بت سازی

تحریر: انور ساجدی

مریم نواز اور ذوالفقارعلی بھٹو کا کوئی تقابل نہیں لیکن پاکستان کی”موروثی کلٹ“ سیاست میں ن لیگی حلقہ بی بی مریم کو اپنی لیڈر اوتار اور نہ جانے کیا کچھ مانتا ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ کیحیثیت سے وہ جو کاسمیٹک اقدامات اٹھارہی ہیں وہ اس بات کا غماز ہے کہ محترمہ آئندہ دور میں ملک کی وزیراعظم کی امیدوارہیں۔تین دن ہوئے انہوں نے اپنی ذاتی پبلسٹی اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے بارے میں ایک بہت بڑا سپلیمنٹ جاری کیا جو پنجاب کے کارپوریٹ اخبارات میں شائع ہوا۔ان کارپوریٹ اخبارات جو خود کوقومی پریس کہتا ہے اور حکومت اس کلیم کو من و عن تسلیم کرتی ہے حالانکہ فی زمانہ صورتحال بدل گئی ہے ۔خبروں کے ذرائع تمام اخبارات کے لئے یکساں ہوگئے ہیں نہ کوئی چھوٹا رہا نہ بڑا۔پرنٹ میڈیا شدید زوال سے دوچارہے جبکہ صوبوں سے شائع ہونے والے اخبارات آئی سی یو میں ہیں۔سینکڑوں بند ہو چکے ہیں اور مزید سینکڑوں بند ہونے والے ہیں۔ان ناگفتہ بہ حالات میں حکومت پنجاب کی جانب سے کروڑوں یا اربوں روپے کے اشتہارات جاری کرنا دراصل پنجاب کے پرنٹ میڈیا کو سہارا دینا ہے جبکہ وزیراعلیٰ کی شخصیت ان کی صلاحیتوں صوبے میں ہونے والی ترقی کو اجاگر کر کے مریم نواز کی شخصیت سازی کرنی ہے تاکہ وہ ریاست کی قومی رہنما کے طورپر ابھرے لیکن ماضی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسی پبلسٹی کے انتہائی منفی نتائج دیکھنے کو ملتے ہیں۔مثال کے طورپر 1977کے متنازعہ الیکشن سے قبل جب بھٹوکی مقبولیت عروج پر تھی انتخابی مہم کے آغاز پر مرکزی حکومت کے محکمہ پی آئی ڈی نے اخبارات کو بھٹو صاحب کی ایک بہت بڑی تصویرجاری کر دی اور حکم دیا کہ اس تصویر کو درجہ ذیل عنوان کے ساتھ شائع کیا جائے۔
عظیم لیڈر….سپریم لیڈر….غیر متنازعہ لیڈر
تصویرکی اشاعت کے بعد اس کے تباہ کن اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے جن لوگوں نے بھٹوصاحب کو اپنی ”چیپ“ اور غیر ضروری تشہیر کا مشورہ دیا تھا وہ بظاہر اس کے قریبی ساتھی تھے لیکن اندر سے دشمن تھے۔انتخابی مہم شروع ہوئی اپوزیشن نے پی این اے بنا کر بھٹوکے مقابلے کا فیصلہ کیا حالانکہ کوئی مقابلہ تھا ہی نہیں لیکن بھٹو کے ساتھیوں نے ایک اور تباہ کن مشورہ دیا وہ یہ تھا کہ آپ جہاں جہاں کھڑے ہیں وہاں سے آپ کا بلامقابلہ انتخاب ضروری ہے ان کے آبائی حلقہ لاڑکانہ سے جماعت اسلامی کے غیر معروف امیدوار جان محمد عباسی نے کاغذات داخل کروانے کی کوشش کی لیکن ڈپٹی کمشنر نے رات کو انہیں اٹھا لیا تاکہ وہ کاغذات داخل نہ کروا سکیں اوربھٹو صاحب کا بلامقابلہ انتخاب یقینی ہو چنانچہ ایسا ہوا لیکن پی این اے نے ایسی مہم چلائی کہ سارا الیکشن متنازعہ ہوگیا۔انتخابات دو مرحلے میں ہونے تھے ۔ پی این اے نے پہلے مرحلے میں حصہ لیا لیکن شدید دھاندلی کا الزام لگا کر دوسرے مرحلے کا بائیکاٹ کر دیا جس کے بعد ایک عوامی تحریک کا آغاز کیا۔نصف صدی بعد جو ریسرچ ہوئی ہے اس کے مطابق اس تحریک کو امریکہ اور پاکستانی آرمی چیف جنرل ضیاءالحق کی حمایت حاصل تھی۔بہرحال پی این اے کی تحریک کا نتیجہ5جولائی1977 کے مارشل لاءاور 4اپریل 1979 کو بھٹوکی پھانسی کی صورت میں نکلا۔ضیاءالحق11سال تک اقتدارپرقابض ر ہے اور پی این اے کی جماعتیں بھی کمزور ہوگئیں۔بھٹو کے زوال کا فائدہ سراسر سب سے بڑے صوبے پنجاب کوہوا۔ضیاءالحق نے پیپلزپارٹی کو ہمیشہ کے لئے پنجاب سے دیس نکالا دیا اور ایک نئی قیادت کی تراش خراش شروع کر دی۔ان کی نگاہ انتخاب میاں محمد نوازشریف پر پڑی جس کے والد میاں محمد شریف کا شمار بھٹو کے بدترین دشمنوں میں ہوتا تھا۔ غالباً1982 میں وہ گورنر جیلانی کی کابینہ میں شامل ہوئے ان کی کردار سازی کی گئی تاوقتیکہ 1985 کے غیر جماعتی الیکشن کے نتیجے میں ضیاءالحق نے انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ مقرر کر دیا بعد ازاں جب مسلم لیگ جونیجو لیگ بنائی گئی تو نوازشریف اس کے بڑے لیڈر بن گئے تاہم1988 میں جب ضیاءالحق نے اپنے مقرر کردہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کوبرطرف کردیا تو نوازشریف نے لیڈر کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے اصل روحانی قائد جنرل ضیاءالحق کا ساتھ دیا۔17اگست1988 کوجب ضیاءالحق طیارے کے حادثہ میں فوت ہوگئے تو پنجاب کی بیورو کریسی اور اداروں نے اپنے تئیں ضیاءالحق کا جانشین مقرر کر دیا۔اس زمانے میں نوازشریف کی ساری سیاست بھٹو دشمنی بے نظیر کی مخالفت اور ان کی کردار کشی کے گرد گھومتی تھی۔کچھ ہی عرصہ بعد جب صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر کو برطرف کر دیا تو بھٹو مخالفین نے مرحوم غلام مصطفیٰ جتوئی کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا چند سال بعد آئی ایس آئی کے سربراہ حمید گل نے اعتراف کیا تھا کہ یہ اتحاد انہوں نے بنوایا تھا تاکہ پیپلزپارٹی کا راستہ روکا جاسکے۔1990ءکے جھرلو انتخابات جتوئی صاحب کی قیادت میں لڑے گئے لیکن اسلامی جمہوری اتحاد کی کامیابی کے بعد اسحاق خان اور اسٹیبلشمنٹ نے جتوئی کے بجائے نوازشریف کو وزیراعظم بنا دیا۔اس طرح پنجاب کو اس کا پہلا ”آدی واسی“ یعنی مقامی وزیراعظم مل گیا لیکن جلد نوازشریف کی اعلیٰ حکمرانوں سے نہ بنی جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔
1996میں ایک بار پھر اعلیٰ اداروں نے نوازشریف کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا جس کے لئے1997 کے عام انتخابات میں بدترین دھاندلی کی گئی اور نتیجے میں نوازشریف ایک بار پھر وزیراعظم بن گئے۔اس دور میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ 28مئی1998 کو بلوچستان میں ایٹمی دھماکے قرار پائے۔حالانکہ انہوں نے دھماکے کر کے بلوچستان کی”درناسفتہ“ سرزمین کو مستقل ایٹمی تجربہ گاہ میں تبدیل کر دیا تاہم ایک سال بعد کارگل کی جنگ کی وجہ سے انہیں نہ صرف اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر کے ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا۔دسمبر1999 میں سعودی مداخلت کی وجہ سے شریف خاندان جدہ جلا وطن ہوگیا اور مشرف نے ان سے ایک لمبے چوڑے معافی نامے پر دستخط کروائے۔ نوازشریف کے بعد بے نظیر کو بھی جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔اس کی وجہ جام صادق علی کے ہاتھوں سردارشوکت حیات کی بیٹی دینا حیات کی بے حرمتی تھی جب مشرف ناکام ہوئے تو امریکہ نے مداخلت کر دی اور زور دیا کہ بے نظیر کو واپس آنے دیا جائے۔اسی دوران بے نظیر اورنوازشریف کے درمیان میثاق جمہوریت کا معاہدہ ہوا جس میں طے کیا گیا کہ وہ آئندہ کسی آمر کا ساتھ نہیں دیں گے۔ امریکی دباﺅ کی وجہ سے مشرف نے بے نظیر کو واپس آنے کی اجازت دی لیکن18اپریل2007 کوان کے قافلے پر کارسازکے قریب ہولناک حملہ ہوا۔بے نظیر بال بال بچ گئیں اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ سیاسی کارکن اس دھماکے میں ہلاک ہوگئے۔بے نظیر کو ایک جیالے کارکن نے بچا کر بلاول ہاﺅس پہنچایا۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ شخص عبدالرحمن بلوچ تھا۔اس حملہ کے باوجود بے نظیر نے دسمبر میں راولپنڈی کے کمپنی باغ میں جلسہ کیاجس میں وہ مشترکہ دشمنوں کی کارروائی میں شہید ہوگئیں۔اس سانحہ کا فوری فائدہ تو آصف علی زرداری کوہوا لیکن اس کے بعد اس کے مستقل بینیفشری میاں نوازشریف ٹھہرے۔2013 کووہ تیسری بار وزیراعظم بن گئے لیکن فوج سے ناچاقی کی وجہ سے اسیبلشمنٹ نے عمران خان کا انتخاب کیا اور2014 میں ان کے ذریعے ڈی چوک اسلام آباد میں طویل دھرنا دلوایا۔اگرچہ یہ دھرنا کامیاب نہ ہو سکا تاہم عمران خان نئے انتخاب تھے انہیں2018 کے انتخابات میں کامیابی دلوا کروزیراعظم بنوایا گیا۔اس سے قبل نوازشریف پر پاناما اسکینڈل کے تحت مقدمہ چلایا گیا تاکہ عمران خان کے لئے راستہ صاف ہوسکے۔نوازشریف کوقید کی سزا ہوئی لیکن حسب سابق وہ جیل کی صعوبتیں برداشت نہ کر سکے اور جنرل باجوہ کو توسیع کی حامی بھرنے کے بعد وہ لندن جانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے پلیٹ لیٹس کا مسئلہ جنرل باجوہ نے پیدا کیا تھا تاکہ وہ باہر جا سکیں وہ کافی عرصہ وہاں پر رہے اور ان کی بیماری کا ڈرامہ جھوٹ نکلا۔اس دوران ان کے کامیاب مذاکرات ہوئے اور28فروری2024ءکے انتخابات میں ن لیگ کو بدترین شکست کے باوجود کامیاب قرار دیا گیا۔تمام اندازوں کے مطابق تحریک انصاف نے یہ الیکشن جیتے تھے۔ن لیگ کی کامیابی کے بعد یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ میاں نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم بن جائیں گے لیکن آٰصف علی زرداری نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔انہوں نے2022 میں عمران خان کے خلاف عدم اتحاد کی تحریک کی کامیابی کے بعد شہبازشریف کو باور کروایا تھا کہ اگروہ وزیراعظم نہ بنے تو پھر کبھی نہیں بن سکیں گے۔ چنانچہ وہ 16 ماہ عبوری وزیراعظم رہے جبکہ عام انتخابات کے بعد جب نوازشریف کو پتہ چلا کہ وہ مانسہرہ اور لاہور کے حلقہ سے بری طرح ناکام ہوئے ہیں تو وہ چوتھی بار وزیراعظم بننے سے دستبردار ہوگئے جس کے بعد شہبازشریف وزیراعظم بن گئے جبکہ نوازشریف نے اپنی ساری توانائیاں اپنی بیٹی مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے پر صرف کر دی اورکامیاب رہے۔
مریم نواز شریف کی جانشین ہیں اور نوازشریف کی کوشش ہوگی کہ اگلی باروہ ملک کی وزیراعظم بن جائیں۔یہ تو معلوم نہیں کہ چار سال بعد کیا ہوگا اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کیا فیصلہ کرے گی لیکن سردست مریم بھرپور کوشش کررہی ہیں کہ وہ ایک کامیاب وزیراعلیٰ کے طورپر مستحکم ہو جائیں جس کے بعد ان کا ہدف آسان ہو جائے گا لیکن ان کے اردگرد مصاحبین اور خدمت گزاروں کا جو حلقہ ہے وہ انہیں عامیانہ مشورے دیتا ہے۔بجائے کہ وہ حقیقی کام کریں انہیں ایسے اقدامات پرمجبور کیا جارہا ہے جن سے ن لیگ کا کلٹ ان کا ساتھ نہ چھوڑے لیکن ایک سال کی کاوشوں کے باوجود پنجاب میں ن لیگ کو تحریک انصاف سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔پنجاب کا بہت بڑا بجٹ ہے جس کے ذریعے وہ اپنے چچا کی طرح طاہری شان و شوکت کے منصوبے بنا کر پیش کر سکتی ہیں لیکن لاہور کو بارش کے پانی میں ڈوبنے سے نہیں بچا سکتیں۔مریم کے ارد گرد ذاتی خادماﺅںکی ایک بڑی تعداد جمع ہے جو اہم عہدوںپر قابض ہے۔جس کا ریکارڈ غیر شفاف ہے۔دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔
اس ریاست میں مستقبل کے بارے میں پیشگوئی کرنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔البتہ یہ طے ہے کہ یہاں پر کبھی اصلی جمہوریت نہیں آئے گی۔ خودمختارپارلیمنٹ کا قیام ہمیشہ خواب رہے گا۔انصاف بدستور مفقود رہے گا اور آئین کی بالادستی شاید ہی قائم ہو۔چنانچہ یہ ریاست اسی طرح چلتی رہے گی۔عوام اسی طرح زندہ درگور رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں