سنبل آغا

انور ساجدی
جن لوگوں نے سلطنت عثمانیہ کے عظیم فرماں رواں سلیمان عالیشان پر مبنی ڈرامہ دیکھا ہے تو انہوں نے ضرور سُنبل آغا کا کرداربھی دیکھا ہوگا۔سُنبل آغا نے کمال کی اداکاری کی ہے وہ بادشاہ کے حرم کے چیف انچارج تھے۔پرانے وقتوں میں جب بادشاہان وقت کا عروج ہوتا تھا تووہ اپنے حرم بناتے تھے اور ان میں سینکڑوں کی تعداد میں بیگمات خوبصورت خواتین رکھیل اور خانم جمع رکھتے تھے۔بادشاہوں کو ہمیشہ یہ شک ہوتا تھا کہ کہیں کوئی بے وفافی نہ کر جائے جو بہت بڑی گستاخی سمجھی جاتی تھی اس لئے خواتین پر نظر رکھنے اور ان کی حفاظت کے لئے خواجہ سرا متعین کئے جاتے تھے جو بے ضرر سمجھے جاتے تھے۔ سُنبل آغا انہی کرداروں میں سے ایک تھا جو ڈرامہ میں دکھایا گیا جو تاریخ کے کرداروں میں درج ہے۔اس میں بہت فرق ہے کیونکہ سُنبل آغا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک شہزادی سے محبت ہو جاتی ہے اگر وہ خواجہ سرا ہوتے تو ایک خاتون سے کیسے دل لگا بیٹھتے۔عین ممکن ہے ہ وہ کوئی جعلی خواجہ سرا ہوگا۔دوسرا ثبوت یہ ہے کہ سُنبل آغا بہت لالچی تھا۔امراءاور خانموں سے نہ صرف قیمتی بخشش بٹورتا تھا بلکہ آنکھ بچا کر نادر اور قیمتی اشیاءچوری بھی کر لیتا تھا۔کسی جگہ لکھا ہے کہ مرنے کے بعد سُنبل آغا کی اتنی دولت نکلی جو کسی اور درباری یا وزیر کی نہ نکلی۔
چونکہ سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ سلطنت کے بادشاہ ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے تھے اس لئے ان کے طور اطوار رسم و رواج اور طرز حکمرانی بھی ایک جیسی تھی البتہ ایک بڑا فرق یہ تھا کہ مغلوں نے اپنے قلعوں میں حرم بھی قائم کر رکھے تھے اور امراءکی سہولت کی خاطر انہوں نے لاہور میں شاہی محلہ بھی قائم کیا تھا جہاں رقص و سرور کی محفلیں شاعری کی مجالس اور ادبی دیوان بھی ہوا کرتے تھے۔ مغلوں نے یہ سہولت دہلی آگرہ اور لکھنو میں بھی قائم کر رکھی تھی۔ایک دور تھا کہ لکھنو آگے نکل گیا تھا کیونکہ مغلوں کے بعد اودھ پر جو لوگ حکمران ہوئے وہ کچھ زیادہ رنگین مزاج واقع ہوئے تھے۔بازار حسن کی خواتین اور ان کے کلچر کے بارے میں ہزاروں کتابیں اور سینکڑوں فلمیں بنائی گئی ہیں ماضی میں شہرہ آفاق حقیقت نگار سعادت حسن منٹو نے جو افسانہ جھمکے کے نام سے لکھا تھا اس پر ایک فلم بدنام بنائی گئی جس کا ایک گانا”بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے“ بڑا مشہورہوا تھا جسے ثریا ملتانیکر نامی خاتون نے گایا تھا۔اس فلم میں اداکار علاؤالدین نے فن کی بلندیوں کو چھوا تھا۔حال ہی میں انڈیا کے مشہور فلم ساز سنجے لیلیٰ بھنسالی نے ہیرامنڈی کے نام سے فلم بنائی تھی اس فلم کو حقیقت سے دور ایک کاوش قرار دیا گیا تھا لیکن نجم سیٹھی کی اہلیہ جگنو محسن نے حیران کن طور پر فلم کا دفاع کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ راجہ رنجیت سنگھ نے بھی ہیرامنڈی کو کوئی گزند نہیں پہنچائی۔جگنو صاحبہ کے مطابق اس وقت کی ایلیٹ اور ہیرامنڈی کے درمیان خصوصی تعلقات قائم تھے یہ ایک بڑے کلچر کی غمازی کرتا تھا۔لکھنو کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں پرشرفاءاپنے بچوں کو تہذیب اور ادب سکھانے کے لئے بھیجتے تھے۔مشہور صحافی اور احراری لیڈر شورش ملک نے اپنی مشہور کتاب”اس بازار میں“عجیب انکشاف کیا ہے ان کے مطابق انہیں پتہ چلا کہ ہیرامنڈی میں ایسی خاتون بھی ہے جو شاعر مشرق عالم اسلام کے بڑے فلاسفر اور امت کے داعی علامہ سر ڈاکٹر محمد اقبال کی خدمت پر مامور رہی ہے۔وہ ان کا انٹرویو کرنے گئے لیکن خاتون نے علامہ صاحب سے تعلق کی تفصیلات بتانے سے منع کر دیا۔انہوں نے کہا کہ
جائیے جائیے جی
یہ شرفا کی پگڑیاں
آپ کے ہاں اچھالی جاتی ہیں
ہم یہ کام نہیں کرتے
جگنو محسن نے کئی لوگوں سے انٹرویو کئے جن سے پتہ چلا کہ چونکہ شاہی قلعہ کیپٹل تھا اس لئے لاہور یا پنجاب کے اکثر شرفاءاس کے اردگرد رہتے تھے۔آبادی بڑھتے بڑھتے ہیرامنڈی تک پہنچ گئی حتیٰ کہ رنجیت سنگھ کے وزیراعظم یا دیوان بھی اس علاقہ میں رہائش پذیر ہوئے ان کا پرانا گھر کافی عرصہ سے ایک میوزیم ہے جس میں نادر اشیاءرکھی ہوئی ہیں۔لاہور کی مشہور شخصیت بڑا صنعتکار پیکیجز اور لمز کا بانی بابر علی کا تعلق بھی اسی خاندان سےہے جبکہ محترمہ جگنو محسن بھی اسی خا ندان کا حصہ ہیں۔علامہ اقبال کے نواسہ صلاح الدین بھی پرانے لاہور میں قیام پذیر تھے ان کا صاحبزادہ آج کل بارودخانہ حویلی کے مالک ہیں جہاں موسیقی علم و ادب سے متعلق محفلیں برپا ہوتی ہیں۔مغلوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوجوانوں کو آختہ کر کے جبری طورپر خواجہ سرا بناتے تھے اور وہ انہیں اپنے حرم میں تعینات کرتے تھے لیکن طویل مغل درباروں میں کسی خواجہ سرا نے وہ شہرت نہیں پائی جو سلطان سلیمان عالیشان کے حرم سے وابستہ سُنبل آغا نے پائی۔انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کے بعد خواجہ سراؤں کو انسان کا درجہ دیا اور آزادی دی جس کے بعد جبری مسئلہ ختم ہوگیا۔
خانہ خراب انگریزوں نے روایتی خواجہ سراؤں کے بجائے ان لوگوں کو اپنے استعمال میں لیا جنہوں نے ان کی مخالفت کی تھی۔8ہزار انگریز برصغیر آئے تھے لیکن انہوں نے8 کروڑ لوگوں کو ذہنی اور سیاسی طورپر مفلوج کر کے ایک طرح سے خواجہ سرا بنا دیا۔انگریز بدترین نسل پرست تھے وہ ہندوستانی عوام کو اچھوت اور شودر سمجھے تھے۔بہت زمانہ تک ہندوستانیوں کو سرکاری نوکریوں پر نہیں لیتے تھے لیکن سلطنت کی توسیع کے ساتھ افرادی قوت کی ضرورت بڑھ گئی اس لئے شروع میں چپڑاسی، مالی،ڈرائیور اور کتوں کی خدمت کے لئے مقامی لوگ بھرتی کئے جاتے تھے۔جنگ پلاسی کے بعد انہوں نے بنگال میں ایک ایلیٹ کلاس پیدا کرلی مقامی لوگوں کو کلبوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن بنگال پر قبضہ کی خوشی میں انہوں نے ڈریس کوڈ بنایا یعنی ٹائی سوٹ پہننے والا اندر جا سکتا ہے۔
”یہ بات تو بہت مشہور ہے کہ کلبوں کے باہر لکھا ہوتا تھا کہ کتوں اور انڈین کا جانا منع ہے“
جنگ پلاسی کے بعد انگریزوں نے وسیع پیمانے پر گھوڑے پالے جو سب سے بڑا جنگی ہتھیار ہوتا تھا اس مقصد کے لئے مقامی لوگوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔اسے گھوڑا پال اسکیم کہا جاتا تھا بعد ازاں یہ جاگیریں گھوڑا پالنے والوں کو الاٹ کی گئیں اور وہ جاگیردار بن گئے اس طبقہ نے دولت آجانے کے بعد سید، پیر،مخدوم، چوہدری،سردار اور نواب کے ٹائٹل رکھ لئے جن لوگوں نے اپنے وطن سے غداری کی تھی انہیں خان بہادر سر وغیرہ کے خطابات بھی دئیے گئے جیسے کہ سر محمد اقبال سر سید احمد خان ،سر ضیاءالدین احمد وغیرہ اس طرح انگریزوں نے پورے ہندوستان کا سماجی ڈھانچہ تبدیل کردیا۔1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں کی قلت ہوگئی تو پڑھے لکھے انگریزی دانوں کو سول سروس اور فوج میں لیا جانے لگا۔اس طرح انہوں نے ہندوستان میں لاکھوں سُنبل آغا پیدا کر دئیے۔بدقسمتی سے انگریزوں کے جانے کے بعد نہ صرف ان کی تخلیق کردہ جعلی اشرافیہ دونوں ممالک پر قابض ہوئی بلکہ انہوں نے حکمرانوں کے درجہ کو مزید گرا کر معاشرے کو ایک نیا سوشل آرڈر دیا جو فن چاپلوسی ہے۔یہ تو ایک قدیم فن ہے جو انسانوں کی فطرت میں شامل ہے لیکن شاہی درباروں نے اسے ایک نئی جہت دی جس کے بغیر دربار تک رسائی اور وہاں ٹھہر جانا ممکن نہ تھا۔اسے کیا کہیے کہ ہمارے حکمرانوں نے بھی اس قدیم فن کو نہ صرف زندہ رکھا ہے بلکہ انہیں کرسی نشین بھی کر دیا ہے۔انگریزوں نے کرسی نشینی کا ایک اعزازی عہدہ رکھا تھا جن کے پاس ٹائٹل ہوتا تھا صرف وہی کرسی پر بیٹھ سکتے تھے اب جو رعایا ہے کہ وہ اس طبقہ کے رحم وکرم پر ہے جبکہ ہر طرف سُنبل آغا دندناتے پھرتے ہیں۔بادشاہت کی یہ نئی قسم جب تک جاری رہے گی سُنبل آغا بڑھتے جائیں گے اور اس فن کو مزید بلندیاں نصیب ہوں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں