راگ درباری اور ستائشی شیلڈ
تحریر: انور ساجدی
پاکستان کی دو نمبر جعلی اشرافیہ کی کشمکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے، این ایف سی ایوارد میں صوبوں کا حصہ کم کرنے کے لئے نئے صوبوں کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے۔ تحریک انصاف پر ہاتھ سخت کردیا گیا ہے تاکہ ن لیگ کے لئے مزید آسانیاں پیدا ہوں ۔ حیرت کی بات ہے کہ عوام میں ابھی تک تحریک کا زور ٹوٹا نہیں ہے حالانکہ ساری قیادت دبڑدوس ہوئی ہے، تحریک کا زور توڑنے کے لئے مزید سزائیں ہوں گی۔ اگر عمران خان جھکے نہیں تو سرسری ٹرائل ہوگا۔ وہ پہلے 14 سالہ سزا بھگت رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ نئے ٹرائل میں اس سے بھی بڑی سزا دی جائے۔ عمران خان کو سہیل وڑائچ کے کالم کے ذریعے ڈرایا گیا تھا لیکن یہ کالم الٹا گلے پڑ گیا۔ اگرچہ میر شکیل کا نام ارب پتی سیٹھوں کی فہرست میں شامل ہے لیکن کوئی بھی میڈیا مالک اشرافیہ میں شامل نہیں کیونکہ جو مراثی چاپلوسی کے بڑے بڑے مراحل طے کرکے جعلی اشرافیہ میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ میڈیا پرسنز کو اپنا برابر درجہ دینے کو تیار نہیں بلکہ انہیں تو مراثی سمجھتے ہیں۔ 12صوبوں کا شوشہ اگرچہ اصل پلان ہے لیکن شوشہ چھوڑنے کے باوجود اس سے انکا رکیا جارہاہے۔ اس پلان کا اصل مقصد سندھ اور بلوچستان کو توڑنا اور ہزارہ صوبہ کے نام سے پختونخواہ کو توڑنا ہے۔ سندھ کی تقسیم ایم کیو ایم یا حکمرانوں کا دیرینہ خواب ہے۔ تاکہ کراچی سمیت ساحلی پٹی ایک ایسا صوبہ بن جائے جس پر مرکزی سرکار کا کنٹرول ہو۔ ساتھ ہی مہاجر کمیونٹی بھی مطمئن ہوجائے لیکن کراچی میں آبادی کا توازن اتنا بدل چکا ہے کہ یہ اب مہاجر اکثریت کا شہر نہیں رہا، پختونوں کی آبادی 50 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ 10 سال کے عرصہ میں 25 لاکھ سرائیکی جنوبی پنجاب سے آکر کراچی میں بسے ہیں۔ لہٰذا اگر کراچی یا ساحلی پٹی ایک صوبہ بن جائے تو کثیرالسانی صوبہ ہوگا اور مہاجروں کو پھر بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ البتہ سندھ کو الگ ہونے کے بعد مرکز کو کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ سندھی قیادت کی شرکت داری کے حق سے جان چھوٹ جائیگی۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو کئی سال سے بیورو کریسی نے اسے شمال او رجنوب میں تقسیم کردیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ جنوبی صوبے میں درخشاں ڈویژن بھی شامل ہوگا جہاں ریکوڈک واقع ہے اور واشک ضلع کے کئی علاقوں میں بیش قیمت معدنیات شامل ہیں جن کے بارے میں امریکہ اور چین کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا ۔ حکمران طبقے کا خیال ہے کہ ریکوڈک اور ساحلی پٹی آئینی طور پر ہاتھ آجانے کے بعد وہ جو چاہتے ہیں وہ آسانی کے ساتھ حاصل کرلیں گے۔ حالانکہ اس وقت بھی چند آئینی دفعات کے سوا اور کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ مائنز اینڈ منرل کی منظوری کے بعد وفاق تمام معدنیات کا بڑا شیئر ہولڈر بن گیا ہے جبکہ سمندر تو پہلے سے ہی وفاقی سبجیکٹ ہے اسی طرح ساحلی پٹی پر جو زمینیں ہیں وہ بھی وفاقی اداروں کو الاٹ کردی گئی ہیں اس کے باوجود الگ صوبے کا قیام سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کراچی اور گوادر کو وفاقی علاقہ قرار دیا جائے جو پہلے بھی رہ چکے ہیں۔ نئے صوبوں کا معاملہ ہو یا بااختیار شہری کونسلوں کا قیام اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکمران اشرافیہ سے ریاست نہیں چل رہی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں ہر سطح پر اورشعبے میں شدید ناکامی سے دوچار ہیں۔ ایک طرف آبادی کا ایک دیو ہے جو تابع میں نہیں آرہا۔ دوسری طرف حکمران طبقہ کے پاس کوئی پلاننگ نہیںہے۔ شہر شہر پرائیویٹ رہائشی بستیاں بن رہی ہیں جو دولت کمانے کا آسان ذریعہ ہے۔ ان ہزاروں بستیوں نے اتنی خرابی پیدا کی ہے کہ بارشوں میں بیشتر شہر ڈوب جاتے ہیںجس میں اسلام آباد کا نواحی علاقہ بھی شامل ہے۔ اس مرتبہ تو وفاقی وزیر علیم خان کی وسیع و عریض سوسائٹی بھی ڈوب گئی ہے جو اسلام آباد کے ساتھ واقع ہے۔ پلاننگ نہ ہونے، ٹمبر مافیا اور لینڈ مافیا کی کارستانیوں کی وجہ سے ریاست موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید تباہی کا شکار ہے۔ شمالی علاقہ جات میں پہاڑوں کے ساتھ گلیشئرزکے ساتھ اور درختوں کے ساتھ چھیڑ خانی کی وجہ سے ہزاروں سال سے مدفون گلیشئرز پھٹ رہے ہیں اگر کوئی اچھی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی تو گلیشئرز پھٹنے کی وجہ سے تربیلا ڈیم بھی ٹوٹ سکتا ہے جو اچھی حالت میں نہیں ہے۔ بدبختی کا یہ عالم ہے کہ انگریزوں کے بنائے گئے سکھر بیراج میں ناقص اور دو نمبر کام کیا گیا جوسندھ میںزراعت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے جنوبی پنجاب زبردست تباہی کا شکار ہے۔ بھلا یہاں اگر نیا صوبہ بن جائے تو وہ کیا کرسکتا ہے۔ کیا وہ دریائے ستلج پر ڈیم بنانے کی پوزیشن میں ہے۔
نئے صوبوںکا شوشہ یا این ایف سی میں صوبوں کا حصہ کم کرنے سے کیا ہوگا۔ اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ مرکزی سرکار کو پھر بھی عالمی قرضے لینے پڑیں گے کیونکہ آمدنی کم اور خرچہ زیادہ ہے۔ البتہ نئے صوبوں کے شوشے سے ملک بھر میں ایک سیاسی افراتفری پیدا ہوجائے گی۔ مہاجر اور سندھی بلا وجہ ایک بار پھر برسرپیکار ہوجائیں گے۔ بلوچستان میں بھی لسانی فرقہ پیدا ہوجائے گا۔ حالانکہ جس طرح وسطی اور جنوبی علاقے کو الاٹ کیا گیا ہے، قلعہ سیف اللہ کو بھی اسی انداز میں الاٹ کیا گیا ہے۔ ان تمام باتوں کا مقصد عوامی ردعمل ہوسکتا ہے۔ حالانکہ اس ریاست میں عوام کی اہمیت ہے اور نہ ہی ان کی رائے کوئی وقعت رکھتی ہے۔ جو فیصلہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی شکست خوردہ قیادتوں کو ڈرا دھمکا کر حاصل کیا جاسکتا ہے کسی میںبھی رکاوٹ بننے کی تاب اور جرا¿ت نہےں ہے۔ سندھ میں 17سالہ کرپشن کا مواد اکٹھا کرلیا گیا ہے۔ پنجاب میں ڈیڑھ سال کے دوران وہ کچھ ہوا ہے کہ وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ جب یہ ریکارڈ سامنے رکھا جائیگا تو دونوں حکمران جماعتیں کیا انکار کرسکیں گی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ ریاست وحدانی طرز حکومت کی طرف پیش رفت کررہی ہے۔ صوبوں کی اتھارٹی کم ہوگئی ہے، آئندہ چل کر مزید کم ہوجائے گی۔ ضرورت پڑنے پر 27 ویں اور 28 ویں ترامیم بھی منظور ہوجائیں گی۔ جس کے بعد یہ دونوں جماعتیں ناکارہ سمجھی جائیں گی۔ چنانچہ آئندہ چند سالوں کے دوران ریاست کو بتدریج صدارتی نظام کی طرف لے جایا جائیگا تاکہ اختیارات ایک ایسے شخص کے ہاتھوں میں مرتکز ہوں۔ جو سیاہ اور سفید کا مالک ہو اور تمام اہم فیصلے کسی روک ٹوک کے بغیر بیک جنبش قلم کرسکے۔ کئی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ اختیارات اور وسائل کی تقسیم پاکستان کو عظیم ریاست بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی پوٹن، شی جن پنگ یا کم ان کی طرح کی قیادت ہو تاکہ یہ ایک ناقابل شکست اور مضبوط ریاست بن سکے۔ اس طویل منصوبہ کے آغاز کے طور پر آزاد میڈیا کا وجود ختم ہوگیا ہے۔ اگرچہ چینل اور سوشل میڈیا کے ذرائع بڑھ گئے ہیں لیکن پابندیوں اور سخت قوانین کی وجہ سے وہ اپنی وقعت کھو بیٹھے ہیں۔ میڈیا تنظےموں کا یہ عالم ہے کہ سخت سنسر شپ اور پابندیوں کے باوجود ستائش کے طور پر شیلڈ پیش کی جارہی ہیں کسی میں جرا¿ت نہیں کہ وہ بلند آواز میں ان پابندیوں کو چیلنج کرسکے۔مستقبل قریب میں میڈیا عریضے ، سپاس اور قصیدے لکھا کرے گا۔ جو گزشتہ ادوار میں شاعر یادرباری لکھا کرتے تھے۔ اور ذی امر حکمرانوں کو ہدیہ تبریک پیش کیا جائے گا۔
پاکستان میں اگرچہ صحافت کو قصیدوں کی طرف بہت پہلے لے جایا گیا تھا لیکن ضیاءالحق کے دور میں اس کی انتہا ہوگئی تھی۔ ضیاءالحق کے جانشین کے طور پر ن لیگ نے کئی قصیدہ گو صحافی پیدا کئے گئے جس میں سرفہرست سہیل وڑائچ تھے۔ موصوف نے نواز شریف کے حق میں کتاب بھی تحریر کی تھی اور برملا کہا تھا کہ ڈنکی راجہ سے مراد عمران خان تھا۔ کئی ایسے میڈیا پرسنز تھے جو پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے زرخرید منشی کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ موصوف سہیل وڑائچ بھی ان میں شامل تھے۔ حالیہ کالم کے بعد ان کا عروج ختم ہوگیا ہے۔ ہر طرف سے ان پر تنقید کے تیر برسائے جارہے ہیں۔ غالباً ان کے خلاف پیکا قانون کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں مجھے ان سے ہمدردی ہورہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان کو بلایا جاتا صفائی کا موقع دیا جاتا۔ ان کا مو¿قف سنا جاتا اس کے بعد ہی کارروائی کی جاتی۔ ہاں سہیل وڑائچ سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے آف دی ریکارڈ گفتگو کو ریکارڈ پر لایا ہے۔ یہ بہرحال ایک بددیانتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ سہیل وڑائچ کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے اور دل کشادہ کرکے انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔
یہ جو وڑائچ پر ملامتی صحافی تنقید کے تیر چلا رہے ہیں وہ اتنے اچھے اور پکے قصیدہ خواں نہیں ہیں۔ یہ تو ہر دربار سے منسلک ہوتے ہیں اور ڈنگ کا راگ درباری بھی پیش نہیں کرسکتے۔ ان کی باتوں پر قطعا ًکوئی توجہ نہ دی جائے۔


