ڈیورنڈ لائن مستقل ناسور

تحریر: انور ساجدی
یہ توقع نہیں تھی کہ طالبان اتنے چالاک اور ہوشیار نکلیں گے۔دوحہ میں سیزفائر معاہدے میں لکھا تھا کہ دونوں ممالک کے انٹرنیشنل بارڈر پرفریقین کے درمیان جنگ بندی ہوگی۔طالبان نے فوری طورپر لفظ انٹرنیشنل بارڈر پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ یہ ڈیورنڈ لائن ہے اس اعتراض کے نتیجے میں معاہدے کے متن میں تبدیلی لانا پڑی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان حکمران ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے ان میں طالبان بھی شامل ہیں۔ماضی میں مختلف افغان حکمران اسے سامراجی لکیر کا نام دیتے رہے ہیں قیام پاکستان کے بعد افغانستان واحد ملک تھا جس نے پاکستان کی اقوام متحدہ میں رکنیت کی مخالفت کی تھی مرحوم افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے بعد ان کے کزن سردار داﺅد بھی ہمیشہ دعویٰ کرتے تھے کہ انگریزوں نے جن علاقوں پر قبضہ کیا تھا وہ افغانستان کا حصہ ہیں۔سردار داﺅد نے جب ظاہر شاہ کا تختہ الٹا تو وہ اپنے آپ کو انتہا درجہ کا پشتون قوم پرست ثابت کرتے تھے اسی لئے انہوں نے پختونستان کے قیام کے لئے پروپیگنڈا تیزکر دیا۔اس مقصد کے لئے کابل ریڈیو سے باقاعدہ پروگرام چلتا تھا جسے اے این پی کے سابق سیکرٹری جنرل اجمل خٹک نشر کیا کرتے تھے۔جہاں تک ڈیورنڈ لائن کا تعلق ہے تو1893میں معاہدہ ہوا تھا جسے1993ءمیں سو سال پورے ہو چکے ہیں۔
غالباً معاہدہ میں ایسی گنجائش رکھی گئی تھی کہ سو سال بعد اس کا دوبارہ جائزہ لیا جا ئے گا ایسا ہی معاہدہ سابق فاٹا کے بارے میں بھی تھا اس ضمن میں اس وقت جو دانشور اور سیاسی استاد رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں وہ جناب افراسیاب خٹک ہیں۔حیات پختون رہنماﺅں میں افراسیاب سب سے سینئر رہنما ہیں اور ان کے پاس مکمل دستاویزی ریکارڈ موجود ہے جب ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ ہوا تھا تو پشاور سمیت پختونخوا کے کافی سارے علاقوں پرانگریزوں کا قبضہ تھا پشاو تو رنجیت سنگھ نے چھین لیا تھا جو افغانستان کبھی واپس نہ لے سکا البتہ ڈیورنڈ لائن معاہدہ کی وجہ سے پہلے انڈیا اور پھر پاکستان کو منتقل ہوئے تھے معاہدہ کے وقت افغان امیر عبدالرحمن بہت کمزور تھے اور انگریزوں کو انکار نہیں کرسکتے تھے اس لئے18لاکھ کے وظیفہ کے بدلے انہوں نے افغان وطن کو تقسیم کے پریشان اوراق پر دستخط کر دئیے۔تضحیک کی خاطر انہی راولپنڈی گیریژن میں بلایا گیا تھا تاہم عبدالرحمن کے بعد آنے والے حکمرانوں نے اس پر اعتراضات برقرار رکھے۔ڈیورنڈ لائن کا ایک بڑا نقصان بلوچستان کو بھی ہوا غالباً اس کے نتیجے میں نمروز اور ہلمند کے علاقے افغانستان میں شامل کئے گئے تھے اس وقت یہ علاقے لیزیا اجارہ پر انگریزوں کے پاس تھے۔اس سلسلے میں محترم ڈاکٹر مری اورفاروق بلوچ تاریخی ریکارڈ کے حوالے سے درست معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔خواجہ آصف کی یہ دھمکی اگر طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں نہ روکیں تو افغانستان سے کھلی جنگ ہوگی یہ بیان بازی ناپختگی اور تاریخ سے نابلد ہونے کا واضح ثبوت ہے پاکستانی حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ڈیورنڈ لائن ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اسے بات چیت اور پرامن طریقے سے ہی حل کیا جا سکتا ہے جنگ سے پاکستان کو وقتی کامیابی مل سکتی ہے لیکن بالآخر اسے نقصان ہوگا کیونکہ افغانستان تاریخ میں کئی حملے دیکھ چکا ہے اس کا واحد ہتھیار گوریلا جنگ ہے یہ حربہ اس نے انگریزوں،سوویت یونین اور امریکہ کے خلاف آزمایا اور اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ آئندہ بھی یہی ہتھیار استعمال کرے گا۔اس وقت تو پوزیشن یہی ہے کہ پاکستان اورافغانستان کے درمیان کوئی عسکری مقابلہ ہے ہی نہیں پاکستان حملہ کر کے قندھار اور جلال آباد پر قبضہ کر سکتا ہے لیکن ایک آزاد ملک پر قبضہ کی حمایت عالمی برادری نہیں کرے گی دوسرے یہ کہ افغانستان بالآخر ڈیورنڈ لائن کا معاملہ اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں لے جا سکتا ہے جو ایک باقاعدہ تنازعہ کی شکل اختیار کرے گا اور کبھی پرامن طریقے سے حل نہیں ہوسکتا۔کئی بزرگ لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب بھٹو اور خان عبدالولی خان کی لڑائی عروج پر تھی تو بھٹو نے ایک جلسہ عام میں کہا تھا کہ پخونستان میری لاش پر بنے گا۔اس پر ولی خان نے کہا تھا کہ اگر بھٹو بازنہ آئے تو میں زنجیر اٹک پر کھینچ دوں گا۔آج بھی کئی پختون رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ انگریزوں کے آنے سے پہلے انڈیا اور افغانستان کی سرحد دریائے اٹک تھا یہ بات صحیح ہے لیکن پنجابیوں نے سکھوں کی شکل میں افغانستان کو جمرود کے پہاڑوں تک دھکیل دیا اور اس پورے علاقے پر قبضہ کرلیا۔لہٰذا یہ اٹک والا کلیم آج حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا البتہ ڈیورنڈ لائن اور فاٹا تک معاملہ متنازعہ ضرور ہے۔اس تنازعہ کے خاتمہ کے لئے باجوہ سر نے اربوں روپے خرچہ کر کے سرحد پر باڑ لگائی جو کارگر ثابت نہیں ہوئی کیونکہ یہ امریکہ اور میکسیکو کا بارڈر نہیں ہے اس کی نوعیت اور حساسیت الگ ہے۔ڈیورنڈ لائن کی دونوں جانب ایک زبان بولنے والے اورایک کلچر کے حامل لوگ رہتے ہیں دونوں طرف کئی قبائل مشترک ہیں دونوں طرف معیشت آپس میں جڑی ہوئی ہے یہ الگ بات کہ پاکستان میں پختونوں کی تعداد افغانستان سے کہیں زیادہ ہے پاکستان میں کم از کم 5 کروڑ پختون رہتے ہیں جبکہ افغانستان کی کل آبادی 4کروڑ کی آبادی ہے۔پختون40 فیصد ہیں دو صدیاں گزرنے کے بعد کافی سارا فرق آیا ہے آج صوبہ پختونخوا پاکستانی مقتدرہ کا حصہ ہے اور اس کی نمائندگی ریاستی اداروں میں آبادی کے تناسب سے زیادہ ہے۔مسلح افواج میں بھی ان کی نمائندگی پنجاب کے بعد زیادہ ہے۔آج پشاورکاروبار کے لحاظ سے کابل سے آگے ہے۔خود پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی معیشت پختونوں کے ہاتھ میں ہے۔یہی حال کراچی اور کوئٹہ کا ہے۔لٰہذا ان معاشی مفادات اورنئے سوشل اسٹرکچر کی وجہ سے پاکستانی پختون مجبور ہیں کہ وہ پاکستان کی حمایت کریں البتہ اگر ریاست کمزور ہوگی تو پختون سرحد کے دونوں دیکھیں گے اور ان میں یک جا ہونے کی خواہش پھر سے ابھرے گی۔
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف کا یہ نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ جب بھی کسی معاملہ پرلب کشائی کرتے ہیں تو ان کے منہ سے آگ نکلتی ہے اور وہ معاملات کو سلجھانے کے بجائے بگاڑ دیتے ہیں۔اگرچہ وزیراعظم شہبازشریف کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملک کو سیاسی اور معاشی بحرانوں سے نکال لیا ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ ان دعوﺅں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اس حکومت کی خامی یا خاصیت یہ ہے کہ وہ ڈائیلاگ اور پرامن ذریعے پر یقین نہیں رکھتی وہ ہر مسئلے کو طاقت کے ذریعے حل کرنے کی بات کرتی ہے حال ہی میں جو کچ ٹی ایل پی کے ساتھ ہوا اس کی کیاضرورت تھی نوجوانوں متشدد ملاﺅں کا یہ گروپ بھی ریاست نے خود ہی تشکیل دیا تھا اور اسے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا تھا لیکن ن لیگ کی حکومت نے ٹی ایل پی کے ماچ کو کچل کر غلط روایت ڈالی اگرچہ ٹی ایل پی طاقت اور پیسے کے بل بوتے پر بدمست ہوگئی تھی لیکن پھر بھی اسے سمجھایا بجھایا جا سکتا تھا۔حکومت نے طاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا جس کی وجہ سے عالمی میڈیا میں ہلاکتوں کے بارے میں وسیع پیمانے پر افوایں پھیل گئی تھیں کوئی وقت آئے گا کہ مرید کے والا واقعہ آج کے حکمرانوں کے گلے پڑے گا۔
مقام افسوس ہے کہ مختلف حکومتوں نے طالبان جماعت الدعوة سپاہ صحابہ حزب التحریر اور ٹی ٹی پی تشکیل دی تھی آج یہ عمل الٹا ثابت ہو رہا ہے جنرل ضیاءالحق نے جو مجاہدین بنائے تھے انہوں نے پاکستان اور افغانستان کا امن تاراج کر دیا کلاشنکوف اورہیروئن کلچر افغان مہاجرین اور جہادیوں کی دین ہے جس نے پاکستان کی ہئیت تبدیل کر ڈالی اسی طرح ضیاءالحق نے سپاہ صحابہ بنا کر فرقہ واریت کی بنیاد ڈالی اور کراچی کے لسانی گروہ بنا کر تباہی کی ایسی بنیاد ڈالی کہ جو کبھی درست نہیں ہوسکتا اس کے ساتھ ہی سیاسی ٹیلرنگ جاری ہے کبھی شفاف انتخابات ہونے نہیں دئیے جاتے ہر الیکشن کے نتیجے میں کاسمیٹک ہائی برڈ رجیم لائی جاتی ہے آئین کو پس پشت ڈالا گیا ہے پارلیمنٹ اپنی حیثیت کھو بیٹھی ہے اور18ویں ترمیم کو ملیامیٹ کر کے ایک واحدانی طرز کا نظام لانے کی خواہش ہمیشہ سے بڑھ گئی ہے۔بلوچستان ڈائریکٹ رول کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔معیشت ڈوب چکی ہے جس کا ثبوت وزیراعظم کا وہ بیان ہے کہ بلوچستان کی زمین کے نیچے کھربوں ڈالر کے خزانے ہیں لیکن ہم انہیں باہر نہیں نکال سکتے۔کوئی پوچھے کہ زمین کے اوپر جو انسان ہیں حکومت کا ان کے بارے میں کیا سلوک ہے۔تمام تر دعوﺅں کے باوجود سالانہ ترقی کی شرح محض ڈھائی فیصد ہے بیرونی سرمایہ کار ادھر کا رخ نہیں کررہے ہیں بلوچستان اور پختونخوا میں دو قدم چلنا مشکل ہے تووہاں پر سرمایہ کیسے آئے گا؟ اورترقی کیسے ہوگی؟۔اصل خرابی اذہان میں ہے جب تک حکمران کوئی صحیح حکمت عملی نہیں بنائیں گے حالات بدسے بدتر ہوتے جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں