نوکنڈی سے چوکنڈی تک
تحریر: انور ساجدی
خیال یہی تھا کہ طاقت کا ایک مقام پر ارتکاز سے ریاست کے سیاسی مسائل حل ہو جائیں گے اور عمران خان کو چھوڑ کر تمام طاقتوں کے ایک پیج پر آنے کے بعد سیاسی استحکام اور معاشی بہتری قائم ہو جائے گی لیکن بوجوہ ایسا نہیں ہو سکا۔اس کی سب سے بڑی وجہ ن لیگ کے سپریم لیڈر نوازشریف ہیں جو ہر مرتبہ بم کو لات مار دیتے ہیں اگرچہ اس دفعہ انہوں نے لات مارنے کی کوشش نہیں کی لیکن بم کی طرف پیش رفت کرتے نظر آ رہے ہیں۔مجید نظامی مرحوم کے بقول میاں صاحب کوئی بھی عمل کرتے پہلے ہیں اورسوچتے بعد میں ہیں۔یہی عمل کام انہوں نے27 ویں ترمیم کی منظوری کے وقت کیا جب یہ ترمیم منظور ہوئی تب میاں صاحب کو احساس ہوا کہ جو ہوا اس میں کچھ خامی کچھ کمی رہ گئی ہے لیکن اب پچھتانے سے کچھ ہونے والا نہیں البتہ28 ویں ترمیم لانے کی تیاری ہو رہی ہے جس سے پہلے میاں صاحب سودے بازی کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہوگا وہی جو پیا من چاہے۔میاں صاحب نے اپنے بھائی یا بیٹی کی وجہ سے اتنے یوٹرن لئے ہیں کہ ن لیگ کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے کہاں ووٹ کو عزت دو کی تحریک اور کہاں موجودہ مقام ۔گرنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ایک بڑی آزمائش این ایف سی اجلاس کے موقع پر آ رہی ہے میاں صاحب پر دباﺅ ہے کہ صوبوں کا حصہ کم کر کے47 فیصد رکھا جائے جو کہ موجودہ این ایف سی میں57 فیصد ہے۔میاں صاحب آدھے پونے راضی ہیں لیکن اس کے بدلے میں کچھ چاہتے ہیں ان کی شرائط انتقام سے لبریز ہیں ان کی خواہش ہے کہ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کا فیصلہ جلد سنا دیا جائے عمران خان کو اقتدار میں لانے پر جنرل باجوہ کا بھی کورٹ مارشل کیا جائے۔
9 مئی،تحفے بیچنے، ملک ریاض سے رشوت لینے اور تحریک طالبان کے جنگجوواپس لانے کے جرم میں عمران خان کو درس عبرت بنایا جائے۔چند روز قبل میاں صاحب نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے باقاعدہ مطالبہ کیا کہ عمران خان کو لانے والوں کا بھی احتساب کیا جائے یہ سخت شرائط پوری ہونے والی نہیں ہیں شاید کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر کوئی راستہ نکل آئے لیکن نوازشریف بھی وہ پہلے والے نہیں رہے۔
وقت نے کیا ہے کیا حسین ستم
نہ میں رہا میں اور نہ تم رہے تم
اپنی غلطیوں کی وجہ سے ان کی جماعت ن لیگ عوامی حمایت سے محروم ہو چکی ہے۔گزشتہ انتخابات میں اسے زبردستی لایا گیا اور اس کی ہائبرڈ حکومت قائم کی گئی۔میاں صاحب کو خود اس صورت حال کا اچھی طرح ادراک ہے لہٰذا سیاسی طور پر کمزور پوزیشن پر ان کی کیا بارگیننگ بنتی ہے۔آثار بتا رہے ہیں کہ میاں صاحب اسی تنخواہ پر گزارہ کریں گے ہاں اگر وہ اپنی ماضی کی روایات پر چلے تو ضرور بم کو لات مار دیں گے۔ن لیگ کے قریبی صحافی ابصار عالم نے اپنے وی لاگ میں کچھ چیزوں کی نشاندہی کر دی ہے لیکن یہ محض خواہشات ہوسکتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں البتہ18 ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ کو لیکر آصف علی زرداری مشکل صورتحال سے دوچار ہیں ان پر سخت دباﺅ ہے کہ وہ صوبوں کا حصہ کم کرنے پر راضی ہو جائیں۔ابھی تک تو وہ واضح طور پر انکار کر رہے ہیں لیکن وہ بھی انکار کی پوزیشن میں نہیں ہیں انہیں منانے کےلئے آزاد کشمیر کی حکومت حال ہی میں پیش کر دی گئی تھی جبکہ سندھ15 سال سے ان کے پاس ہے۔اگر حساب مانگا گیا تو 80کھرب روپے کہاں خرچ ہوئے تو وہ کیا جواب دینگے اگر گھوڑوں کو مربعے کھلائے گئے ہوں اور ان کے لئے کرسٹل کے سوئمنگ پول بھی بنائے گئے ہوں تو بھی اتنے پیسے خرچ نہیں ہوتے یہی معاملہ باقی صوبوں کا بھی ہے۔اس لئے راولپنڈی یہ سمجھتا ہے کہ صوبوں کو دئیے گئے پیسے ضائع ہو رہے ہیں کسی بھی صوبے نے کوئی قابل قدر کام نہیں کیا بلکہ نئے این ایف سی ایوارڈ کے اجراءکے بعد سے غربت کی شرح مزید بڑھ گئی ہے جبکہ ایک خطیر رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر ضائع ہو رہی ہے حال ہی میں آئی ایم ایف نے جو چشم کشا رپورٹ جاری کی ہے وہ الزامات کی چارج شیٹ ہے۔5300 ارب کی بے قاعدگی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ حکمران اشرافیہ اس ریاست سے مخلص نہیں ہے۔یہ جو گٹھ جوڑ ہے پاور اور اکانومی پر ایلیٹ کا قبضہ ہے۔اس کا مقصد ہی لوٹ مار ہے اور زیادہ سے زیادہ مراعات بٹورنا ہے۔اس کلاس کو اپنی آئندہ نسلوں کی اتنی فکر ہے کہ وہ اپنے ہی دور میں ان کے لئے زیادہ سے زیادہ زاد راہ جمع کرنا چاہتے ہیں یہ تاحیات استثنیٰ اس کا واضح ثبوت ہے اگر اس اشرافیہ میں اخلاقی طاقت ہوتی تو وہ ابھی تک عمران خان کے ”فنامنا“ پر قابو پا چکے ہوتے لیکن داخلی کمزوریوں کی وجہ سے وہ عوام میں عمران خان کے سحر کا توڑ نہ کرسکے حالانکہ عمران خان بھی اسی اشرافیہ کا حصہ ہے اور اس نے اپنے دور میں ”ایلیٹلیگ “ کی ابتداءکی تھی تشویش کی بات یہ ہے کہ ریاست کی جڑیں کھوکھلی ہو رہی ہیں اور اس طبقہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔اگرچہ آئی ایم ایف نے بتایا ہے کہ پاکستان سے ہر سال20 ارب ڈالر چوری کر کے باہر بھیجے جاتے ہیں یعنی جو5ہزار لوگ قابضین ہیں وہ دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی عوام کی قسمت کا سودا کر کے کھربوں ڈالر کی دولت جمع ک چکے ہیں اگر ان کے خلاف کچھ بولا جائے تو ملک دشمنی اور دیگر الزامات لگا کر نذر زندان کیا جاتا ہے خوف اتنا ہے کہ سخت ترین سنسرشپ نافذ ہے تاکہ نام نہاد اشرافیہ کے کرتوت منظرعام پر نہ آئیں اس اشرافیہ نے سخت قوانین بنا کر خوف کا ماحول پیدا کیا ہے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو پہلے ہی لٹایا اور مٹایا گیا تھا اب تو سوشل میڈیا کے بارے میں بھی مزید سخت قوانین لائے جا رہے ہیں کون نہیں جانتا کہ روس میں کوئی اپوزیشن نہیں ہے وہاں پر پوٹن نے نہ میڈیا چھوڑا ہے اور نہ ہی مخالفانہ آوازیں۔شمالی کوریا کے تو اس سے بدترحالات ہیں وہاں”بوائے ان“ سیدھے توپ سے باندھ دیتے ہیں یہی حال چین کا بھی ہے پاکستان میں سائبر کرائم،پیکا ایکٹ اور ہتک عزت کے قوانین ایسے آمرانہ قوانین ہیں کہ ان کا مقابلہ روس اور چین کے قوانین سے کیا جا سکتا ہے اس کے باوجود حکمران مطمئن نہیں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ریاست ایک بار پھر جمہوریت کی کچی کلاس میں آ جائے بدقسمتی سے یہ تمام کام پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ہاتھوں ہو رہے ہیں جو اپنے آپ کو جمہوری اور پارلیمانی جماعتیں کہتی ہیں دونوں جماعتوں نے سربسجود ہوکر اپنے ہاتھ پیر خودکٹوا لئے ہیں مقصد کیا ہے کہ تحریک انصاف کو ختم کیا جائے اس کے بدلے میں وہ انگوٹھے پہ انگوٹھا لگائے جا رہے ہیں ان کے اس عمل نے پارلیمنٹ کی وقعت ختم کر دی ہے جبکہ26اور27 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو مجسٹریٹ کی عدالتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ کس منہ سے عوام کے پاس جائیں گے وہ2008 سے اب تک عوام کو کچھ دے نہ پائے تو آئندہ کے مشکل حالات میں انہوں نے کونسے تیر چلانے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ اس جعلی اشرافیہ نے اقتدار اور ریاست پر قابض ہو کر اسے ناکام ریاست میں تبدیل کر دیا ہے ۔ناکامی کسے بولتے ہیں کہ معیشت زیرو ہے امن و امان زیرو ہے جانی و مال کا تحفظ موجود نہیں ہے ترقی نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ہے بے تحاشہ اخراجات ہیں جنہیں پورا کرنے کے لئے قرضے خیرات اور امداد پر گزارہ کیا جا رہا ہے جب پارلیمنٹ آزاد نہ ہو آئین کی وقعت نہ ہو معاشی طورپر خوشالی نہ ہو عوام جینے کے لئے ترس رہے ہوں تو یہ کونسی کامیاب ریاست ہے۔2008 سے اب تک مین جماعتوں کی حکومتیں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں سی پیک ناکامی سے دوچار ہوا معاشی بحالی کا کام فیل ہویگا تمام بڑے منصوبے ٹھپ ہوگئے ریکوڈک اور سیندک بھی ڈوبنے والے ہیں ۔اندازہ کیجیے کہ خیبر سے لیکر گوادر اور نوکنڈی سے چوکنڈی تک تباہی ہی تباہی دکھائی دیتی ہے۔اگر ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں ذرا سا بھی رمق ہے وہ رضاکارانہ طور پر حکومت سے مستعفی ہو جائیں اور کوشش کریں کہ نئے انتخابات کے ذریعے کوئی بہتر بندوبست ہو جائے۔


