”گھمسان کا رن“

تحریر: انور ساجدی
حکمران ایلیٹ یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ پنجابی ایلیٹ کے درمیان گھمسان کا رن پڑ رہا ہے۔سوشل میڈیا پر دونوں گروپ ایک دوسرے کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ذاتی حملے کر رہے ہیں اس لڑائی کی کوئی اخلاقیات نہیں ہے دشنام طرازی اور الزام تراشی وہ کہ الامان والحفیظ مقابلہ میں ابھی تک پی ٹی آئی کا ڈائس پورہ یا اوورسیز متوالوں کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔بیرون ملک مقیم پی ٹی آئی ”کی بورڈ وارئیرز“ کی قیادت عمران خان کے سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر اور سابق ذاتی خادم شہبازگل کرر ہے ہیں جبکہ دو بھگوڑے میجر راجہ عادل اور کیپٹن مہدی بھی بھرپور حصہ لے رہے ہیں ڈاکٹر معید پیرزادہ صابر شاکر اور سابق عسکری صحافی وجاہت سعید خان بھی عمران مخالف سیاست دانوں اور اداروں پر تنقید کے نشتر چلا رہے ہیں سرکاری وی لاگرز لاتعداد جعلی سائٹس پر پی ٹی آئی پر الزام تراشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔کچھ دنوں سے پی ٹی آئی فدائین مخصوص شخصیات کو ہدف بنا رہے ہیں طرح طرح کے الزامات سامنے لا رہے ہیں جنون اتنا ہے کہ ایک دوسرے کے خاندان اور بچوں کو بھی درمیان میں لایا جا رہا ہے ایک دوسرے پر کرپشن اور وطن فروشی کا گھمبیر الزام بھی لگایا جا رہا ہے معاملہ اتنا آگے بڑھا ہے کہ چار دن ہوئے کیمبرج یونیورسٹی ٹاﺅن میں مقیم شہزاد اکبر پر ایک نقاب پوش یا چند نقاب پوشوں نے حملہ کر دیا۔اسے زدوکوب کر دیا لیکن زخم ہلکے پھلکے آئے مطلب ان کو ڈرانا تھا حملہ سے قبل شہزاد اکبر نے لندن کی ایک تقریب میں پرجوش تقریر کی تھی اور یہ کہا تھا کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے لیکن حملے کے بعد وہ ڈر گئے اس لئے حکومت کو رپورٹ کر دی اور سیکورٹی کے لئے پولیس طلب کرلی۔ان حملہ آوروں کا مقصد یہ تھا کہ موصوف کی زبان درازی کو روکا جائے ورنہ اسی لندن میں ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو چاقو کے وار سے قتل کیا گیا تھا اور کوئی قاتل پکڑا نہیں جا سکا۔بیرسٹر شہزاد اکبر بڑے دبنگ قسم کے احتساب آفیسر تھے انہی کے مشورے پر عمران حکومت نے مخالفین کو قید میںڈال دیا تھا اور جیلوں کے اندر سخت ایذا رسانی سے کام لیا تھا لیکن وہ تبدیلی سے قبل اچھے وقت میں انگلینڈ فرارہوگئے ورنہ پاکتان میں ہوتے تو ان کا براحشر ہو جاتا ۔موصوف نے ہائیڈ پارک ون کے فلیٹ کی فروخت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں کھرب پتی ملک ریاض کی مدد کی اور عمران خان کو قائل کیا کہ190ملین پاﺅنڈ کی رقم ملک ریاض کے کھاتے میں جمع کی جائے عمران خان اسی جرم کے تحت آج کل طویل قید کی سزا بھگت رہے ہیں جب برٹش حکومت نے ملک ریاض سے وصولے گئے پیسے پاکستان کو واپس کئے تو سنا ہے کہ لندن کی ایک گلی میں شہزاد اکبر ملک ریاض سے کچھ زادراہ وصول کر رہے تھے۔یہی وجہ ہے اور دیگر وجوہات کی بناءپر شہزاد اکبر کیمبرج یونیورسٹی ٹاﺅن میں ایک عدد مکان کے مالک ہیں اچھی خاصی خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ایک اور فدائی میجر عادل راجہ بڑی مشکل سے گزارہ چلا رہے ہیں جبکہ جعلی ڈکٹر شہباز گل امریکہ میں مقیم ہیں وہ وہاں کے شہری ہیں اور بہت ہی زیادہ آسودہ حال ہیں جعلی بیرسٹر تو شہزاد اکبر بھی ہیں لندن سے ڈگری لی ہے اس لئے بیرسٹر لکھتے ہیں اینکرپرسن معید پیرزادہ امریکہ میں شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں ان کی ملکیت میں ایک شاندار ولا ہے معلوم نہیں کہ انہوں نے اتنی دولت کہاں سے اکٹھی کی ہے۔سعید مہدی کینیڈا میں ہیں جن کا ذریعہ آمدنی نامعلوم ہے تحریک انصاف کے مقابلہ کے لئے سرکار نے بھی بہت بڑا لشکر سوشل میڈیا کے میدان میں اتارا ہے لیکن یہ لشکر مقابلے میں پیچھے ہے جب بات مارکٹائی تک پہنچے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ مدمقابل فریق کمزور ہے۔جس تقریب سے شہزاد اکبر خطاب فرما رہے تھے اس میں ایک فدائی خاتون بہت جذباتی ہوگئی اور قتل کی دھمکی دے دی جس پر حکومت پاکستا نے برطانیہ سے سخت احتجاج کیااور مطالبہ کیا کہ پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور دھمکی دینے والوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے لیکن برطانیہ نے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقات جاری ہیں وہاں کے ادارے آزاد ہیں اور حکومتی کنٹرول میں نہیں ہیں دوسرا یہ کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان تبادلہ مجرمان کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔اس لئے جو سیاسی پناہ گزین ہیں روایات کے تحت انہیں نہیں نکالا جاتا۔تحریک انصاف اور ریاست کے درمیان ہونے والی جنگ سے قطع نظر ہزاروں ایسی سائٹس بنائی گئی ہیں جو نسل اور زبان کی بنیاد پر تفرقہ پھیلانے میں دن رات سرگرم عمل ہیں ان سائٹس پر سب سے زیادہ بلوچوں اور اس کے بعد پشتونوں کو ہدف بنایا جاتاہے مثال کے طورپر ذاتی حملوں کے علاوہ بلوچستان میں تقسیم درتقسیم کے فارمولے کو بڑھاوا دیا جاتا ہے ایک خاص پروپیگنڈہ یہ ہے کہ براہوئی الگ قوم ہے اگرچہ سوشل میڈیا سائٹ کا نام براہوئی ہے لیکن لگتا ہے کہ اسے کوئی چوہدری چلا رہا ہے یہ سائٹ مستقل بداخلاقی اور دشنام طرازی سے کام لیتی ہے۔تواتر کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ براہوئی سرائیکی اور سندھی دراوڑی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔کہتا ہے کہ یہ لوگ موہنجودڑ سے چارہزار کلومیٹر دور جنوبی ہندوستان گئے تھے پروپیگنڈا کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ یہ لوگ کس ذریعے سے اتنی دور گئے تھے آیا یہ لوگ اڑن طشتری کے ذریعے گئے تھے یا اس وقت بھی جیٹ طیارے موجود تھے اس کے ساتھ سرائیکی اور پنجابی بھی ایک دوسرے کے خلاف مغلظات کا استعمال کر رہے ہیں یہ بات یقینی ہے کہ براہوئی پروپیگنڈہ چلانے والے کوئی اور مخلوق ہے جن کا براق ٹی وی سے تو تعلق ہوسکتا ہے براہوئی قوم سے نہیں چونکہ بہت طویل موضوع ہے اس لئے اس پر حاشیہ آرائی کرنا بے کار ہے۔ مختصر بات یہ ہے کہ انگریزوں نے بہت کوشش کی تھی بہت لالچ اور زر کا استعمال کیا تھا ہر حربہ آزمایا تھا لیکن براہوئی اور بلوچ کو کبھی جدا نہ کرسکے تھے قیام پاکستان کے بعد بھی کئی جتن کئے گئے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔
تاریخی ریکارڈ سامنے لانے کےلئے دو واقعات کا تحریر میں لانا ضروری ہے۔
1970 کی دہائی میں میر صلاح الدین مینگل نے براہوئی اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنائی اور بہت کوشش کی کہ کوئی الگ راستہ بنایا جائے لیکن نصف صدی کے بعد جب وہ حکومت پاکستان کے ادارہ پاکستان پریس کونسل کے چیئرمین بنے تو مجھ سے درخواست کی کہ ممبر کی حیثیت سے آپ میرا تعارف کروائیں میں نے کہا کہ محمد صلاح الدین مینگل سینئر بلوچ قانون دان اور اسکالر ہیں اس موقع پر صلاح الدین نے بلوچستان اور بلوچ قوم کی روایات کا تفصیل سے تذکرہ کیا نصف صدی کے بعد وہ ایک کامل بلوچ بن گئے تھے۔ 1972ءمیں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پہلے بجٹ کے موقع پر پاکستان بھر سے صحافی راولپنڈی بلائے تو بلوچستان سے بھی ایک درجن کے قریب صحافی مدعو تھے۔ بجٹ پیش ہونے سے ایک رات پہلے ”فلیش مین“ ہوٹل کے ہال میں ایک گرینڈ اجتماع میں طے یہ ہوا تھا کہ ہر صوبے کا ایک صحافی تقریر کرے گا مرحوم ملک محمد رمضان بلوچ کو پکا یقین تھا کہ انہی کا نام پکارا جائے گا میں نے مرحوم پروانہ سے کہا کہ اگر نام آئے تو تعارف میں کیا کہا جائے پروانہ صاحب نے کہا کہ بلوچستان سے باہر اتنے بڑے اجتماع میں میں اپنے نام کے ساتھ براہوئی کا لاحقہ لگانا نہیں چاہتا چنانچہ جب ان کا نام پکارا گیا تو کہا گیا کہ سینئر بلوچ ایڈیٹر اور دانشور نور محمد پروانہ خطاب کریں گے اگلی صبح ناشتے کی میز پر ملک رمضان نے پوچھا یار یہ پروانہ صاحب کو کس نے بلوچ بنایا ان کی براہوئی تحریک کا کیا بنے گا۔ کافی سال بعد پروانہ صاحب نے براہوئی رسم و رواج پر ایک کتاب لکھی شادی کا احوال بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ دولہا کو کھلے میدان میں نہلایا جاتا ہے اس رسم کو”سرشود“ کہا جاتا ہے غالباً اس کے لئے کوئی براہوئی لفظ نہیں تھا اس پر انہیں بہت چھیڑا گیا جھنجھلا کر بولا یار بلوچ اوربراہوئی رسم ورواج میں ایک فیصد بھی فرق نہیں ہے اگر میں نے سرشود لکھا تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ چونکہ سنجیدہ موضوع ہے جس پر اپنے پاس کافی تاریخی اور عصری معلومات ہیں لیکن ہم نے یہ شعبہ محترم ڈاکٹر فاروق بلوچ کے لئے چھوڑا ہے یا قبلہ شاہ محمد مری بہتر گفتگو کرسکتے ہیں یاد آیا کہ ایک سائٹ آج کل جاموٹوں کی بھی سرگرم ہے اس کے بارے میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ جاموٹ بلوچوں سے کوئی الگ مخلوق ہے حتیٰ کہ سبی کے گلابی پختونوں کو بھی الگ تھلگ ظاہر کیا جا رہا ہے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ سردار محمد خان باروزئی نے1976 میں راقم کو اخبار جہاں کے لئے انٹرویو دیتے ہوئے سبی کے پختونوں کی اس طرح تعریف کی تھی۔
”میں نسلاً پشتون ہوں لسانی طورپر سندھی ہوں اور ثقافتی طورپر بلوچ ہوں۔“
اگر ان سب کو ملایا جائے تو سبی کے سندھی نژاد پشتونوں کی کوئی صورت بنتی ہے۔ ایک صاحب قابل احترام فاروق بلوچ کے خلاف سبی کے حوالے سے بہت گستاخیاں کر رہا تھا اوریہ ظاہر کر رہا تھا کہ اسے اتنے بڑے پڑھے لکھے اسکالر کے بارے میں معلوم نہیں ہے۔یہ جو دشنام طرازی کے سوشل میڈیا سائٹس ہیں ان کے منتظمین کی کوشش ہے کہ بلوچ غصے میں آئیں لیکن ابھی تک کوئی غصے میں نہیں آیا اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے حالانکہ یہ لوگ خواتین کی بھی توہین کر رہے ہیں بلوچوں کو پناہ گیرڈاکو اور قبضہ گیر ظاہر کر رہے ہیں لیکن جو بھی ہے یہ آج کل میں تھوڑا ہوا ہے یہ صدیوں کا قصہ ہے آج کی حقیقت کیا ہے بندرعباس سے لے کر کہ سلیمان تک ایک جغرافیائی وحدت حقیقت کے طور پر موجود ہے جسے ماضی کے سامراج مٹا نہ سکے تو عہد حاضر کے مخالفین بھی کچھ نہیں کرسکتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں