شرافت اور ریاست کا تقاضہ

تحریر: انور ساجدی
تادم تحریر گوادرپورٹ شدید ناکامی کا شکار ہے جبکہ گوادر ائیرپورٹ اس سے بھی زیادہ ناکامی کا سامنا کر رہا ہے ان دو میگا پروجیکٹس کے ڈوبنے سے بلوچستان کے ترقیاتی خواب وخیال کو شدید دھچکا پہنچا ہے یہ تو معلوم نہیں کہ مستقبل قریب میں گوادر پورٹ کے لئے منصوبہ سازوں نے کیا سوچا ہے لیکن پورٹ قاسم کے بارے میں جو سنا جا رہا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ منصوبہ ساز خود بھی گوادر پورٹ کے بارے میں مایوسی کا شکار ہیں گوادر کے دونوں بڑے منصوبوں کی ناکامی کا سہرا سی پیک کے انچارج وزیر اور پاکستان کی منصوبہ بندی کے ذمہ دار رانا احسن اقبال ہیں۔وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گوادر کو شارٹ کٹ کے ذریعے نہ تو بلوچستان سے لنک کیا اور نہ ہی ضروری شاہراہیں اور موٹروے بنا کر اسے وسط ایشیا سے ملایا۔اس حوالے سے احسن اقبال کا کردار مشکوک نظرآتا ہے کیا سوچ کر گوادر ائیرپورٹ بنایا گیا جو اس خطے کا گھوسٹ ائیرپورٹ بن گیا ہے یہ تعمیر کے بعد ابھی تک آپریٹ نہ ہوسکا۔اگر ریکوڈک کا منصوبہ چل نکلا تو اس کا خام مال گوادر کے بجائے پورٹ قاسم کے ذریعے باہر جائے گا کچھ عرصہ میں ایک معاہدے کو حتمی شکل دی جا رہی ہے بلوچ ساحل پر واقع دوسرا پورٹ چاہ بہار بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا اب جبکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان کے راستے بند ہو چکا ے تو امکان پیدا ہوگیا ہے کہ چاہ بہار چل نکلے۔ایرانی حکومت کا اپنا یہ عالم ہے کہ جدید ترین مہلک ہتھیار تو بنا رہا ہے لیکن تہران کو پانی کی فراہمی سے قاصر ہے یہی وجہ ہے کہ حکام نے کہا ہے کہ اگر بارش نہ ہوئی تو تہران کو خالی کرنا پڑ سکتا ہے یعنی یہ شہر متروک ہوگا جیسے کہ چین کے دارالحکومت بیجنگ کے قریب واقع شہر متروکہ ہے۔قاچاز مین لینڈ کی تباہی کے بعد ایران نے ملک کا دارالحکومت تہران سے ساحل بلوچستان پر منتقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے ایران کو دو فوائد ہوں گے ایک تو آبادی توازن یعنی ڈیموگرافک تبدیلی فوری طورپر وقوع پذیر ہو جائے گی دوئم یہ کہ بلوچستان کے پوشیدہ وسائل زیادہ تیزی کے ساتھ روبہ عمل لائیں گے۔ایران ایک بڑے رقبے کا ملک ہے لیکن اس کے غیراستعمال شدہ درجنوں وسائل بلوچستان کی سرزمین کے اندر ہیں۔اسے خدشہ ہے کہ آئندہ ایک عشرے میں جب توانائی کے لئے تیل کی ضرورت کم ہو جائے گی تو اتنی بڑی ریاست اور اس کی آبادی کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا تاوقتیکہ بلوچستان کے وسائل کو استعمال میں لایا جائے چاہے یہ رئیر ودھ منرلز ہوں سونے اور تانبے کے ذخائر یا سمندری وسائل ہوں اس ریاست کا مستقبل بلوچستان سے وابستہ ہے۔اگرچہ ایران کے مقابلے میں پاکستان بہتر پوزیشن میں ہے لیکن اس کی ریاست اور معیشت کا انحصار بھی بلوچستان پر موقوف ہے۔ریکوڈک سے لے کر راسکوہ کے دور دور تک کے علاقوں میں سونے اور تانبے کے جو ذخائر ہیں اگر یہ بروئے کار نہ لائے گئے تو پاکستان کی اتنی بڑی آبادی کو ہینڈل کرنا ناممکن ہے۔اسی طرح ضلع واشک کے وسیع علاقے میں جو 8نایاب دھاتیں ہیں وہ اس ریاست کو سو سال چلانے کے لئے کافی ہیں اس کے ساتھ ہی سیندک اور چاغی کے دیگر علاقوں میں نایاب دھاتوں کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جبکہ پختون علاقہ میں پشین سے ژوب تک کئی اقسام کی نایاب معدنیات موجود ہیں اس علاقے سے ذرا دور وزیرستان میں بھی انہی معدنیات کا سلسلہ موجود ہے۔پاکستان چونکہ ایک سیکورٹی اور ہارڈ اسٹیٹ بن چکا ہے اس لئے یہ امکان کم ہے کہ وہ ہیومن ڈویلپمنٹ کے ذریعے ترقی کر سکے اس لئے اسے صرف قدرتی وسائل کی فروخت پر انحصار کرنا پڑے گا چنانچہ ریاست کو گوادر پورٹ ائیرپورٹ یا میرانی ڈیم کی ناکامی کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے سی پیک کی ناکامی کی فکر ہے عالمی ماہرین نے جو سروے کیا ہے اس کے مطابق صرف ریکوڈک کا منصوبہ پاکستان کی کئی سو سالوں تک معاشی ضروریات کے لئے کافی ہے اگرچہ ریکوڈک کی مالک کمپنی بیرک گولڈ پینترے بدل رہی ہے اور عالمی اداروں سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مطلوب سرمایہ حاصل ہونے کے بعد وہ حکومت پاکستان سے اپنے حصے کا سرمایہ طلب کرسکے۔عین ممکن ہے کہ وہ اس کے بدلے مزید رعایت اور مراعات اصل کرے فی الحال بیرک گولڈ کی توجہ امریکی اور مغربی مالیاتی اداروں پر ہے جہاں سے اسے پہلے مرحلے کے لئے 5 ارب ڈالر ملنے کا آغاز ہوگیا ہے کل کلاں جب وفاق بلوچستان سے کہے گا کہ وہ اپنے حصے کی سرمایہ کاری لائے تو اس کے پاس کچھ ہوگا ہی نہیں چنانچہ اس بہانے بلوچستان کا حصہ وفاق کو مل جائے گا اور کوئی کچھ نہیں کہے گا جس طرح پی پی ایل نے گیس کے حقوق پر ناجائز قبضہ کیا اور گزشتہ واجبات ہڑپ کرگیا کسی نے کیا اعتراض کرنا تھا اور کیا کہنا تھا کہنے کو آف شور ڈرلنگ وفاق کا حق ہے پھر بھی اس بارے میں سندھ سے اجازت لی جاتی ہے لیکن بلوچستان کے ساحل پر جن مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے شک یہی ہے کہ بلوچستان کی حکومت سے پوچھا تک نہیں گیا ہوگا بلوچستان جس طرح سے جامد ہے ایسا لگتا ہے کہ وفاق کو یہی صورت مناسب لگتی ہے کیونکہ اس صوبے کی ترقی کے لئے وسائل دستیاب نہیں ہیں اگر این ایف سی میں کٹوتی ہوئی تو تاج جمالی کے دور کی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لئے ہر ماہ وفاق سے رجوع کرناپڑے گا کوئی مانے یا نہ مانے بلوچستان آئین کے مطابق ایک وفاقی اکائی ہے لیکن عملاً یہ وفاقی علاقہ ہے اس کی جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے یہ ایک سیکورٹی زون ہے اس کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں اس لئے مخصوص صورتحال کے پیش نظر یہاں پر نقل و حمل آمدورفت اور زندگی کی دیگر سرگرمیاں نارمل نہیں ہوسکتیں عالمی حالات کے علاوہ اس کے اندر جو کشمکش ہے اس نے معاملات کو مزید جامد اور منجمد کر دیا ہے وفاق اس لئے مطمئن ہے کہ اس نے کوسٹل پٹی کے اہم ترین مقامات اپنے تصرف میں لے لئے ہیں مکران کا ساحل ہو افغانستان یا ایرانی کی سرحدی پٹی ہو ناگزیر ریاستی ضروریات کے پیش نظر وفاق وسائل کو اپنے تصرف میں لا سکتا ہے۔اس لئے یہ سوچنا کہ بلوچستان معاشی معاشرتی سماجی اور معاشی طور پر ترقی کرے گا خام خیالی ہے قومی ضرورت یہی ہے کہ یہ علاقہ اسی طرح رہے جو شورشیں برپا ہیں وہ اس سے آگے نہ بڑھ سکیں اور ادارے موجود رہیں۔یہ قومی ضرورت تھی کہ نواب بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان کو سیاست کے لئے ممنوعہ علاقہ قرار دیا گیا ہے یہاں آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیاں مفقود اور محدود ہیں سیاسی جماعتوں کا وجود برائے نام رہ گیا ہے جو جماعتیں کام کر رہی ہیں وہ محض ریاست کی سہولت کاری کا فریضہ انجام دے رہی ہیں انہیں جو ترقیاتی فنڈز مال رہے ہیں وہ این جی اوز کی حیثیت سے دئیے جا رہے ہیں۔بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے غیر فعال اور غیر موثر ہیں صحافت ننگ دین اور ننگ وطن بن گئی ہے سیاست دان گماشتے کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ صحافی پی آر او سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔بلوچستان اسمبلی نے جو قانون سازی کی ہے اس پر محض مہر تصدیق ثبت کی گئی ہے لہٰذا جو لوگ ان حالات کا شکوہ کرتے ہیں یا حکام بالا سے گلہ مند ہیں یہ پریکٹس بے کار ہے حالات ایسے ہی چلتے رہیں گے بلوچستان تو دور کی بات اب تو سارے ملک میں انتخابات مذاق بن کر رہ گئے ہیں حالیہ ضمنی انتخابات میں اصل ٹرن آﺅٹ محض 10فیصد تھا جسے20فیصد کر دیا گیا ان انتخابات کو ایسے نبھایا گیا کہ بس ن لیگ کو فاتح قرار دیا گیا حتیٰ کہ ہری پور کی سیٹ بھی دے دی گئی جہاں مسلم لیگ ن بہت کمزور پوزیشن میں تھی چنانچہ اگر آئندہ بھی عام انتخابات بھی ہوئے تو اسی نوعیت کے ہوں گے کیونکہ حکمران اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ مخالف یا توانا آوازیں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں جائیں یعنی انتخابات کا جو ماڈل بلوچستان میں ہے وہ پورے ملک میں رائج ہو جائے گا۔سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کو شمالی کوریا، روس اور چین کی طرح کنٹرول کیا جائے گا وقت زیادہ دور نہیں بعض پاگل صحافیوں اوروی لاگرز پر پیکا ایکٹ اور دیگر قوانین کے تحت مقدمات قائم کئے جائیں گے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران خان ابھی تک حوصلے کے ساتھ جیل برداشت کر رہے ہیں اوروہ معافی مانگنے پر آمادہ نہیں ہیں اگر انہوں نے اپنا وطیرہ ترک نہیں کیا تو تحریک انصاف کے حصے بخرے کر دئیے جائیں گے اور عمران خان کو نشان عبرت بنانے کے لئے سخت سزائیں سنائی جائیں گی۔شہبازشریف اور زرداری کے متبادل تلاش کر لئے گئے ہیں ان کی طبیعت درست کرنے کے لئے ہوش ربا معلومات پر مبنی فائل ورک مکمل کر لیا گیا ہے حالیہ ضمنی انتخابات میں 5نشستیں ن لیگ کو دے کر بلاول کی وزارت عظمیٰ کا خواب چکنا چور کر دیا گیا ہے جو لوگ بلوچستان میں تبدیلی کا مطابہ کر رہے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہاں پر کوئی بھی آئے وہ مقررہ ڈگر پر چلے گا یعنی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اگر پیپلزپارٹی نے وزیراعلیٰ تبدیل کیا تو جناب علی حسن زہری تیار بیٹھے ہیں۔ظہور بلیدی اور صادق عمرانی دیکھتے ہی رہ جائیں گے البتہ کے پی کے میں سہیل آفریدی کو راہ راست پر لایا جائے گا چونکہ اسٹیٹ نے مزید ہارڈ بننا ہے تو معاشرے کے دیگر طبقات کو لچک پیدا کرنا ہوگی اور سب کچھ سہنا ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں