بنگلہ دیش تباہی کے دہانے پر

انور ساجدی
بنگلہ دیش کو خوشحالی راس نہیں آئی یہ ملک تیزی کے ساتھ ڈوب رہا ہے۔اس کی سرحدوں پر چین،امریکہ اور داعش سرگرم ہیں اور بہت جلد برسر پیکار ہوں گے اگرچہ حسینہ واجد نے اپنے طویل اقتدار کے دوران آمرانہ روش اختیار کی مخالفین پر مظالم کے پہاڑ توڑے لیکن انہوں نے معیشت کو زیرو سے اٹھا کر کمال تک پہنچایا۔حسینہ واجد نے 1971 کی جنگ میں الشمس اور البدر کے ان تمام رہنماؤں اور کارکنوں کو تختہ دار پر لٹکا دیا جنہوں نے جنگ میں بنگالی عوام کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔ان میں90 سالہ بزرگ پروفیسر غلام اعظم بھی شامل تھے جو اس زمانے میں جماعت اسلامی کے مشرقی پاکستان کے امیر تھے۔
حسینہ نے اپنی سیاسی حریف اور سابقہ وزیراعظم خالدہ ضیاءاور ان کی جماعت پر بہت مظالم ڈھائے لیکن ان سے یہ قصور سرزد ہوا کہ انہوں نے اپنا ایک جزیرہ امریکاکے حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں مختلف گروہوں کو اکٹھا کیا گیا طلباءکی ایک نام نہاد تحریک منظم کی گئی پہلے سے فوج سے کہا گیا کہ حسینہ واجد کو اقتدار سے گرانا ہے۔چنانچہ تحریک چلی۔پہلے فوج تھی امریکا تھا اور جماعت اسلامی نے بھی خوب رول ادا کیا۔اس تحریک کے نتیجے میں حسینہ واجد کو انڈیا فرارہونا پڑا۔اس کے بعد سیاسی عدم استحکام اور معاشی عدم توازن کی وجہ سے اس ملک کی حالت روز بروز بدتر ہوتی گئی اس کی برآمدات میں کمی آئی۔اوورسیز بنگلہ دیشیوں نے زرمبادلہ بھیجنا بند کر دیا بھارت نے دوطرفہ تجارت بند کر دی اور بجلی کی فراہمی بھی روک دی۔بنگلہ دیش نے نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو چیف ایگزیکٹو یعنی وزیراعظم بنا دیا لیکن محمد یونس ایک غیر سیاسی اور ڈفر شخص ہیں۔انہیں نوبل انعام”میکرو اکانومک“ فلسفہ رائج کرنے پر دیا گیا۔ انہوں نے کوئی معاشی اور سائنسی ایجاد نہیں کی تھی وہ ہر معاملہ میں فوج کی ڈکٹیشن کے محتاج ہیں۔سیاسی معاملات کے علاوہ یہ مسئلہ درپیش ہے کہ برما کی باغی فوج نے بنگلہ دیش کی سرحد پر ایک علاقے پر قبضہ کر لیا۔بنگلہ دیشی فوجی دستے مقابلے کے بجائے فرار ہوگئے۔ایک اور مسئلہ برما سے آنے والے روہنگیا مہاجرین بھی ہیں ان کے کیمپ انسانی اسمگلنگ خواتین کی خریدوفروخت اور بدامنی کے مراکز بن چکے ہیں۔بعض رپورٹس کے مطابق ان کیمپوں میں داعش گھس آئی ہے اور وہ بنگلہ دیش کے ہمسائیوں کے خلاف جنگ چھیڑنا چاہتی ہے کیونکہ برما پہلے سے میدان جنگ بن چکا ہے جبکہ”رکھائین“ علاقہ کی اراکینن فوج جنگ میں ملوث ہے۔
برما میں چین نے بیلٹ اور روڈ کا منصوبہ شروع کررکھا ہے لیکن امریکہ اس میں مختلف طریقے سے رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔عہد حاضر میں جہاں امریکہ کو ضرورت ہوئی اس نے داعش کھڑی کر دی جیسے کہ اس نے شام میں کیا ہے۔موجودہ صورتحال میں انڈیا سے تعلقات انہتائی کشیدہ ہیں اگر بنگلہ دیش کی سرحدوں پر جنگ کی نوبت آ گئی تو اس کی افواج میں جنگ لڑنے یا دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔سنا ہے کہ جماعت اسلامی بھی روہنگیا کیمپوں میں کافی سرگرم ہے۔ قیاس یہی ہے کہ جلد بنگلہ دیش خود جنگ زدہ پاکستان سے سیکورٹی امداد کی درخواست کرنے والا ہے۔اس کا کیا نتیجہ نکلے گا یہ کوئی نہیں جانتا لیکن پاکستان کے اندر حالات اطمینان بخش نہیں ہیں۔
دو روز ہوئے پشاور میں ایپکس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کرم ایجنسی میں ایک بڑا آپریشن شروع کیا جائے گا اس مقصد کے لئے پارا چنار کی آبادی کو قریبی اضلاع میں منتقل کیا جائے گا یعنی جب تک پورا علاقہ خالی نہیں ہوگا آپریشن ممکن نہیں ہے۔حکام نے بنوں میں داخلی طورپر بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگوں کے لئے کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا ہے یہ نہایت مشکل کام ہے گزشتہ عشرے میں جب وزیرستان کی آبادی کو پختونخوا کے دیگر اضلاع میں منتقل کیا گیا تھا تو ایک بڑے انسانی المیہ نے جنم لیا تھا۔بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد اب تک دیگر علاقوں میں مقیم ہیں اور وہ دوبارہ اپنے گھروں میں جا کر آباد نہ ہوسکے اگر پارا چنار کی آبادی منتقل کی گئی تو متعدد نئے مسائل جنم لیں گے۔کرم ایجنسی میں اہل تشیع اور اہل سنت ایک دوسرے سے فوجوں کی طرح جنگ لڑ رہے ہیں ان کے بڑے بڑے اور سینکڑوں مورچے ہیں پشاور جانے والی سڑک دوماہ سے بند ہے۔اسپتال ویران مریض بے بس اور غریب لوگ بھوک سے مر رہے ہیں۔سیکورٹی حکام نے ایک جرگہ بنوں میں بلایا جو کئی دن تک جاری رہا اس کے نتیجے میں عارضی جنگ بندی تو ہوگئی لیکن حالات نارمل نہیں ہوئے بجائے کہ مزید گفت و شنید کی جاتی اور جرگہ کو بطور ادارہ اعتماد دیا جاتا پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے آپریشن کے لئے وفاق کی مدد طلب کرلی۔یعنی وہی تاریخ وہی پرانی غلطیاں دہرائی جائیں گی۔ہماری حکومتوں کے پاس معاملات کے حل کے لئے طاقت کے استعمال کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔حالانکہ بدامنی صوبائی مسئلہ ہے تو وفاق اس میں کیوں مداخلت کرتا ہے۔اگر پی ٹی آئی کی نااہل حکومت کچھ کرنے کے قابل نہیں ہے تو اسے کسی تاخیر کے بغیر استعفیٰ دے دینا چاہیے تاکہ کوئی اور حکومت آ کر اپنا کردار ادا کرے۔ویسے دیکھا جائے تو دہشت گردی کا عفریت ہر جگہ موجود ہے اور اس میں داخلی اور خارجی عوامل کارفرما ہیں۔پڑوس میں افغانستان ہے جہاں ٹی ٹی پی نے اپنے مراکز بنا رکھے ہیں یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کی مدد سے پاکستان کا پورا نظام بدل کر اپنی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک اور مسئلہ القاعدہ اور داعش کی موجودگی ہے۔بظاہر تو داعش افغانستان میں دھماکے کر رہی ہے اس نے حال ہی میں حقانی گروپ کے سربراہ کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا لیکن جب شام میں بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کا معاملہ آیا تو داعش القاعدہ اور طالبان ایک پیج پر آگئے۔شام کے لئے عسکری لیڈر احمد الشرع جنہوں نے القاعدہ میں شمولیت کے بعد اپنا نام ابو محمد الجولانی رکھ لیا تھا اس کی30ہزارکی فوج میں بیشتر لوگ وہ تھے جنہوں نے طالبان کی زیرنگرانی تربیت حاصل کی تھی۔ان تمام لوگوں کو ملا طیب اردگان نے اپنے ہاں رکھا جدید اسلحہ سے لیس کیا پہلے ادلب پر قبضہ کرایا جس کے بعد دمشق بھی قبضہ میں آگیا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ طیب اردگان اور داعش کا پرانا گٹھ جوڑ ہے کئی سال پہلے جب حلب پر اس کا قبضہ تھا تو ترکی اس کا تیل اپنے ہاتھ سے مارکیٹ کرتا تھا شام پر قبضہ کے بعد ترکی نے واضح طورپر اعلان کیا ہے کہ جہاں ضرورت پڑی وہ فوجی کارروائی کرے گا۔مجال ہے جو اس نے کبھی اسرائیل کی کارروائیوں کو روکا ہو۔دراصل ترکی اور اسرائیل آپس میں ملے ہوئے ہیں وہ شام کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں پہلے نیتن یاہو اور امریکہ اور اب ترکی اصل میں نادان عربوں سے اپنی پچھلی صدی کا انتقام لینا چاہتا ہے لیکن عرب بھنگ پی کر بے خود ہیں انہیں معلوم نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اسرائیل گریٹر اسرائیل قائم کر رہا ہے۔اس کا دعویٰ ہے کہ شام ،اردن،لبنان،شمالی عراق اور صحرائے سینائی یہودی وطن ہے جسے وقت کی طاقتوں نے تقسیم کر دیا لہٰذا وہ ترکی کے ساتھ ان نالائق ، نااہل ، بزدل اور مصنوعی عرب ممالک کے حکمرانوں کو سبق سکھا رہا ہے۔شام پر قبضہ سے سعودی عرب بھی خوش دکھائی دے رہا ہے اردن بھی مطمئن ہے اور مصر بھی تالیاں بجا رہا ہے لیکن سعودی عرب کو معلوم نہیں کہ مدینہ پر یہودیوں کا دعویٰ ہزاروں سال پرانا ہے۔اگر عرب حکمرانوں کا یہی حال رہا تو بالآخر یہودی پورے جزیزہ نما عرب کے حکمران ہوں گے۔
پیر صاحب پگارا نے اپنے دور میں پہلی مرتبہ نصیر آباد ڈویژن کا دورہ کیا ہے۔انہوں نے وہاں پر مختلف قسم کی سیاسی باتیں کی ہیں جو غوروفکر کی متقاضی ہیں۔مثال کے طور پر انہوں نے کہا کہ اگر آصف علی زرداری نے6کینالز کا خفیہ معاہدہ کیا ہے تو ہم احتجاج کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں؟ بظاہر تو سندھ میں نام نہاد قوم پرست پارٹیاں ان کینالز کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں۔پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے انہیں چھوٹ دے رکھی ہے ۔پارٹی کے رہنما بھی نئی کینالز کی تعمیر پر تنقید کر رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔پیپلزپارٹی کی قیادت اندرون خانہ اور بات کرتی ہے اور عوام کے سامنے مختلف بات کررہی ہے لیکن یاد رکھنے کی بات ہے کہ اگر پیپلزپارٹی نے کوئی خفیہ معاہدہ کیا ہے تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے ان کینالز کے بعد سندھ کے کئی علاقے بنجر اور غیرآباد ہو جائیں گے۔سندھ حکومت جس طرح آنکھیں بند کر کے زمینیں الاٹ کر رہی ہے تو ان کو آباد کرنے کے لئے پانی کہاں سے ملے گا؟اگر زور زبردستی سے پانی غریبوں سے لے کر دوسروں کو دیا گیا تو پیپلزپارٹی کو سندھ کے اپنے سیاسی قلعہ میں سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔اسی طرح ن لیگ کی حکومت کے بارے میں پارٹی کی پالیسی دوغلی اور غیر واضح ہے۔پارٹی حکومت میں شامل ہے بلکہ اس نے شہبازشریف کی حکومت کو اپنی بیساکھیوں کا سہارا دے رکھا ہے لیکن عوام میں آکر پارٹی رہنما حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اگر پیپلزپارٹی حکومت سے مطمئن نہیں ہے تو اسمبلیوں سے استعفیٰ دے تاکہ نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو سکے۔ویسے بھی موجودہ اسمبلیاں متنازعہ ہیں۔ان کی حیثیت مشکوک ہے کیونکہ 8 فروری کے جھرلو زدہ انتخابات کو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔
٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں