ہر طرف ٹوپی ڈرامہ کیوں؟
تحریر: انور ساجدی
یہ بات ناقابل یقین مگر حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا کے اہم ممالک میں سنسر شپ نافذ ہے سب سے بڑے سپرپاور کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھی خواہش ہے کہ امریکہ کا آزاد میڈیا ختم ہو جائے اور آزادانہ خبروں کا سلسلہ بند ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے دوسری مدت میں بھی آزاد میڈیا کے خلاف محاذ کھول دیا ہے۔آئے دن وہ سی این این، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور این بی سی نیٹ ورک کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے ہیں۔ مغلظات بکتے ہیں اور اپنی پریس کانفرنس میں موجود صحافیوں کو لعن طعن کرتے رہتے ہیں چونکہ امریکہ میں ٹرمپ کی خواہش کے برعکس جمہوریت نافذ ہے اور سماج بہت طاقتور ہے اس لئے وہاں پر مکمل سنسرشپ نافذ کرنا ممکن نہیں ہے۔البتہ بعض اداروں نے ٹرمپ کی چاپلوسی اور خوشنودی کےلئے اس کی کوریج بڑھا دی ہے۔عجیب واقعہ ہے کہ سب سے پہلے حکومت پاکستان نے ٹرمپ کو نوبل،امن انعام کےلئے نامزد کر دیا۔ اس کے بعد ہزاروں بے گناہوں، عورتوں اور بچوں کے قاتل نیتن یاہو نے بھی نوبل کمیٹی سے سفارش کی ہے کہ صدر ٹرمپ کو نوبل انعام دیا جائے۔فلسطین میں جو نسل کشی ہو رہی ہے اس میں صدر ٹرمپ برابر کے شریک ہیں۔وہ چاہتے تو اسرائیلی وزیراعظم کے مظالم کو روک سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایران اور یمن پر بمباری کر کے سینکڑوں لوگ مار دئیے۔کیا ایسے شخص کو کبھی نوبل انعام مل سکتا ہے؟۔صدر ٹرمپ اور اسرائیل کا مشترکہ مفاد یہی ہے کہ غزہ خالی ہو جائے اور امریکہ اس کا قبضہ لے لے۔
کاغذوں کی حد تک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ انڈیا ہے لیکن وہاں کا میڈیا بھی مودی کی قید میں ہے حالیہ برسوں میں مودی نے اپنے پارٹنر اور ملک کے سب سے بڑے دولت مند اڈانی کو آمادہ کیا کہ وہ متعدد چینل اور میڈیا ہاﺅسز خریدے چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا بھارتی میڈیا مودی کی کمزورشخصیت اس کا کمتر وضع قطع اور مخروطی داڑھی کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا ہے۔پاکستان کے خلاف مہم جوئی میں ناکامی کے بعد مودی نے برما میں پناہ گزین آسام کی آزادی کی تحریک کے لیڈروں کو گھس کر ڈرونز کے ذریعے مارا یہ ڈرون اسرائیل کے فراہم کردہ ہیں۔مودی اتنے گئے گزرے ہیں کہ برما جیسے غریب اور جرنیل زدہ ملک پر حملے کر رہے ہیں۔ایک ملک بنگلہ دیش ہے آج کل وہاں پر سخت سنسرشپ نافذ ہے وہاں کے طاقت ور جرنیل معلوم نہیں کہ کونسا نظام لانا چاہتے ہیں گو وہ چاہتے ہیں کہ صدارتی نظام نافذ ہو جائے جو پہلے بھی نافذ رہا ہے۔اس کے پاس سیاسی طاقت نہیں ہے اس لئے وہ ایک عدد مسلم لیگ ق کی تلاش میں ہے تاکہ اس کے ذریعے وہ اپنے عزائم کی تکمیل کر سکیں۔ بنگلہ دیش میں سنسرشپ حسینہ واجد کے دور میں بھی نافذ تھی لیکن اب تو بات حد سے گزر چکی ہے۔ پاکستان کے پڑوس میں واقع ملک ایران میں تو ملا صاحبان کے انقلاب کے بعد سے مسلسل سنسرشپ نافذ ہے اور وہاں پر مخالفانہ یا آزادانہ رائے کو فوری طور پر کچلنے کا سسٹم نافذ ہے ایک پڑوسی ملک افغانستان ہے وہاں تو آزاد میڈیا کا تصور تک نہیں ہے اسی طرح روس اور مائی باپ چین میں سرکاری میڈیا کے علاوہ اور کوئی میڈیا وجود نہیں رکھتا۔خوش قسمتی سے پاکستان بھی ان ممالک کا ہم پلہ ہوگیا ہے۔بظاہر پاکستان کا ہائبرڈ نظام خواجہ آصف کے بقول کامیابی سے کام کر رہا ہے اس کے باوجود ریاست میں جو سیاسی استحکام ہونا چاہیے وہ نہیں ہے۔اس کی ایک وجہ تو تحریک انصاف ہے لیکن اس جماعت کے سارے لیڈر درپردہ سسٹم سے ملے ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے قائد عمران خان سے شدید بے وفائی کا ارتکاب کرتے ہوئے طرح طرح کی ڈرامہ بازی شروع کر رکھی ہے۔ پارٹی لیڈر عمران خان کی طرف سے دباﺅ آنے پر تحریک چلانے کا ٹوپی ڈرامہ کرتے رہتے ہیں حالیہ تحریک بھی اسی طرح کا ٹوپی ڈرامہ معلوم ہوتا ہے عمران خان عدالتوں سے سزا یافتہ ہیں انہیں معمولی ایجی ٹیشن کے ذریعے کیسے رہائی مل سکتی ہے؟۔پہلے امید تھی کہ ٹرمپ صدر بننے کے بعد ان کی رہائی کو ممکن بنائیں گے لیکن ٹرمپ تو نرے ساہوکار ہیں وہ کرپٹو کرنسی اور رئیر ارتھ منرل کے لالچ میں آگئے پھر مشرق وسطیٰ کی صورتحال کی وجہ سے پاکستان کو ساتھ رکھنا ضروری ہے۔لہٰذا عمران خان کے بارے میں وہ خاموش ہیں یا انہیں بھول چکے ہیں۔اگر کوئی ڈیل نہ ہوئی تو 9 مئی کے واقعات کے جرم میں عمران خان کا ملٹری ٹرائل شروع ہو گا اور انہیں لمبی سزا کا امکان ہے۔انکی رہائی ایک ملک گیر تحریک اور ایجی ٹیشن کے بغیر ناممکن ہے۔ یہ جو علی امین گنڈاپور اور دوسرے لیڈر بڑھکیں مار رہے ہیں یہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش ہے اوپر سے تحریک انصاف میں شدید اختلافات ہیں۔علی امین گنڈاپور کسی قیمت پر کرسی چھوڑنا نہیں چاہتے اسی لئے ان کا تختہ الٹنے کے لئے مولانا سرگرم ہیں تاہم جس دن زرداری ان سے گئے تو پیش رفت ہو سکتی ہے ورنہ کے پی کا موجودہ سیٹ اپ چلتا رہے گاگورننس تو وہاں ہے نہیں حکومت صرف سرکاری ملازمین اور اداروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے۔وہاں پر امن لانا مشکل ہے اس کے لئے حکومت کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے اگر وزیراعلیٰ تبدیل ہوئے تو بھی حالات جوں کے توں رہے ہیں کوئی بہتری نہیں آئےگی۔گزشتہ دنوں درباری صحافیوں کے ذریعے یہ شوشہ چھوڑا گیا تھا کہ زرداری کو صدارت کے منصب سے ہٹایا جا رہا ہے یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ 1973ءکے آئین کا بنیادی ڈھانچہ بدل کرریاست میں صدارتی نظام لایا جائے گا یہ شوشہ جان بوجھ کر چھوڑا گیا تھا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔ حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ عوام اس وقت بددل مایوس اور ہر طرح کے معاملات سے لاتعلق ہوچکے ہیں ان کی بلا سے کہ کونسا نظام لایا جائے گا وہ اپنے مسائل میں گرفتار ہیں جو دو نمبر اشرافیہ مسلط ہے اس نے اپنے کلاس کے لئے بے شمار مراعات اور رعایتیں رکھی ہیں جبکہ سارا بوجھ غریب آدمی پر ڈال دیا ہے ٹیکسوں کی بھرمار اوپر سے مہنگائی کا بوجھ بھی غریب طبقے پر ڈالا جا رہا ہے۔جو شوشہ چھوڑا گیا تھا وہ دراصل بعض خواہشات اور عزائم کا آئینہ دار تھا کیونکہ اصل حکمران ریاست کا نظام بدلنا چاہتے ہیں وہ ایوب خان ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے تجربات کو یکجا کر کے کوئی نظام لانا چاہتے ہیں یہ تبصرے بھی دیکھنے کو ملے کہ ایوب خان کی طرح بی ڈی ممبر منتخب کر کے ان کے ذریعے صدر کا انتخاب کیا جائے گا لیکن زمینی حقائق کے مطابق ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔اگر1973ءکے آئین کو چھیڑا گیا یا اس کا بنیادی ڈھانچہ کو تبدیل کیا گیا تو ایسا آئینی بحران آئے گا کہ اسے کوئی بھی سنبھال نہیں سکے گا۔داخلی حالات دگردوں ہو جائیں گے صوبے اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گے اور فیڈریشن مضبوط مرکز کا روپ تو دھارے گا لیکن حقیقت میں مرکز مضبوط نہیں کمزور ہو جائے گا اور بحران در بحران پیدا ہو جائینگے۔بہتر حل یہی ہے کہ آئین کو نہ چھیڑا جائے۔صدارتی نظام کے تباہ کن تجربے سے گریز کیا جائے۔واحد حل یہی ہے کہ آزادانہ انتخابات کروا کر ان میں کوئی مداخلت نہ کی جائے جو جماعت جیتے اسے اپنی حکومت بنانےکی اجازت دی جائے۔اگر ن لیگ اپنی غلط اقدامات کی وجہ سے اپنا وجود برقراہ نہیں رکھ سکتی تو اسے زبردستی مسلط کرنےکی کیا ضرورت ہے۔یہی حال پیپلزپارٹی کا ہے لیکن سندھ میں فی الحال اس کا کوئی متبادل نہیں ہے اس لئے یہ چلتی رہے گی۔


