کردستان اور مغربی طاقتوں کی دغا بازیاں

جیئند ساجدی

کرد بنا ریاست (Stateless Nation) والی سب سے بڑی قوم تصور ہوتی ہے۔ ان کی تعداد تین سے چار کروڑ بتائی جاتی ہے۔ان کی سرزمین کردستان چار بین الاقوامی ریاستیں ترکی، ایران ، شام اور عراق میں تقسیم ہے۔کرد ،عرب، ترک اور فارسیبان کے بعد مشرق وسطی کی چوتھی سب سے بڑی قوم ہے ۔اپنی کوئی ریاست نہ ہونے کی وجہ سے کردوں کو چاروں ممالک میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ انکا علاقہ چاروں ممالک کے مرکزوں سے جیسے کہ استنبول ، دمشق ، بغداد اور تہران سے کافی دور ہے اور انکا شماران ریاستوں کے پسماندہ طبقوں میں آ تا ہے۔کردوں کی حالیہ سیاسی صورتحال کی وجہ بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات ہیں یہ مشرق وسطی کی مقامی آ بادی تصور ہوتی ہے۔ چودویں صدی میں ترک قبیلے منگولوں کے حملوں سے فرار ہوکر وسطی ایشیا سے موجودہ ترکی میں آ ئےتھے اور کچھ ہی عرصے میں سلطنت عثمانیہ جیسی طاقتور سلطنت بنانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ اپنے دور کا سپر پاور تھا اور انکی تین براعظموں جیسے کہ مشرق وسطی (ایشیا ) شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ میںحکومت تھی ۔ اسی دوران کردوں کے علاقے سلطنت عثمانیہ کے قبضے میں آ گئے اور کرد ترکوں کے رعایا بن گئے ۔لیکن انکی حیثیت باقی رعایوں سے مختلف تھی۔ کردوںکیجنگی صلاحیتوں کو دیکھ کر انکے علاقوں کو ریاست میں نیم خودمختاری دی گئ تھی ۔ لیکن 1836 میں سلطان عبدلماجد اول نے تنظیمات کے نام سے کافی سیاسی اصلاحات کیں ،جسکے نتیجے میں کردوں کی نیم آزاد حیثیت ختم ہوگئی اور ایک کرد رہنما شیخ عبیداللہ نے بغاوت کردی۔لیکن اسے ریاست نے کچل دیا۔
1914میں پہلی عالمی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں ترکی جرمنی کا اتحادی بن گیا۔ اس جنگ میں ترکی اور جرمنی کو برطانیہ اور فرانس کے ہاتھوں شکست ہوئی ۔جنگ کے بعد فاتحین نے ترکی پر معاہدہ سیورس مسلط کردیا جس میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ غیر ترک آبادی والے علاقوں سے دستبردار ہوجائے۔اسی معاہدے میں موجودہ ترکی کے زیر انتظام کردستان کی آزادی کابھی شق شامل تھا۔ جبکہ موجودہ عراق اور شام کے کرد علاقوں میں برطانیہ اور فرانس نے ایک مصنوعی لکھیر کینچ کر کردوں کو دو اور بین الاقوامی ریاستوں میں تقسیم کیا جو ایک نیوکالونیل سوچ تھی۔ نیوکالونیلازم کے مفروضے کے مطابق سامراجی طاقتوں نے جب اپنے سابقہ کالونیز کو آزادی دی اور نئی ریاستیں تشکیل دیں تو ان ریاستوں کی سرحد یںکھینچتے وقت انہوں نے اس علاقے کی تاریخ ، ثقافت اور عوام کی رائے حق خودارادیت کو نظر انداز کیا بلکہ اپنے جیو پولیٹیکل مفادات دیکھے اور کثیر القومی ریاستیں تشکیل دیں اور مختلف لسانی گروہوں کو انکے مرضی کے بغیر ایک ریاست میں شامل کیا گیا ۔ دراصل مغربی طاقتوں کا مقصد یہ تھا کہ نئی ریاستیں برائے نام آزاد ہوں لیکن ان میں انکا اثرورسوخ رہے اسی وجہ سے شام اور عراق میں کردوں کے علاقے شامل کیے گئے ۔ جہاں تک ایرانی کردستان کا تعلق ہے تو اسے ایران پہلی جنگ سے قبل ہی اپنے قبضے میں لے چکا تھا۔ لہٰذا معاہدہ سیورس میں جو کردستان شامل تھا وہ ٹوٹا پھوٹا کردستان تھاجسے Little Kurdistan کہتے ہیں ۔ لیکن ترکی کو یہ لٹل کردستان بھی قبول نہیں تھا اور ترک قوم پرستوں مصطفیٰ کمال عطا ترک کی قیادت میں معاہدہ سیورس کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ترکش نیشنل موومنٹ کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور بزور طاقت کردستان پر قبضہ کر لیا۔ ترکی کے جارحانہ رویے سے خائف ہوکر برطانیہ اور فرانس نے معاہدہ سیورس کو منسوخ کرکے 1923میں معاہدہ لوزیانا پر دستخط کردیے ۔جس میں کرد علاقے ترکی کو دے دیے گئے ۔ کرد اس معاہدے کو ایک تاریخی نہ انصافی قرار دیتے ہیں اور اسے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی سانحہ سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے ترکی سمیت دیگر تین ریاستوں کے خلاف مسلح تحریکیں چلائی لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے۔
کردوں کو انکی مزاحمت کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ کمال عطا ترک نے کردش زبان اور ثقافت پر پابندی عائد کی اور ہزاروں کردوں کا قتل عام کیا۔ ایرانی کردستان میں 1945 میں شورش ہوئی جسکی کمک روس نے کی لیکن امریکی دباؤ پر آکر روس نے کردوں کو ایران کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس دوران شاہ ایران نے طاقت کا بےایمانہ استعمال کیا اور کردوں کی تحریک کا خاتمہ کیا۔ سابقہ عراقی آمر صدام حسین نے عراق میں مقیم کردوں پر مظالم ڈھاے اور ایک آپریشن حلب جاہ (1988)میں کردوں پرکیمیائی ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا۔ ان تمام مظالم کے باوجود کرد عالمی میڈیا کی توجہ حاصل نہیں کر سکے۔ اس سلسلے میں معروف دانشور نوم چامسکی لکھتے ہیں کہ عالمی میڈیا کے تحت دو قسم کے مظلوم ہوتے ہیں جن میں ایک خاص مظلوم اور دوسرا عام مظلوم ہوتاہے ۔ جومظلوم امریکہ اور اسکے اتحادی ریاستوں  کی بربریت کا نشانہ بنتے ہیں وہ عاممظلوم ہوتے ہیں اور انہیں کوریج نہیں ملتی جبکہ جو امریکہ مخالف ریاستوں کی بربریت کا نشانہ وہ خاص مظلوم تصور کیا جاتا ہے۔ وہ مزید اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ سرد جنگ کے دوران پولینڈ جو اس وقت ایک کمیونسٹ ریاست تھا اس نے ایک پادری کو قتل کردیا تو وہ عالمی میڈیا کیلئے ایک خاصمظلوم ثابت ہوا اور عالمی میڈیا نے اسے کثرت سے کور کیا لیکن ایسے کہیں پادری امریکہ کے اتحادی ریاستوں نے لاطینی امریکہ میں قتل کئے جو عام مظلوم تھے اور عالمی میڈیا کی زینت نہیں بنے ۔1989 سےقبل کرد عالمی میڈیا کیلئے عام مظلوم تھے لیکن جب عراق نے کویت پر حملہ کیا اور امریکااپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر کویت کی جانب سے اس جنگ کا حصہ بنا تو عراقی صدر صدام حسین کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لیے اسے کچھ خاص اور اہم مظلوموں کی ضرورت پڑی اسی لیےاس دوران کرد عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے۔ یاد رہے کہ اسی دوران امریکہ کا ایک اہم کلائنٹ اسٹیٹ ترکی کردوں پرایک بڑی نوعیت کا آپریشن سر انجام دے رہا تھا لیکن اس آپریشن میں مارے جانے والے کرد غیر اہم اور عام مظلوم ثابت ہوئے کیونکہ یہ آپریشن امریکہ کا ایک اتحادی کر رہا تھا۔
2003 میں کرد پھر سے عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنے کیونکہ امریکہ نے عراق کے خلاف جنگ چھیڑ دی تھی اور کردوں کو مظلوم دھکانا امریکاکے مفاد میں تھا۔ ایک مشہور کہاوت ہےکہ دشمن کادشمن دوست ہوتاہےاسی لئے کردوں نے اپنے قومی مفاد کی خاطر امریکہ کا ساتھ دیا ۔جسکے عوض انہیں عراق میں خودمختاری ملی لیکن یہ کردوں کیلئے نہ کافی تھا انکے عزائم مکمل آزادی کے تھے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے 2017 میں عوامی ریفرنڈم بھی منعقد کیا جس میں کردوں کی اکثریت نے آزادی کا انتخاب کیا لیکن امریکہ نے اس ریفرینڈم کو ماننے سے انکار کردیا ۔اس عمل کی وضاحت اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس طرح دی کہ امریکہ چاہتا ہے کہ عراق عدم استحکام کا شکار نہ ہو اور آزاد کردستان سے عراق ماضی کی طرح عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ امریکہ کی آزاد کردستان کی حمایت نہ کرنے کئی وجوہات میں ایک یہ ہے کہ امریکہ خود ایک کالونیائل سیٹلر ریاست ہے امریکہ کےغالب طبقےکا تعلق ماضی میں یورپ کے ساتھ تھا اور وہ ہجرت کر کے امریکہ آئے مقامی آبادی کو بزور طاقت کالونائز کیا امریکہ کے علاوہ آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ ،کینیڈا، اسرائیل اور ماضی میں جنوبی افریقہ بھی کالونیائل سیٹلر ریاست تھی ۔اسی ریاستیں کبھی بھی مقامی آبادی کی تحریکوں کی حمایت نہیں کرتےاور مقامی آبادی سے مختلف نظریات رکھتے ہیں ۔امریکہ نے ماضی میں کہیں کالونیل سیٹلر ریاستوں کی حمایت کی ہے جیسے کہ ماضی میں امریکہ نے سفید فام جنوبی افریقی مقتدرہ کی حمایت کی اور مقامی آبادی کی تحریک کو کچلنے کیلئے ان کی کمک بھی کی ۔امریکہ نے اسرائیل کی بھی بھرپور حمایت کی ہے اور مقامی فلسطینیوں کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ترکی امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے اور نیٹو میں امریکہ کے بعد سب سے بڑی فوج کی تعداد ترکی کی ہے اس کے علاوہ ترکی کا جغرافیہ امریکہ کیلئےبھی کافی اہمیت کا حامل ہے آبنائے بوس فورس کا کنٹرول ترکی کے پاس ہے عالمی قانون کے مطابق دوران جنگ ترکی اس کو بند بھی کر سکتا ہے امریکہ کو ایک ادراک ہے کہ روس کی معیشت کا دارومدار آبنائے باس فورس سے ہے ۔روس بلیک سی کو استعمال کر کے مشرق وسطیٰ اور میڈیٹیرین سی تک پہنچتا ہے اگر آبنائے باس فورس بند کر دیا جائے تو روس ایک لینڈ لاکڈ ریاست بن جائے گا چنانچہ امریکہ ترکی جیسی بڑی طاقت اور جغرافیائی لحاظ سےاہم ملک کو کمزور کردوں کیلئے ناراض نہیں کر سکتا ۔
واضح رہے کہ چار کروڑ کردوں میں سے ڈیڑھ کروڑ سے زائد ترکی میں آباد ہیں اور کردستان کا سب سے بڑا حصہ ترکی کے قبضے میں ہے ۔ترکی کو یہ خدشہ ہے کہ عراق ، شام اور ایران میں آزاد کردستان ترکی کے کرد علاقوں کیلئے بھی خطرہ ہے ۔اسی وجہ سے ترکی نے شام و عراق کے کرد جنگجوؤں پر برائےراست حملے کئے تاکہ کرد منظم نہ ہونے پائیں ۔شامی کرد تنظیم ایس ڈی ایف کو ترکی پی کے کے کا حصہ قرار دیتا ہے۔پی کے کے کردوں کی وہ تنظیم ہے جس نے کافی عرصہ تک ترک افواج کے خلاف مسلح جدوجہد کی ہے۔شامی آمر بشار اسد کا تختہ ایچ ٹی ایس نامی تنظیم نے الٹا یاہے ۔ایچ ٹی ایس کی اکثریت شامی عربوں پر مشتمل ہے ۔انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کردوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم متحدہ شام کے حق میں ہیں اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اورکردوں کو شام کا حصہ سمجھتے ہیں ۔اس تنظیم کی بشار اسد سے اختلافات کے باوجود ترکی نے بھرپور مدد کی ہے اور کردوں پر زمین تنگ کرنے کیلئے ایک اور شامی عربوں کی تنظیم ایس این اےکی بھی مدد کی ہے اور وہ مسلح ہو کر کردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں ۔امریکہ اس سلسلے میں خاموش تماشائی بنا ہوا ہے ۔مذمتی بیانات کے علاوہ امریکہ کے پاس اپنے نام نہاد اتحادی کردوں کو دینے کیلئے کچھ نہیں ۔اس کے علاوہ امریکہ خود بھی نئی شامی حکومت کا بہت بڑا حامی ہے اور یوں لگتا ہے کہ امریکہ کے حمایت سے کردوں کے دل میں معاہدہ لوزیانا کی دغا بازیوں کی یادیں تازہ ہوںگی جس میں مغرب نے کردوں کو دھوکہ دے کر عرب ، ترک اور فارسی بانوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا زمینی حقائق سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ آزاد کردستان عنقریب ناممکن نظر آ رہا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں