سچ کا آئینہ اور سونے کی چڑیا
انور ساجدی
بحریہ ٹاؤن کراچی کا اجمالی جائزہ کا موقع ملا، جب آپ داخل ہوتے ہیں تو مسحور کن نظر آتا ہے لیکن حقائق کے مطابق کاروباری اعتبار سے یہ تقریباً ڈوب چکا ہے۔شاندار اور معیاری شاہراہوں پر بڑی بڑی بلڈنگز نظر آتی ہیں۔ یہ بلڈنگز ان پرائیویٹ بلڈرز نے بنائی ہیں جنہیں بحریہ ٹاؤن نے زمین دی ہے لیکن بوجوہ یہ عمارتیں خالی ہیں اور بعض بلڈرز دیوالیہ ہو کر رفوچکر ہو چکے ہیں اگر ان گھوسٹ عمارتوں کو نہ سنبھالا گیا تو چند سالوں کے دوران یہ کھنڈرات کا منظر پیش کریں گی۔البتہ مکانات ایک حد تک آباد ہیں اور لوگ رہائش پذیر ہیں کچھ عرصہ قبل تک کرایہ دار بھی یہاں مقیم تھے لیکن وہ حالیہ تنازعات کی وجہ سے چھوڑ کر جا رہے ہیں جب سے ملک ریاض بحران میں آئے ہیں بحریہ ٹاؤن کی آبادی کم ہو کر نصف رہ گئی ہے۔صرف وہ لوگ رہنے پر مجبور ہیں جنہوں نے مکانات خرید کر رکھے ہیں اور وہ اور کہیں جا نہیں سکتے جو انفرااسٹرکچر ہے وہ شاندار ہے سڑکیں شاہراہیں درخت پھول اور بوٹے آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں لیکن اتنے شاندار اسٹرکچر کے باوجود بحریہ ٹاؤن کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔اگر مسائل زیادہ ہوگئے تو ملک صاحب ان سینکڑوں لوگوں کو فارغ کر دیں گے جو اس وقت سارا نظام سنبھالے ہوئے ہیں جس کے بعد صفائی اور سہولتوں کا فقدان ہو جائے گا عین ممکن ہے کہ حکومت پانی اور بجلی بند کر دے کیونکہ بحریہ سرکاری پانی غیر قانونی طریقہ سے استعمال کررہی ہے جبکہ اس نے پانی کی قدرتی گزرگاہوں کا راستہ بند کر کے اپنے ذخائر بنائے ہیں۔اسی طرح وہ بجلی کے الیکٹرک سے لے رہا ہے اگر آبادی کم ہو جائے اور بجلی کا خرچ وارہ نہ کھائے تو وہاں پر لوڈشڈینگ کرنا پڑے گی۔حالیہ اقدامات کے بعد بحریہ کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے خریدار رخ نہیں کر رہے ہیں اور کچھ خریداروں نے قسطوں کی ادائیگی بند کر دی ہے۔اگر آپ بحریہ کے جدید شہر میں داخل ہو جائیں تو دو چیزیں نمایاں نظر آئیں گی۔ایک جامع مسجد اور دوسرا ملک ریاض کے صاحبزادہ علی ریاض کا غیر معمولی اور شاندار محل ۔یہ محل دیکھنے کو غضبناک لگتا ہے اور یروشلم کی مقدس پہاڑی”ہیمر ہیڈ“ کی یاد دلاتا ہے۔یہ مقدس پہاڑی آج کل اسرائیل کے قبضے میں ہے اور اس پر شاندار عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں جب آپ بحریہ کی اونچائی پر جائیں تو نیچے بلوچوں کی بستیاں نظر آتی ہیں جو ہر جدید سہولت سے محروم ہیں۔جب وہ بحریہ کی چکا چوند کرنے والی روشنیاں دیکھتے ہیں تو ان کی کم مائیگی اور محرومیوں کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔ان کے عزیزواقارب اور آباؤ اجداد کبھی اس جگہ آباد تھے۔جہاں آج بحریہ ٹاؤن آباد ہے۔اتنے لوگوں کو دربدر کرنے کا لازمی نتیجہ تو نکلنا تھا جو نکل رہا ہے۔
معلوم نہیں کہ زرداری نے کیا سوچ کر ملک ریاض کو کراچی بلایا تھا اور انہیں بحریہ ٹاؤن بنانے کی دعوت دی تھی۔اگر ان کی مرضی شامل نہ ہوتی تو ملیر ٹاؤن کی ساڑھے چھ ہزار ایکڑ زمین کیسے انہیں الاٹ ہو سکتی تھی اگر زرداری کی منشا نہ ہوتی تو ایس ایس پی راؤ انوار کیسے بستیوں پر بلڈوزر چھوڑتا اور غریب مکینوں پر ناجائزکیس بنا کر انہویں اپنی زمینیں ملک ریاض کے حوالے کرنے پر مجبور کرتا۔اگرچہ حکومت نے بظاہر ملک ریاض کا احتساب شروع کر دیا ہے لیکن کسی کو یقین نہیں کہ واقعی میں ملک ریاض کا احتساب ہوگا کیونکہ اس ملک کی تاریخ یہی ہے کہ آج تک بڑے بڑے مجرم کا احتساب بھی نہیں ہوا۔لوگوں کو ملک ریاض والا معاملہ آپس کی نورا کشتی اور لین دین کا شاخسانہ لگتا ہے۔ان کا خیال ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد مک مکاؤ ہو جائے گا اور ملک ریاض دوبارہ من پسند لوگوں کو بلا کر آباد کاری شروع کر دے گا۔اگرچہ زرداری نے کراچی میں ملک ریاض کی بہت زیادہ سہولت کاری کی ہے لیکن اس کا سب سے بڑا سہولت کار شریف خاندان رہا ہے۔ملک ریاض نے نوازشریف کے پہلے دور میں لاہور میں لال پری، راولپنڈی مری روڈ کی زمینوں پر قبضہ کیا تھا۔ا سوقت شریف خاندان اس کا سہولت کار تھا۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ سن2000میں جب شریف خاندان جدہ فرار ہوگیا تھا تو جنرل پرویز مشرف نے شخصی ضمانت مانگی تھی اس پر شہبازشریف نے اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو یہاں رکھنے کی ضمانت دی تھی۔حمزہ شہباز کے اخراجات اور رائے ونڈ محل اور محلقہ18سو ایکڑ کے سبزہ زار کے تمام اخراجات ملک ریاض ادا کرتے تھے۔2008 میں جب زرداری صدر بن گئے تو ملک ریاض ان کے قریب آئے اور یہ پارٹنرشپ اتنی بڑھی کہ ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن لاہور میں زرداری کو ایک محل بنا کر دیا جس کی وج ہسے زرداری کو طعنے سہنے پڑے ہیں۔جب عمران خان اقتدار میں آئے تو ملک ریاض ان کے قدموں میں بیٹھ کر بہت جلد انہیں شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہوگئے۔ہیروں جواہرات اور پھر اراضی کے بدلے انہوں نے عمران خان کو مسخر کرلیا۔یہ جو القادر یونیورسٹی عمران خان کے گلے پڑی ہے یہ ملک ریاض کی چالاکیوں کا نتیجہ ہے۔اگر دیکھا جائے تو شریف خاندان زرداری اور عمران خان ایک ہی پلڑے میں نظر آتے ہیںلالچ بری بلا ہے۔ملک ریاض نے اس کا شکار ہو کر اپنا مہنہ بھی کالا کر لیا اور بڑے لیڈروں کے منہ پر بھی کالک مل دی۔جب سپریم کورٹ نے عوام کی زمین ملک ریاض کو460 ارب کے بدلے بخش دی تو ملک ریاض نے گڈاپ سے پرے تھانہ بولا خان تک نظر مار لی جو50 کلو میٹر مزید دور ہے۔اگر وہاں تک ملک ریاض وہاں تک تعمیرات کرلے تو بحریہ ٹاؤن کی لمبائی ایک سو کلومیٹر ہو جائے گی۔دنیا کا کوئی بھی شہر اس پیمانے پر نہیں ہے۔اس لئے ملک ریاض کا لالچ مزید بڑھ گیا اور انہیں اربوں ڈالر نظر آئے۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ ایک انسان ہے اور ہر جاندار نے بالآخر فنا ہو جانا ہے۔اگر واقعی میں احتساب ہوگیا تو سب لپیٹ میں آ جائیں گے کراچی کے حوالے سے زرداری کا نام آئے گا۔پنجاب کے حوالے سے شریف خاندان کا نام آئے گا بلکہ سب سے زیادہ آئے گا یہ جو190 ملین پاؤنڈ کا کیس ہے یہ پیسے تو وہی تھے جو ملک ریاض نے میاں نوازشریف کے چھوٹے فرزند حسن نواز سے لندن والا فلیٹ خریدا تھا۔افسوس کہ اس میں عمران خان کو سزا ہوگئی لیکن حسن نواز کا کوئی نام بھی نہیں لے رہا ہے۔بحریہ ٹاؤن کی زمینوں پر قبضہ پر نیب نے ملک ریاض کے خلاف ریفرنس دائر کردیا ہے لیکن راؤ انوار کا کوئی نام نہیں لے رہا ہے۔دراصل ملک ریاض ریاست کا وہ چہرہ ہے جس نے بہت بلند جگہ پر آئینہ نصب کر دیا ہے۔جس میں اس کا اپنا منہ بنی کالا نظر آ رہا ہے اور دیگر بڑی بڑی شخصیات کے چہرے بھی واضح نظرآرہے ہیں۔اس ریاست کو جس طرح لوٹا گیا ہے عوام کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئی ہیں ملک ریاض اس کا آئفل ٹاور ہے اس پر کیس بنتا ہے کہ وہ دبئی کتنا سرمایہ لے کر گیا ہے کروڑوں ڈالریا اربوں ڈالر وہ اتنی بڑی رقم کیسے منی لانڈرنگ کا مرتکب ہوا۔کیا ادارے اس وقت اندھے تھے دبئی کا اصول ہے جو سرمایہ کار اگر پیشگی رقم جمع نہیں کرتا ہے تو وہ سرمایہ کاری نہیں کرسکتا۔ملک ریاض نے یقینی طورپر بہت بڑی رقم دکھائی ہوگی تک شیوخ صاحبان راضی ہوئے ہوں گے۔وہ وہاں پر بحریہ ٹاؤن قائم کرے۔اس وقت تو ملک ریاض شیر بنے ہوئے ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف گواہی نہیں دیں گے لیکن اگر حکومت ہوتی اور وہ سنجیدہ ہوتی تو اس کے اچھے بھی گواہی دیتے ملک ریاض کو آسرا ہے بہت جلد عمران خان دوبارہ اقتدار میں آئیں گے اور ان کا عروج دوبارہ شروع ہوگا لیکن یہ محض ایک خواب ہے عمران خان کو دوبارہ اقتدارمیں آنا اور ملک ریاض کا عروج طویل عرصے تک ممکنات میں سے نظر نہیں آتا۔ہاں ملک ریاض موجودہ صاحبان اقتدار سے ماضی کی طرح مک مکا کر کے اپنے خواب پورے کر سکتے ہیں لیکن بحریہ ٹاؤن کے وہ متاثرین جن سے پیسہ لے کر ملک ریاض نے واپس نہیں کیا نہ پلاٹ دئیے نہ مکان وہ ساری عمر خوار و زار ہوتے رہیں گے۔وہ اپنی جمع پونجی ہمیشہ کے لئے کھو چکے ہیں۔ملک ریاض کے لئے بحریہ ٹاؤن کراچی سونے کی چڑیا ثابت ہوا لیکن میں نے برسوں پہلے لکھا تھا کہ اس کا زوال بھی بحریہ ٹاؤن کراچی کے ذریعے ہی آئے گا فی الحال تو یہی سچ دکھائی دیتا ہے۔