سول نافرمانی کی تحریک
انور ساجدی
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے پہلی مرتبہ ملک میں حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ اگر ان کے دو نکاتی مطالبہ منظور نہیں کیا گیا تو وہ14دسمبر سے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کریں گے تاہم پارٹی نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ تحریک کے دوران کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے۔امکانی طور پر عمران خان اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ محصول زر بینکوں کے ذریعے نہ بھیجیں بجلی گیس اور دیگر محصولات کے بل ادا نہ کریں اور حکومت کو ٹیکسو ںکی ادائیگی بھی بند کردیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت کچھ کچھ گھبرائی ہوئی ہے ورنہ اس سے پہلے عمران خان جو کچھ کرتے تھے حکومت کو زیادہ فکر نہیں ہوتی تھی۔معلوم نہیں کہ عمران خان کو یہ تحریک چلانے کا خیال گاندھی جی کی زندگی اور جدوجہد کا مطالعہ کرنے کے بعد آیا ہے یا انہوں نے اپنے طور پر اس طرح کی تحریک چلانے کا خیال آیا ہے۔ویسے یہ بات مشہور ہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی قیادت کتابوں کے مطالعہ میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ان کی دلچسپی بس حالات حاضرہ سے ہے۔سنا ہے کہ شریف خاندان نے آج تک کسی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ چند سال قبل مجھے میرے دیرینہ دوست سردار یعقوب ناصر نے تاکید کی کہ آپ میاں صاحب سے ملنے آئیں چنانچہ میں چلا گیا۔میں نے ایک کتاب میاں صاحب کو پیش کی۔اس دوران کھانے کا دور چلا۔جب میاں صاحب اٹھ کر چلے گئے تو وہ کتاب اسی طرح ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی۔صحافی حسن نثار نے ایک مرتبہ اپنے ٹی وی پروگرام میںکہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جتنی کتابیں پڑھی ہیں میاں صاحب نے اتنی دیکھی بھی نہیں ہیں۔ایک دلچسپ انکشاف یہ ہے کہ سیاستدانوں کی موجودہ لاٹ میں صرف آصف زرداری کو کتابیں پڑھنے کا شوق ہے تاہم بلاول کے بارے میں معلوم نہیں حالانکہ بھٹو صاحب کے70کلفٹن کے گھر میں کتب کا بڑا ذخیرہ تھا۔معلوم نہیں کہ مرتضیٰ کی وفات کے بعد بھٹو صاحب کی کتابوں کا کیا حال ہے اور محترمہ غنویٰ نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔بلاول اپنے نانا کی سیاسی تاریخ سے تو ضرور واقف ہیں لیکن جن شخصیات نے دنیا بدل دی ان کے بارے میں ان کی کیا معلومات ہیں۔غالباً وہ نہیں جانتے کہ بھٹو صاحب تو خود مصنف بھی تھے اور وہ بلند پایہ ادیب بھی تھے۔چین کے وزیراعظم چوائن ملائی کی وفات پر انہوں نے جو تعزیت نامہ تحریر کیا وہ ایک ادبی شاہکار ہے۔اس مضمون کو دنیاکے کئی اخبارات نے شائع کیا تھا۔اگر بلاول کو یاد ہو تو اس تحریر کو محفوظ کر لینا چاہیے۔جب امریکہ کی قیادت میں دنیا چین کو تسلیم کرنے سے گریزاں تھی تو بھٹو صاحب نے مستقبل کے امکانات کے تناظر میں وہ نعرہ تخلیق کیا جسے عمومی طورپر پاکستان کا ہر حکمران دہراتا ہے۔
یعنی چین اور پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔
بہرحال ذکر عمران خان کی تحریک کا ہو رہا تھا۔گاندھی جی نے سول نافرمانی کا آغاز جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف کیا تھا۔اس کے بعد جب وہ انڈیا آئے تو برٹش راج عروج پر تھا اور مظالم بھی بہت زیادہ تھے۔چنانچہ1928 کو کانگریس کا اجلاس لاہور میں ہوا جس میں جواہر لعل نہرو کو آل انڈیا کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا۔نہرو نے اس سے پہلے انگریزوں کو ایک محضر نامہ پیش کیا تھا اور مطالبہ کیا تھا کہ ایک سال تک ان کے مطالبات منظور کئے جائیں ورنہ راست اقدام اٹھایا جائے گا۔اجلاس کے بعد نہرو اور ساتھی دریائے راوی کے کنارے گئے وہاں انہوں نے راوی کے پانیوں کو ہاتھ لگا کر سوگند اٹھایا کہ وہ ہندوستان کی مزید غلامی برداشت نہیں کریں گے۔ساتھ ہی انہوں نے راوی کنارے آزاد ہندوستان کا پرچم ترنگا بھی لہرا دیا۔اس اجلاس کے بعد1930 میں گاندھی جی نے نمک پر ظالمانہ ٹیکس کے خلاف آوازاٹھائی اور ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ کردیا لیکن انگریزوں نے مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا چنانچہ گاندھی12مارچ 1930 کو گجرات سے نکلے اور سمندر کے قریب پہنچ کر ایک مٹھی نمک بنایا اسے واپس سمندر میں اچھالا اور کہا کہ آج کے بعد ہم انگریز سامراج کا کوئی حکم نہیں مانیں گے۔گاندھی اس کے بعد سمندر کے کنارے لانگ مارچ پر روانہ ہوئے۔وہ24 دن بعد390 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ڈانڈی پہنچے اس دوران ہزاروں لوگ بھی ان کے ساتھ چل پڑے۔ان سب لوگوں نے نمک کے رنگ کا لباس پہن رکھا تھا چنانچہ یہ قدم ہندوستان میں سول نافرمانی کی طویل تحریک کا آغاز تھا۔گاندھی نے بعد ازاں مدراس تک سالٹ ایکٹ کے خلاف تحریک چلائی۔ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ گاندھی نے اپنے عمل سے ہندوستان کے لوگوں کے اندر اپنا اعتبار قائم کیا تھا وہ اسے ایک سچے لیڈر مانتے تھے اور ان کے ہر عمل کو جائز سمجھتے تھے۔تحریک نمک کے بعد انہوں نے انڈیا چھوڑ دو تحریک بھی چلائی۔ہرسال لوگ31 جنوری کو آزادی کا سال منانے لگے۔گاندھی پر فلم بنانے والے سر رچرڈ ایڈنبرو نے فلم بنانے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ جب دبئی کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے تو بک شاپ پر گاندھی پر لکھی گئی کتاب نظر آئی وہ کتاب اٹھا کر اپنے کمرے میں گئے اور مطالعہ کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر انہوں نے گاندھی پر فلم نہیں بنائی تو ان کا پورا کیرئیر بے کار ہے۔چنانچہ انہوں نے تاریخی فلم گاندھی بنائی جو ایک عالمی شہ پارہ کی حیثیت رکھتی ہے۔گاندھی نے اگرچہ عدم تشدد کے ذریعے ہندوستان کی آزادی کو ممکن بنایا لیکن وہ ہندوستان کی تقسیم کو نہ روک سکے اور تو اور آزادی کے بعد ایک جن سنگھی انتہاپسند نتھو رام گوڈے نے انہیں گولی کے ذریعے ہلاک کیا اور المیہ یہ ہے کہ آج انڈیا پر جو پارٹی برسراقتدار ہے وہ گوڈسے کو ایک ہیرو مانتی ہے۔ایک اور المیہ یہ ہے کہ پاکستان کے نصاب میں گاندھی جی کو بہت ہی منفی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے انہیں مکار متعصب ہندو لیڈر بنیا اور گھٹیا انسان جیسے القابات دئیے جاتے ہیں لیکن ساری دنیا ان کی شخصیت ان کے فلسفہ عدم تشدد اور سیاسی بصیرت کی قائل ہے۔انہوں نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔اسی طرح گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد کے جو پیروکار پاکستان میں گزرے ہیں انہیں بھی ولن اور ناپسندیدہ شخصیات کے طور پر نئی نسل کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے جیسے کہ سرحدی گاندھی، خان عبدالغفار خان،بلوچی گاندھی خان عبدالصمد خان اچکزئی سندھ کے جی ایم سید پنجاب کے میاں افتخار الدین وغیرہ پاکستانی حکمرانوں نے تاریخ کے ساتھ جو ظلم کر کے ایک غلط بنیاد ڈالی ہے اس کا خمیازہ کئی نسلیں بھگتیں گی کیونکہ بنیاد ہی غلط ڈالی گئی ہے۔
بہرحال کوئی کچھ کہے عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی بات کر کے پہلی مرتبہ دانمشندی کا ثبوت دیا ہے ورنہ ان کی پوری زندگی جلسوں،ریلیوں،گھیراؤ جلاؤ اور پرتشدد واقعات سے بھری پڑی ہے کسی نے ان کو نہیں بتایا کہ سول نافرمانی کے ساتھ ہڑتال پہیہ جام ہڑتال قلم چھوڑ ہڑتال اور دیگر اقدامات کے ذریعے بھی مطالبات تسلیم کروائے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ عمران خان اس وقت سب سے پاپولر لیڈر ہیں لیکن ان کی خامی یہ ہے کہ وہ رجعتی اورقدامت پسندانہ خیال رکھتے ہیں۔ایسے لوگ کبھی انقلاب لانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔اگر وہ اپنے آپ کو تبدیل کریں عوام سے ناطہ جوڑیں عوام میں آکر ان سے ایک میثاق کریں اور سوگند کھائیں کہ وہ اقتدا یا ذاتی مفاد کی خاطر عوام کو دھوکہ نہیں دیں گے تو ان کی تحریک نہ صرف کامیابی سے ہمکنار ہوگی بلکہ عوام کی تقدیر بدلنے میں بھی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ انکو اپنی جماعت کو بھی باقاعدہ جماعت بنانا ہوگا۔انہیں ایک باقاعدہ سیاسی ادارہ بنانا ہوگا اور افراد کے بجائے پالیسیوں کو فوقیت دینا ہوگی۔اگر وہ نہیں سنبھلے اور درست سیاسی اقدام کی طرف نہ آئے تو ان کا حشر بھی ائیرمارشل اصغر خان جیسا ہوگا۔اگر عمران خان ناکام ہوئے تو امیدوں کا مرکز چاروناچار بلاول ہوگا۔انہیں بھی اپنی جماعت کو ایک بار پھر عوامی پارٹی بنانا ہوگا اور ایک طویل نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا ورنہ ریاست اور ان کے عوام ہمیشہ تاریکیوں میں ڈوبے رہیں گے۔