جائیں توجائیں کہاں

تحریر : انور ساجد۔۔
جو زمینی حقائق ہیں ان کے مطابق پاکستان کے کچھ علاقوں میں آزادانہ نقل و حمل مشکل ہوگیا ہے،فریڈم آف پریس، خاص طورپر پرنٹ میڈیا کو جان بوجھ کر قتل کرنے کے اقدامات، سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی پر پابندیاں اتنی بڑھ چکی ہیںکہ سماج ایک طرح سے محصورہو کررہ گیا ہے۔مرکزی سرکار اور اس کی پنجاب حکومت ایک طرف مخصوص کارپوریٹ اردواخبارات کو اپنے ساتھ ملا کر نوازشوں کی برسات کررہی ہے تو ملک کے واحد معتبر روزنامہ”ڈان“ کے اشتہارات پرپابندی عائد کر دی گئی ہے حالانکہ ڈان کی پالیسی متوازن ہے اور وہ حکومتی خبروں کو بھی نمایاں طورپر شائع کرتاہے۔معلوم نہیں کہ اصل میں حکومت یا اس کے اداروں کو ڈان سے کیا شکایات ہیں جو ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس کو مارنے کی کوشش کررہے ہیں۔صورتحال یہ ہے کہ اخبارات اپنی افادیت کھو چکے ہیں کیونکہ وہ آزادانہ خبریں اور تبصرے شائع کرنے سے قاصرہیں جو ٹی وی چینل ہیں انہیں”آختہ“ کر کے ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔اب توغیر جانبدار مبصرین کو بھی پروگراموں سے دوررکھا جا رہا ہے۔واحد میڈیم سوشل میڈیا رہ گیا ہے جس پر فیک نیوز تیزی کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے جبکہ مخالفین کی ایسی ٹرولنگ کی جاتی ہے کہ الامان والحفیظ،ایک مخصوص لابی کی جانب سے نوازشریف کی دختر اور پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز کی ایسی کردارکشی کی جا رہی ہے کہ جس کی مثال اس سے پہلے موجود نہیں۔مریم نواز ایک معزز خاتون ہیں اور ان کی تکریم اور تقدیس کا پاس رکھنا چاہیے لیکن جو کچھ ان کے ساتھ ہورہا ہے وہ ایک طرح سے مکافات عمل بھی ہے۔1990 کے عام انتخابات کے موقع پرمسلم لیگ ن نے محترمہ بے نظیر بھٹوکی قابل اعتراض جعلی تصاویرپر مشتمل پوسٹر اورپمفلٹ چھاپ کرتقسیم کئے تھے نہ صرف یہ بلکہ ان کی بزرگ والدہ بیگم نصرت بھٹو کی کردارکشی بھی کی گئی تھی۔بھٹوخواتین کی جعلی تصاویر راولپنڈی کے”بڈھے کھوسٹ“ شیخ رشید نے اپنی نگرانی میں شائع کروائی تھیں اور پنجاب کی گلیوں میں تقسیم کی تھیں۔نوازشریف نے جب وہ اپوزیشن لیڈر تھے بے نظیر کے خلاف بے شمار ناگوار اقدامات کئے تھے۔مثال کے طور پر راولپنڈی کے شیدا ٹلی کے ذمہ لگایا گیا تھا کہ جونہی بے نظیر اسمبلی میں آئیں تو آپ گالم گلوچ اور نعرہ بازی شروع کردیں چنانچہ وہ ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جو لکھنے کے قابل نہیں ہیں۔وہ پنکی پنکی کی آوازیں نکالتے تھے۔اسی بناءپر رانا ثناءاللہ نے بہاولپور جیل میں شیخ رشید کے ساتھ جوسلوک کیا وہ انسانیت کے دائرے سے باہر ہے۔یہ جو پرنٹ میڈیا ہے اس کا قبلہ بھی کبھی درست نہیں ہوا یہ ہمیشہ طاقتور لوگوں کے ساتھ رہا ہے اور مراعات اور بخششیں بٹورتا رہا ہے۔جب ایوب خان نے مارشل لاءلگایا تو قہرآلود پابندیاں لگائیں۔انہوں نے مری کے گورنمنٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس بلائی تھی وہاں پرسوال پوچھنے پر ایک میڈیا ہاؤس کے مالک کو سرعام تھپڑ رسید کیا تھا اوراس کے لئے ایک غیرشائستہ لفظ استعمال کیا تھا۔اس زمانے میں گنتی کے چند اخبارات ہوتے تھے اس کے باوجود انہوں نے میاں افتخار الدین کے پروگریسو پیپرز لمیٹڈ یعنی پی پی ایل کے اخبارات پر قبضہ کر لیا اور نیشنل پریس ٹرسٹ بنا کر ان اخبارات کو اس کی ملکیت میں دے دیا گیا۔اس زمانے میں پاکستان ٹائمز انگریزی کا سب سے بڑا اور امروز واحد آزاد اردو اخبار تھا جبکہ ہفت روزہ لیل و نہار بڑے شوق سے پڑھا جاتا تھا۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایوب خان نے چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہور الٰہی جو کہ نہ صرف قوم کے جٹ تھے بلکہ صفا ان پڑھ تھے نیشنل پریس ٹرسٹ کا سربراہ بنایا۔ایوب خان کے زوال کے بعد یحییٰ خان آئے انہوں نے دو اہم اقدامات کئے۔ بریگیڈئیر اے آر صدیقی کو آئی ایس پی آر اور جماعت اسلامی کے نوابزادہ شیر علی خان آف پٹودی کو وزیر اطلاعات مقرر کر دیا۔ان کے دور میں عبدالخالق خان کے بڑے بھائی روئیداد خان سیکریٹری اطلاعات مقرر کئے گئے۔ان لوگوں نے مزید پابندیاں لگا کر 3سو نامی گرامی اور بعض غیر معروف صحافیوں پر کمیونسٹ ہونے کا الزام لگا کر انہیں برطرف کر دیا۔
یہی ٹولہ تھا کہ اس نے16 دسمبر1971ءکوسقوط ڈھاکہ کی خبرشائع نہیں ہونے دی ۔1971میں اقتدارمیں آکر بھٹو نے پہلے کچھ بہتری کی لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے دائمی سنسرشپ نافذ کر دی۔اس زمانے میں اپوزیشنکی خبروں کو جگہ نہیں ملتی تھی۔بھٹو کے بعد ضیاءالحق کا دور باقاعدہ سنسرشپ اور مکمل فاشزم کا دور تھا۔البتہ1988ءمیں محترمہ نے آ کر پیکا جیسا قانون پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس ختم کردیا۔خیر یہ تو پرانے دور کی باتیں ہیں وہ زمانے گزرگئے ہیں اب دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں۔یہ آرٹیفشل انٹیلی جنس کا دور ہے جو ٹیک کمپنیاں ہیں ان کے ایجاد کردہ ایپس پر روئے زمین کی ہراطلاع موجود ہے جبکہ ان کے پلیٹ فارم پرہرشخص اپنے خیالات کا اظہارکرسکتا ہے۔جب امریکی کمپنیوں نے یہ ایپس بنائی تھیں تو چین اور روس خوفزدہ ہوگئے تھے اس لئے انہوں نے امریکی ایپس پر پابندی لگا کر اپنے متبادل ایپس ایجاد کی تھیں کیونکہ ان کو جمہوریت اور آزادی اظہارسے خطرہ تھا۔
چین نے جب اپنی ایپس ایجاد نہیں کی تھیں تو سنکیانگ سے اوغور مسلمانوں کی ایسی تصاویر وائرل ہوئی تھیں کہ ہلاکو خان کی روح بھی تڑپ اٹھی ہوگی۔فی زمانہ روس چین شمالی کوریا ایران اور سعودی عرب ایسے ممالک ہیں جہاں سوشل میڈیا کے آزادانہ استعمال پر پابندی ہے۔غالباً غالباً پیکا ایکٹ کے بعد ہمارے حکمران بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ سوشل میڈیا پر کس طرح کنٹرول کیا جائے اگرچہ پیکا کے تحت مقدمات کا اندراج اور کچھ کارروائیاں ہوئی ہیں لیکن پھربھی سوشل میڈیا قابو میں نہیں آ رہا ہے۔البتہ جو شریف لوگ ہیں وہ خوفزدہ ہیں ان کے مندرجات پر کب کوئی کارروائی ہو اوروہ جیل جائیں لیکن تحریک انصاف کے جیالے ہرخوف سے بالاترہیں۔انہوں نے ٹرولنگ کی ہرحد پار کرلی ہے۔ان کے جو سوشل میڈیا کے جتھے ہیں انہوں نے حکمرانوں کی ناک میں دم کررکھا ہے۔اس لئے حکومت بہت پریشان ہے اور وہ سوچ رہی ہے کہ کیسے کیا جائے کہ یہ پروپیگنڈا فیک نیوز کا پھیلاؤ اور ٹرولنگ بند ہو جائے اسی دوران حکمران جو جعلی اعلانات کررہے ہیں اور عوام کوسبز باغ دکھا رہے ہیں مخالفین بھی انہیں فیک نیوز قرار دے رہے ہیںکیونکہ یہ عوام کے ساتھ دھوکہ دہی ہے۔جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تووہاں پر سوشل میڈیا کا استعمال محدود ہے اوریہ شائستگی کے دائرے کے اندرہے۔خیالات اور جذبات کا اظہارتو اپنی جگہ لیکن اس صوبہ کے لوگ بہت مہذب ہیں اور وہ پنجاب کی طرح بڑھک بازی اور ذاتی الزام تراشی سے گریز کررہے ہیں۔پنجاب اور پختونخوا کے سوشل میڈیاتقریباً مادر پدر آزاد ہیںجوکہ اچھی بات نہیں ہے۔بلوچستان کا پرنٹ میڈیا جان بلب ہے اور یہاں پر صحافت کے ایک دو چوہدریوں کے سوا باقی تباہ کن صورتحال سے دو چارہیں۔ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ جب پابندیاں ناقابل یقین حد تک نافذالعمل ہوں تو میڈیا والے لوگ کیا کریں۔کون سا راستہ اختیارکریں اورا پنے آپ کو کس طرح زندہ رکھیں۔پہلے لوگ یورپ کا رخ کرتے تھے اورامریکہ جاتے تھے لیکن اب جناب ٹرمپ نے غلط پروپیگنڈا کرنے والے میڈیا کے لوگوں کی گرفتاری کا اعلان کیا ہے ۔اگر کل کلاں ایلون مسک انسانوں کو مریخ پر لے جاتے ہیں تووہاں پر آزاد میڈیا قائم ہو سکتا ہے۔اس وقت صرف تائیوان واحد ملک ہے جو دیگر دنیا اورپڑوسیوں کے اثرات سے آزاد ہے لیکن وہاں کون جا سکتا ہے؟۔
موجودہ عہد میں میڈیا تو اپنی جگہ عام لوگ ایسے درماندگی اور راندہ درگاہ زندگی گزار رہے ہیں کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ نہیں جا سکتے اگر گئے تو ان کے ساتھ کوئی بھی حادثہ واقعہ اور المیہ ہوسکتا ہے۔
سیاست جس کا نام ہے وہ اس ریاست سے رخصت ہو چکی ہے۔صحافت سرنگوں ہوگئی ہے۔آزادی اظہار گزشتہ ادوارکا خواب لگتا ہے۔ان پابندیوں کیوجہ سے جو نیا بندوبست یا متبادل لوگ سامنے آ رہے ہیں وہ کسی کی بات نہیں سنتے۔یہی وجہ ہے اچانک بے شمار لوگ غیر اہم اور غیر متعلقہ ہوگئے ہیں۔پرانی نسل گوشہ نشین ہو گئی ہے۔جو نیا ”فنامنا“ پیدا ہوا ہے اس کے گمبھیر نتائج برآمد ہوں گے۔میں کبھی کبھار جب بلاوجہ سوچتا ہوں تو مجھے کئی چہرے یاد آتے ہیں حالانکہ ان لوگوں سے میرا کوئی خاص تعلق یا گہرے تعلقات نہیں رہے ہیں ان میں عبدالحکیم لہڑی، واجہ اسلم بلیدی، سعید فیض اور میر بیزن بزنجو بطور خاص شامل ہیں۔یہ لوگ حالات کی ستم ظریفی کا شکارہوکر نہ جانے کہاں چلے گئے۔کبھی کبھار سوشل میڈیا پر ان کے شذرے دیکھنے کو مل جاتے ہیں البتہ میراسلم بلیدی زیادہ متحرک ہیں ۔کوئی یقین کرے یا نہ کرے لیکن جوکچھ آج ہورہا ہے کم از کم سیاست میں وہ ہمیں چالیس سال پہلے ایک مہربان بزرگ اپنی پیشنگوئی کے ذریعے بتا گئے تھے ان کا نام تھا میر محمد بلیدی۔میں ایس آرپونیگر اور میر صاحب جب بھی محفل جماتے تھے تووہ بولتے تھے کہ چالیس سال بعد یہ دنیا بدل جائے گی۔سیاست بدل جائے گی اور ایسی تبدیلیاں آئیں گی جو آپ لوگوں نے سوچا نہیں ہوگا۔حالانکہ پونیگرصاحب چیف سیکریٹری تھے میں صحافی تھا اور میر محمد دنیاوی تعلیم سے بھی آراستہ نہیں تھے انہیں اردو زبان پر بھی عبورحاصل نہیں تھا لیکن صلاحیتیں اتنی تھیں کہ جب حسین شہید سہروردی پاکستان کے وزیراعظم تھے تووہ ان کے سینئر نائب صدر تھے یعنی نمبردو۔میر صا حب کہتے تھے کہ یہ جوتم لوگ صحافت کر رہے ہو یہ نہیں رہے گی۔جام غلام قادر ہمیشہ نہیں رہے گا۔نواب سردار بھی نہیں رہیں گے ۔اس وقت تو ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا کرتے تھے لیکن آج اتنی مدت گزرجانے کے بعد ان کی باتوں کو یاد کر کے حیرت ہوتی ہے۔
میر محمد سے ہم حل پوچھتے تھے تو کہتے تھے کہ ہم سے زیادہ اچھے لوگ آئیں گے وہ ہم سے زیادہ اچھا کام کریں گے۔ناانصافیوں کو تسلیم نہیں کریں گے اور تبدیلی لےکر آئیں گے۔وہ اس زمانے میں کہتے تھے کہ یہ جو نیب کے لوگ ہیں یہ لکیر کے فقیرہیں۔ان کا یہ بھی مقولہ تھا کہ سید اور سردار بنیادی طورپر کچھ دیتے نہیں مانگ کر یا چھین کر کھاتے ہیں ان سے دوررہنا چاہیے۔