سوال یہ ہے کہ۔۔۔۔۔؟

اپوزیشن کی زبان پر ایک رٹا رٹایا جملہ بڑی روانی کے ساتھ آجاتا ہے:”یہ حکومت نالائق ہے، نااہل ہے اور سلیکٹڈ ہے“۔مگر اس کے ساتھ ہی یہ کہنا نہیں بھولتی کہ ہم نے مل کر اس بجٹ کا مقابلہ کرنا ہے۔اپوزیشن یہ بھی دعویٰ کرتی ہے کہ اب تو پی ٹی آئی کے 12سے زائد ایم این ایز عمران خان سے ناراض ہیں،جہانگیر ترین گروپ بن چکا ہے۔لیکن اپوزیشن تین سال بعد بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے سے آگے نہیں بڑھی۔ایک ہلکی سی امید کا اظہارکیا جاتا ہے کہ بجٹ منظور کرانا حکومت کے لئے آسان نہیں ہوگایعنی تھوڑی سی کوشش کرکے بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ کہتے ہیں:”اگرغیبی مدد نہ ملی تو بجٹ منظور نہیں کرایا جا سکتا“۔تجزیہ کار اور مبصرین اپوزیشن کی زبانی اور باڈی لینگویج پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کو زمینی حقائق کاعلم ہے،اپوزیشن جانتی ہے ایوان میں مختلف الخیال ایم این ایز بیٹھے ہیں، ان میں سے بعض ایم این ایزاچانک ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے اور مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے مناظر ایک سے زائد مواقع پر دیکھے گئے ہیں۔پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔مسلم لیگ نون کے اندر بھی بیانیئے کی کشمکش سے یکسر انکار ممکن نہیں رہا۔پی پی پی کی قیادت شہباز شریف کے بیانیہ کے ساتھ کھڑی ہے،چیئرمین بلاول بھٹو نے بجٹ کے حوالے سے اپنے تمام ایم این ایز غیر مشروط طور پر اپوزیشن لیڈر کے سپرد کر دیئے ہیں۔اس اعلان سے اپوزیشن لیڈر یقینا مضبوط ہوئے ہیں،ان کے مخالفین کو پیغام مل گیا ہے کہ اپوزیشن لیڈر کوتنہا نہ سمجھا جائے۔مبصرین کا خیال ہے بجٹ کی منظوری ملکی سیاست کی آئندہ دوسالہ سمت کے بارے میں سارے ابہام دور کر دے گی۔ کم از کم ہر دوسرے روز حکومت کو گھر بھیجنے کے اعلانات رک جائیں گے۔بجٹ سے پہلے اسٹاک ایکسچینج میں حیران کن تیزی سے حکومت کے حق میں ہمدردی کوفروغ اور کامیابی کے تأثرات کو تقویت ملی۔گندم، چال اور گنے کی فصلوں نے معاشی ابتری کے تأثر کوزائل کیا۔ترسیلات زر میں اضافہ کرنٹ خسارے کوسرپلس سطح تک لے جانے میں مددگات ثابت ہوا۔تاجروں اور صنعت کاروں نے بجٹ کو متوازن قرار دیا ہے۔معاشی ماہرین نے بجٹ کو اطمینان بخش کہا ہے۔کاروباری برادری سمجھتی ہے بجٹ انقلابی نہیں۔ چھوٹے تاجر بجٹ کو اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ کہہ رہے ہیں۔عام آدمی نے ملے جلے تأثرات کااظہار کیا ہے۔تین منٹ سے زائد موبائل فون کال پر ایک روپیہ اضافی چارج کیاجائے گا۔ اسی طرح انٹر نیٹ 5جی بی سے زائد استعمال کرنے پر(ہرجی بی پر) 5 روپے اضافی چارج ہوں گے۔حکومت نے آئی ایم ایف کی تسلی کے لئے آمدنی کے ذرائع تلاش کئے ہیں۔ ابھی بجٹ پر بحث ہونا ہے، اس دوران اپوزیشن اپنی متبادل تجاویز دے گی اور رد و بدل کی گنجائش موجود ہے۔ وفاقی وزیر برائے توانائی حماد اظہر نے وضاحت کی ہے کہ بجٹ میں انٹرنیٹ ڈیٹا پر ٹیکس لگانے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔بجٹ پر بحث کے دوران سامنے آجائے گا۔ابھی آئی ایم کی رضامندی کے مراحل بھی طے ہونا باقی ہیں۔ تاہم توقع کی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف مان جائے گا۔منفی شرح نمو کا مثبت4کے قریب پہنچ جانا آئی ایم ایف کو قائل کرنے میں مدد دے گا۔یہ چھوٹے چھوٹے قرضے نچلی سطح پر معیشت پر طاری جمود کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے تو مایوسی کی جگہ امید پیدا ہوگی،غربت میں کمی کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔بعض مبصرین چھوٹے کاشتکار کو ملنے والے ڈیڑھ لاکھ روپے بلاسود قرضے کی افادیت بڑھانے کے لئے اس رقم میں اضافے کی تجویز دے رہے ہیں۔اسے دو یا ڈھائی لاکھ کر دیاجائے تو بہتر ہوگا۔فصل کی بوائی کے وقت چھوٹا کاشتکار بیج اور کھاد کی خریداری کے لئے پریشان ہوتا ہے، اس رقم سے وہ اپنی ضرورت پوری کر لے گا،اچھی فصل قرض کی ادائیگی میں سہولت فراہم کرے گی۔ادھر ادھر ہاتھ پھیلانے سے بچ جائے گا۔بتدریج وہ قرض کا حاجت مند نہیں رہے گا۔ حکومت نے مڈل مین کا کردار کم کرنے کے لئے بھی بعض اقدامات تجویز کئے ہیں۔ یہ بھی ماننا پڑے گا راتوں رات محل تعمیر نہیں کئے جا سکتے،ایک ایک اینٹ رکھنی پڑتی ہے۔ بجٹ سے عمومی طور پر یہی سمجھاگیا ہے کہ وزیر اعظم نے سچ کہا تھا، مشکل دور گزر گیا ہے۔اپوزیشن کے پاس اپنے دلائل ہیں، معیشت کی ترقی اور زوال ناپنے کا اپنا میزانیہ ہے،وہ اپنی جگہ کھڑی ہے اور بضد ہے کہ ملک کا ستیاناس ہوگیا ہے۔اس میں شک نہیں کہ حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں بری طرح ناکام رہی ہے،اس کی ایک وجہ مافیاز کی حد سے بڑھی ہوئی لالچ اور منافع خوری کی لت ہے۔دولت کی ہوس انسان سے تمام اخلاقی اقدار چھین لیتی ہے۔پاکستان کا اصل سیاسی، معاشی اور سماجی مسئلہ اس دولت پرست ذہنیت سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ دنیا نے اس ذہنیت کے خلاف کامیابی سے جنگ لڑی ہے۔پاکستان میں یہ کام تاخیر سے شروع ہوا ہے،لیکن آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔مسلم لیگ نون کے سابق صدر کی پیشگوئی کے مطابق کچھ پکڑے گئے ہیں، کچھ بھاگ گئے ہیں، کچھ پکڑے جائیں گے۔ لندن کی سڑکوں پر اور پارکوں میں بھی مخالفانہ نعروں کا سامناہے، دفتر میں بھی محفوظ نہیں، نقاب پوش تعاقب کرتے پہنچ جاتے ہیں۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاہے کہ تاجروں کو پکی رسید جاری کرنے کے لئے سرکاری افسر کی بجائے گاہک مجبور کریں گے۔اس مقصد کے لئے ایک انعامی اسکیم جولائی سے شروع کی جائے گی جس میں خریداری رسید کی فوٹو کاپی واٹس ایپ کرنے والوں کو انعامات دیئے جائیں گے۔ انعامی رقم ابتداء میں کروڑوں میں ہوگی جسے ایک ارب روپے ماہانہ کر دیا۔گاہک خود تقاضا کریں گے کہ انہیں اصل رسید دی جائے۔وزیر خزانہ نے کہا یورپی ممالک یہ ترکیب آزما چکے ہیں۔سیانے کہہ گئے ہیں جب ارادے پختہ ہوں، مقصد کی سچائی پر مکمل یقین ہوتو کامیابی قدم چومتی ہے۔دنیاجانتی ہے کہ چین کی آدھی سے زیادہ آبادی انقلاب سے پہلے افیم کے نشے کی عادی تھی۔ انقلابی حکومت نے نہ صرف اپنی قوم کو نشے کی لعنت سے چھٹکارادلایا بلکہ آج چین کی معاشی ترقی کے خلاف امریکی حکومت قانون سازی پر مجبور ہو گئی ہے۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی حلف برداری کے بعد قوم سے خطاب کے دوران چین سمیت غیرملکی صنعت کاروں سے اپیل کی تھی کہ مقامی نوجوانوں کو روزگار فراہم کیا جائے۔سوال یہ ہے کہ پاکستان نے سی پیک کے صنعتی زونوں میں اپنے نوجوانوں کے لئے روزگار کی شرط منوائی ہے یااس مسئلے سے اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں اورفرض کرلیا ہے کہ مستقبل میں بیروز گارنوجوان یہ جنگ خود لڑیں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں