی روم میں منعقد ہوا، میٹنگ میں مختلف سرکاری آفیسرز نے شرکت کی جس میں ڈی۔جی آڈٹ شجاع علی، ڈپٹی اکائونٹنٹ جنرل بلوچستان حافظ نورالحق ،ایڈیشنل سیکرٹری پی اے سی سراج لہڑی، ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ جنگلات و جنگلی حیات عبداالحمید زیری ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ اسفندیار خان ، چیف اکائونٹس آفیسر سید محمد ادریس، ٹیکنیکل ایڈوائیزر سی اینڈ ڈبلیو مختیار احمد ، و دیگر شامل تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں