امریکہ اور پاکستان کی آہنی دیواریں

تحریر: انور ساجدی
ہمارے حکمرانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ سوال اور احتجاج مفقود ہو جائیں حالانکہ سوال انسان کا پہلا حق ہے جبکہ کسی بھی ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنا بنیادی حق ہے۔پیکا کا حالیہ قانون نے سوال کا حق چھین لیا ہے جبکہ احتجاج تو پہلے سے ممنوع تھا۔ذرا سوچیں کہ اگر کسی انسانی معاشرے سے سوال کا حق اٹھ جائے تو پھروہ معاشرہ کیا ہوگا؟ ویسے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے سقراط کو حکمرانوں نے زہر کا پیالہ اس لئے پلایا تھا کہ وہ نوجوانوں کو اکساتا تھا کہ وہ سوال پوچھیں غلطیوں کی نشاندہی کریں اور حکمرانوں پر تنقید کریں۔گویا پاکستانی حکمرانوں نے اپنے سماج کوکئی ہزار سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔وہ سوالوں سے گھبراتے ہیں اور خوفزدہ ہیں کہ ان کی خامیوں کی نشاندہی نہ ہو جائے۔ہزاروں سال پہلے تو میڈیا نہیں تھا لیکن زبانی ابلاغ موجود تھا۔اگر حکمران میڈیا کی زبان بندی کریں گے اور صحافیوں کو بیڑیاں پہنائیں گے تو کیا ہوا ابلاغ کے تیز ترین ذرائع تو موجود رہیں گے۔
ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ انہیں افسوس ہے کہ اسرائیل کا رقبہ بہت کم ہے اتنے کم رقبے کے باوجود اس نے جو کارنام انجام دئیے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔عجیب بات ہے کہ اسرائیل کا چھوٹا ہونے کے احساس کے باوجود موصوف کہہ رہے ہیں کہ اغزہ کی پٹی انہیں چاہیے۔اس نے یوکرین سے بھی کہا ہے کہ وہ اپنی قیمتی زمینیں امریکہ کو فروخت کر دے۔صدر بننے سے پہلے ہی انہوں نے گرین لینڈ کو خریدنے یا اس پر قبضہ کا عندیہ دیا تھا۔صدر بننے کے بعد انوہں نے پانامہ کینال پر قبضہ کے ارادے کا اظہار کیا تھا۔ساتھ میں وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ سے رقبہ میں بڑا کینیڈا بھی امریکہ کا صوبہ بن جائے۔ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے عظیم سپرپاور کے سربراہ باؤلا ہوگئے ہیں۔انہوں نے کرسی پر بیٹھتے ہی ساری دنیا سے جنگ چھیڑ دی ہے۔اسے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ امریکہ کا عروج دوبارہ کیسے حاصل کرے۔ٹرمپ کے مزاحیہ اعلانات سے ساری دنیا پریشان ہے لیکن اس کے پڑوسی ملک میکسیکو کی صدر کلاڈیا پرسکون ہیں ان پر ٹرمپ کی دھمکیوں سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ٹرمپ کے مقابلہ میں غریب میکسیکو کی صدر ایک پڑھی لکھی مدبر ہیں اور تاریخ اورجغرافیہ کی عالم ہیں۔انہوں نے ٹرمپ سے جوخطاب کیا ہے وہ قابل غور اور پڑھنے کے لائق ہے۔انہوں نے ٹرمپ کو یاد دلایا ہے کہ امریکہ کی جو آہنی دیوار ہے اس سے باہر جو سات ارب انسان بستے ہیں وہ امریکہ کے خلاف ایسی جوابی کارروائی کرسکتے ہیں کہ امریکہ یکہ و تنہا رہ جائے گا۔معلوم نہیں کہ ٹرمپ کو دنیا بھر کی زمینیں ہڑپ کرنے کا شوق کیوں پیدا ہوا ہے شکرکریں کہ فی الحال وہ غزہ پر قبضہ کے خواہش مند ہیں اگر کل ایران کو سبق سکھانے کے لئے انہوں نے مطالبہ کر دیا کہ ایران اپنے حصے کا بلوچستان اس کے حوالے کرے تو پھر کیا ہوگا۔غزہ تو45کلومیٹر کا علاقہ ہے جبکہ ایرانی بلوچستان تو غزہ سے سو گنا بڑا ہے۔گبد سے لے کر بندرعباس تک کا علاقہ اگر ٹرمپ کے قبضے میں آ جائے تو وہ خلیج کے حقیقی بادشاہ ہو جائیں گے اور پورا مشرق وسطیٰ ان کی مٹھی میں آ جائے گا لیکن میکسیکو کی صدر نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر جغرافیہ سے نابلد ہیں اگر وہ اس کے عالم ہوتے تو انہیں اور کوئی چیز مانگنے کی ضرورت نہ پڑتی۔میکسیکوکی صدر نےصدر ٹرمپ کی حالیہ پابندیوں اور اپنے ہمسایہ میکسیکو کی سرحد کودیوار لگا کربند کرنے کے عمل پر ایک شاندار خطاب کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کی دیوار سے باہر7ارب انسان رہتے ہیں اگر انہوں نے آپ کا بائیکاٹ کر دیا تو ایک دن آپ روئیں گے۔منت ترلے کریں گے اور التجا کریں گے کہ اس دیوار کوگرایا جائے کیونکہ جو سماجی ارتقاءاور انسانی ذہانت ہے اسے آہنی دیوار بنا کر قید نہیں کیا جا سکتا۔ہمارے حکمران لاکھ پہرے لگائیں اور ہزار تعزیریں لاگو کریں لیکن سچ کو ختم نہیں کرسکتے۔البتہ حقائق کو ضرور چھپا سکتے ہیں لیکن زیادہ دیر تک نہیں ۔اس وقت تک جب تک انہیں زوال نہیں ہوتا۔
برسوں پہلے1958ءکو جب ایوب خان نے مارشل لاءلگاکر پاکستان کے اردگرد ایک آہنی دیوار تعمیرکی تھی انہوں نے حقائق چھپانے اور سوال کرنے کا حق سلب کرنے کی خاطر پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس جاری کیا تھا۔اس زمانے میں سیٹلائٹکمیونی کیشن نہیں تھا۔انٹرنیٹ وجود نہیں رکھتا تھا۔ترقی یافتہ ممالک میں ٹی وی نیا نیا آیا تھا۔جبکہ پاکستان میں ٹی وی بھی نہیں آیا تھا صرف ریڈیو پر گزارا تھا۔ایوب خان نے سیاست اور صحافت کو زنجیریں پہنائی تھیں باقی دنیا میں مارشل لاءایڈمنسٹریٹر ہوتے تھے لیکن ایوب خان نے اپنے آپ کو فیلڈ مارشل قرار دیا تھا تاکہ وہ کبھی ریٹائر نہ ہوں انہوں نے آزاد اخبارات پر قبضہ کر کے انہیں سرکاری تحویل میں لیا تھا جو چند ایک نام نہاد اخبارات تھے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان کی مداح سرائی کے علاوہ اور کوئی مواد شائع نہ کریں۔انہوں نے اپنی فوجی بغاوت کو انقلاب کا نام دیا تھا یہ انقلاب1965کی جنگ کے بعد لڑکھڑایا تھا اور دسویں سال وہ تخت و تاج سے دور جا گرے تھے کیونکہ عوام ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔اسی طرح ایوب خان کے جانشین یحییٰ خان نے اقتدار کی طوالت کی خاطر ملک دولخت کر دیا لیکن سنسرشپ لگاکر اس کی خبررکوا دی۔ان کے بعد ایک اور گھبرو آمر ضیاءالحق آئے انہوں نے تو کافی عرصہ تک باقاعدہ سنسرشپ نافذ کئے رکھی غالباً1983-1984میں انڈیا نے سیاچن گلیشئر پر قبضہ کر لیا لیکن یہ خبر نشر اور شائع ہونے نہیں دی گئی لیکن سیاچن توواپس نہیں آیا1998میں مشرف نے جنگ چھیڑکر کارگل گنوا دیا لیکن اس کی خبر چھپا دی لیکن حقیقت کیا ہے آج بھی سیاچن اور کارگل دشمن کے قبضے میں ہیں اور ہم صرف ترانے اور نعرے لگا رہے ہیں۔جب ریاست میں سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا تو حکمران خوفزدہ ہوگئے کیونکہانسانی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ ہر شخص کو سوال کرنے کا حق اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے مل گیا تھا اوروہ حکمرانوں پر تنقید یا سوال پوچھنے کے لئے روایتی میڈیاکے محتاج نہ تھے گوکہ ابتداءمیں ایک سونامی آئی لوگ بھی اس ڈیجیٹل انقلاب کو برداشت نہ کرسکے۔اسے الزام تراشی کا ذریعہ بھی بنایا لیکن حکمران زیادہ گھبرا گئے۔انہوںنے ڈیجیٹل انقلاب کو ففتھ جنریشن جنگ کا نام دیا اور اسے دشمن کے پروپیگنڈا کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا لیکن سوشل میڈیا تودہری تلوارہے اسے آپ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔مخالف عناصر کی درگت بھی بنا سکتے ہیں اورکوئی درمیانی راستہ بھی نکال سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ہرسطح پر انتہاپسندی ہے۔یہاں برداشت کا فقدان ہے۔توقیر اور تکریم وجود نہیںرکھتی۔یہاں پر اپنی آمریت ہے۔فسطائیت کا عنصرزیادہ ہے اور ملائیت کا غلبہ ہے۔اس لئے سوشل میڈیا کوبرداشت کرنے کا حوصلہ نہیں۔اس لئے اس کا یہی حل نکالا گیا کہ جو لوگ اسے استعمال کریں گے انہیں قابل گردن زدنی قرار دیا جائے۔مثال کے طورپر نئے قانون میں لکھا ہے کہ اسلام مسلح افواج،جج صاحبان اور پارلیمنٹ کے ممبران کے خلاف بات کرنا جرم ہوگا۔میڈیا پرسن کو کیا معلوم کہ کون سا نکتہ ان کے لئے پھانسی کا پھندا بن جائے گا۔حکومت جب چاہے کسی بھی تحریرپرفردجرم عائد کر سکتی ہے۔قانون میں سزا ہے لیکن فوری اپیل کا حق نہیں ہے اس قانون کے بجائے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ روس چین شمالی کوریا سعودی عرب مصر اور ایران کی تقلید کریں اور فیس بک،ایکس، یوٹیوب کے بجائے ان کے متبادل مقامی ایپس تیار کے تاکہ لوگ انہیں استعمال کر کے گزارہ کریں۔اب ہوگا کیا؟آئندہ کچھ عرصہ میں میڈیا پرسنز یا سوشل میڈیا استعمال کرنے والے لوگوں پر اتنے مقدمات قائم ہوں گے کہ سماعت کرنے والے ٹریبونل کم پڑ جائیں گے۔سماعت کی نوبت نہیں آئے گی اور ہزاروں لوگ شنوائی کے بغیر جیلوں اور قید خانوں کی زینت بنے رہیں گے۔پاکستانی حکام بالا کا خیال ہے کہ وہ جو آہنی دیوار بنا رہے ہیں وہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے گی اور پاکستان دنیا سے کٹ کرا لگ تھلگ جزیرہ بن جائے گا اور اس کی کوئی خبر باہر نہیں جا سکے گی لیکن ایسا ہوگا نہیں بلکہ گھٹن زیادہ بڑھے گی اور ایک دن پریشر ککر زور سے پھٹ جائے گا اور حکمرانوں کو راستہ دکھائی نہیں دے گا کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں دیر سے ہی لیکن بالآخر یہ قانون باقی نہیں رہے گا۔یہ حکومت نہ سہی کوئی اور حکومت آ کر اس کا خاتمہ کرے گی لیکن ظلم کے ضابطے زیادہ دیرتک جاری نہیں رہیں گے۔
نئے قانون کے نفاذ کے بعد اخبارات کے پاس مدح سرائی اور خوشامدی مواد کے سواکچھ نہ ہوگا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے صفحات پر دنیا بھرکی خبریں شائع کریں لیکن پاکستان کا ذکر نہ کریں۔پہلے صفحات پر حکمرانوں کے دلنشین اور ولولہ انگیز سبزباغوں کو زینت بنائیں کوشش کی جائے کہ صدر وزیراعظم اور وزراءکے بعد عطاءاللہ تارڑ مریم اورنگزیب شرجیل میمن فرح عظیم شاہ اور مینا مجید صاحبہ کے خیالات عالیہ کو نمایاں طورپر کوریج دیں اس وقت مواد کی زیادتی کی وجہ سے ان ہستیوں کو میڈیا پر جگہ کم مل رہی ہے۔سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اچھے ڈیزائن اور گرافک بنا کر بڈھے وزراءاور خاص طورپر خواتین عہدیداروں کی نوخیز تصاویر بنوائیں اور اپنی اپنی سائٹس پر ڈال دیں تاکہ ان کے پیج زیادہ رنگین اورخوبصورت نظر آئیں۔اگر حکومت ان کی حوصلہ افزائی کرے اور کچھ فنڈ بھی عنایت کر دے تو سوشل میڈیا کو خودبخود اس کی گودمیں آکر گر سکتی ہے۔اگرمخالفانہ سیاست کاذکر نہ ہو اور حکمرانوں پر تنقید کا راستہ بند کیا جائے تو کونسی قیامت آ جائے گی بلکہ خامیوں کی نشاندہی کے بجائے یہ لکھا جائے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو گئی ہیں باقی جگہوں پر تو کچھ آمیزش ہے لیکن پنجاب کی نہروں میں خالص دودھ اور خالص شہد بہہ رہا ہے۔لکھا جائے کہ آج کل جوہمارے حکمران ہیں ایسے حکمران اس سے پہلے کبھی نہیں آئے۔ایسے حکمرانوں کا آنا عوام کی خوش بختی ہے۔اگر اپوزیشن کے سیاست دان ہاتھ پرہاتھ دھرے رکھ کر موجیںاڑاتے ہیں تو میڈیا والوں کو کیا تکلیف ہے۔وہ تحریک چلائیں اور آمرانہ قوانین کوچیلنج کریں اس سلسلے میں حضرت مولانا کے قول و فعل سے اچھی خاصی رہنمائی حاصل ہوسکتی ہے۔
تحریک انصاف کے لیڈروں کی گفتار اور ردعمل سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔جو صحافی پاگل ہیں اور باز نہیں آتے انہیں چاہیے کہ وہ عمران ریاض،ڈاکٹر معید پیرزادہ اور احمد نورانی کی طرح کافروں کے ملکوں میں چلے جائیں۔خالص اسلامی معاشرےق میں کافر ذہن لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔اگر مرشد حسین نقی90 سال کے نہ ہوتے یا ناصر زیدی اور خاورہاشمی ضیاءالحق کے کوڑوں کیوجہ سے ضعیفی کا شکار نہ ہوتے تو وہ ضرور تحریک چلاتے لیکن یہ لوگ نہ تو کافروں کے دیس میں جانے کے قابل ہیں اور نہ ہی ملک کے اندر کچھ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ ان کا ساتھ دینے والے بہت کم ہیں۔