حکومت پاکستان کے بے دخلی کے فیصلے نے افغان باشندوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اقوام متحدہ

ویب ڈیسک : پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے سربراہ نے افغان شہریت کارڈ (اے سی سی ) رکھنے والے افغان باشندوں کے پاکستان چھوڑنے کی آخری تاریخ قریب آنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس فیصلے نے افغان برادری کو ’ ہلا کر رکھ دیا ’ ہے۔پاکستانی حکومت کے تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کے منصوبے کے تحت 31 مارچ افغان شہریت کارڈ رکھنے والوں کے لیے رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کی آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی، وزارت داخلہ کی جانب سے دوبارہ خبردار کیا گیا تھا کہ اس کے بعد بڑے پیمانے پر ملک بدری شروع کی جائے گی۔عید الفطر کے پیغام میں، پاکستان کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی ٓآر) کی نمائندہ فلپپا کینڈلر نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کیونکہ پاکستانی حکام نے آخری تاریخ میں کسی بھی تبدیلی کا امکان مسترد کر دیا ہے۔فلپپا کینڈلر نے اپنے پیغام میں، جس کا عنوان تھا ’رحم کی پکار: پاکستان میں افغان مہاجرین اور امید کی راہ‘، کہا کہ پاکستان میں 1.52 ملین رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور پناہ گزین، تقریباً 800,000 افغان شہریت کے حامل افراد رہ رہے ہیں اس کے علاوہ بڑی تعداد ایسی ہے جو ملک میں سرکاری شناخت کے بغیر رہ رہے ہیں۔فلپپا کینڈلر نے نے مزید کہا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتے ایک افغان خاندان سے ملاقات کی تھی جس نے 2022 میں افغانستان سے عجلت میں فرار ہونے کے بعد یہاں پناہ لی تھی، اور امن اور سلامتی کی تلاش میں اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ آئے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر دل ٹوٹ گیا کہ وہ واپس جانے پر کتنا خوفزدہ تھے۔ ان کی امیدیں اور خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔کینڈلر نے مزید کہا کہ پاکستان میں داخل ہونے والے افغان افرادی قوت کا حصہ تھے، انہوں نے کاروبار شروع کیے اور ملکی معیشت میں میں اپنا حصہ ڈالا۔انہوں نے لکھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ، افغان مہاجرین پاکستانی معاشرے میں رچ بس گئے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اپنے تعاون کے باوجود، افغانوں کو اکثر امتیازی سلوک، رسمی ملازمت تک محدود رسائی، اور قانونی حقوق کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی زندگیوں کو غیر محفوظ بناتا ہے اور بہت سے لوگوں کو معاشرے کے کنارے پر دھکیل دیتا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی نمائندہ نے کہا کہ حکومت کی تازہ ترین ہدایات بہت سی برادریوں کے تانے بانے میں ایک اہم خلل کو ظاہر کرتی ہیں۔فلپا کینڈلر نے کہا کہ ان برادریوں سے بے دخلی جنہوں نے ان کا خیرمقدم کیا ہے اور افغانستان کو ممکنہ جبری واپسی، جبکہ وہاں اپنی زندگیوں کو ازسرنو شروع کرنے کے لیے بہت کم مواقع ہوں گے، کے پیش نظر اس بات کا امکان نہیں وہ دوبارہ اس معاشے کا حصہ بن سکیں۔دریں اثنا، خیبر ضلع کے حکام کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی وطن واپسی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے لنڈی کوتل اور پشاور میں عارضی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ننگرہار حکومت کے ترجمان قریشی بدلون نے ڈان نیوز کو بتایا کہ افغانستان میں بھی، طالبان حکام نے طورخم میں مہاجرین کے استقبال کے لیے انتظامات کیے ہیں، ۔افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے گزشتہ ہفتے کابل میں افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے محمد صادق کے ساتھ ایک ملاقات میں پاکستان سے کہا تھا کہ وہ افغان شہریت کارڈ رکھنے والوں کو مزید وقت دے کیونکہ اتنے زیادہ لوگوں کی وطن واپسی ان کی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔اپنے پیغام میں، کینڈلر نے کہا کہ صورتحال ایک کثیر الجہتی نقطہ نظر کا تقاضا کرتی ہے۔انہوں نے لکھا کہ اولاً، پاکستان اور افغانستان کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افغان مہاجرین رضاکارانہ طور پر اور محفوظ طریقے سے اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔ جبری واپسی کسی کے لیے بھی فائدہ مند نہیں ہے، اور نہ ہی پائیدار ہےکیونکہ 2023 میں بے دخل کیے گئے بہت سے لوگ دوبارہ پاکستان میں ہیں۔فلپا کینڈلر نے لکھا، کہ پائیدار واپسی کا مطلب افغانستان میں ایک پرامن اور محفوظ ماحول پیدا کرنا ہے، تاکہ واپسی پر مہاجرین کو ظلم و ستم یا امتیازی سلوک کا خوف نہ ہو۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی نمائندہ نے نشاندہی کی کہ بہت سے افغان دوسرے ممالک چلے گئے ہیں، جبکہ ہزاروں اب بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یو این ایچ سی آر ان کی جلد روانگی کا مطالبہ کر رہا ہے، جس کا مطلب مہاجرین کے لیے ایک پائیدار حل اور استحکام ہے۔کینڈلر نے افغان مہاجرین کی جانب سے پاکستان کی دیرینہ مہمان نوازی کی تعریف کی لیکن تسلیم کیا کہ پاکستان ہمیشہ کے لیے یہ ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان، اور خود افغانیوں کی فوری اور طویل مدتی دونوں طرح کی ضروریات کو پور اکرنے کی خاطر ایک جامع لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے ہم سب ( افغانستان، پاکستان، اور بین الاقوامی برادری ) مل کر کام کریں۔