امریکہ:عراق سے بھی نکلنے کافیصلہ

امریکی صدر جو بائیڈن نے سال کے آخر تک عراق سے بھی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔18سال پہلے امریکہ نے اپنے ایک وفادار اتحادی ملک عراق کے صدر صدام حسین پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار(ایٹم بم)رکھنے کا الزام عائد کرکے عالمی امن کا محافظ بن کر اپنی فوجیں عراق میں اتار دیں۔برطانیہ نے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملائی، اور آخر دم تک ساتھ دیا۔لیکن عراق کو ممکنہ حد تک تباہ کرنے کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہکہہ کر معافیمانگ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وسیع پیمانے پر اسلحے کی موجودگی کی جاری کردہ رپورٹ جھوٹی دی تھی، درست نہیں ثابت ہوئی۔امریکہ نے برطانوی وزیراعظم کے اعترافِ جرم نما بیان کی تائید نہیں کی اس لئے کہ وہ پہلے ہی مکمل تسلی کر چکا تھا کہ عراق کے پاس ایٹمی صلاحیت یا اسلحہ نہیں ہے۔عراقی صدرصدام حسین کویت وغیرہ جیسے پرامن ملکوں پر اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے کے لئے امریکی شہ پر ہلکی پھلکی ڈرامہ بازی کرتے رہتے تھے۔امریکہ کی کمائی کا معقول بندوبست ہوجاتا تھا۔دوسری جنگ عظیم کا بچا ہوااسلحہ Kiss to Saddam اور بموں کی قیمت لکھ کر عرب کے ریگستانی علاقے پر پھینک دیا جاتا۔عرب حکمران خوفزدہ ہوکر امریکہ کو ڈیمانڈ کیا گیا بھتہ اربوں ڈالر برسوں ادا کرتے رہے۔عراق نے امریکی مفادات کے لئے 8سال تک ایران سے سرحدی تنازعے کے نام پر جنگ بھی کی تھی لیکن جب امریکی مقتدرہ نے صدام حسین کو منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تو ان کی تمام خدمات کو یکسر فراموش کر دیا۔جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہے، اس کا تدارک صرف اپنی مدافعانہ قوت حسب ضرورت بڑھا کراور خداد داد بصیرت کی مدد سے کیاجاتا ہے۔ 1945سے جاری امریکی جنگی حکمت عملی اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے۔آٹھ دہائیوں تک مسلسل حالت جنگ میں رہنے کی قیمت امریکہ آئندہ کئی دہائیوں میں ادا کرے گا۔ڈونلڈ ٹرمپ اپنے آخری بجٹ میں 3ٹریلین ڈالرسے زائد کا خسارہ چھوڑ کر رخصت ہوئے ہیں۔جو بائیڈن اپنی بساط بھر کوشش کر رہے ہیں کہ امریکی معیشت مکمل تباہی سے بچ جائے۔دنیا کو اپنا محکوم بنانے کا جنون ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔پاکستان سمیت جن ملکوں نے امریکی مفادات کی جنگ میں اپنا کردار ادا کیا انہیں جانی و مالی نقصان کی صورت میں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ اپنی تشویش کامسلسل اظہار کر رہی ہے۔نیٹو کے جنرل سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن نے کہا ہے کہ افغانستان میں سیکیورٹی صورت حال شدید چیلنج بنی ہوئی ہے۔اقوام متحدہ نے بھی افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان پر حملوں کا خدشہ ظاہرکیاہے۔پاکستان میں جاری تحقیقات کے بعد کہا جاتا ہے کہ داسوڈیم اور لاہور میں ہونے والی وارداتوں میں مماثلت پائی جاتی ہے۔افغانستان میں جب تک مستحکم حکومت قائم نہیں ہوتی ہمسایہ ممالک کے سر پر تلوار لٹکتی رہے گی۔اور متصادم فریقین جس قسم کے دعوے کر رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے جلد امن قائم ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔یہ مفروضہ دم توڑ رہا ہے کہ طالبان کے چار دہائیوں تک میدان جنگ میں رہنے سے پر امن زندگی گزارنے کی خواہش ان کے دلوں میں بیدار ہوگئی ہو گی۔افغان حکومت بھی 20سال امریکی مفادات کی جنگ لڑنے سے کچھ نہیں سیکھی۔ان کی جمہوری فکر اس دوران زنگ آلود ہو چکی ہے ورنہ افغان طالبان اسی دھرتی کے سپوت ہیں،ان پر بمباری کرتے ہوئے رنج پہنچتا۔یہ دعویٰ کرنے سے پہلے ہزار بارسوچاجاتا کہ ہماری بمباری سے اتنے افغان طالبان مارے گئے۔ اب افغانستان کے عوام کو جنگ نہیں امن چاہیئے۔مگر ڈالروں کی چمک بصارت اور بصیرت دونوں چھین لیتی ہے۔جب ڈالروں کی گڈیاں ان گنت ہوں، مجموعی رقم اربوں میں ہو تو بھائی بھائی کا دشمن ہوجاتا ہے۔اشرف غنی حکومت ہو یا افغان طالبان ڈالروں کی قدر و قیمت سے واقف ہیں۔امریکہ میدان سے جنگ سے نکلنے کے باوجود مشاورت اور تربیت کی آڑ میں اپنی موجودگی کا حساس دلاتا رہے گا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکہ کا جھکاؤ ہمیشہ بھارت کی طرف رہا ہے اور دیر تک اس میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں۔امریکہ چین کی پیش قدمی روکنے کے لئے جو کچھ کر سکتا ہے،کرے گا۔امریکہ کی پالیسی سے اختلاف کے باوجوداس اپنی بقاء کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔ سب جانتے ہیں کہ وہ اپنے مفادات کی خاطر کہاں تک جا سکتا ہے۔اس کی پسپائی کے باوجود اس کی دہشت پسپانہیں ہوئی۔اس کے ہمدرد ابھی واشنگٹن سے امیدیں وابستہ رکھے ہوئے ہیں۔اس لئے جنہیں خوش فہمی تھی،افغانستان میں متحارب فریقوں کے رویہ کو دیکھتے ہوئے حقیقت پسندی کی طرف آنا چاہیے۔ ذہنی اور جسمانی طور پر ہر حادثے کے لئے چوکنا اور تیار رہنا ہوگا۔ابھی حالات درست ہونے میں وقت لگے گا۔امریکہ میدان سے نہیں نکلا، صرف اس نے اپنے فوجی نکالے ہیں۔کورونا کی چوتھی لہر کو پروپیگنڈا کہنے اور سمجھنے والے بھی ویکسین لگوائیں، امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اپنے عوام کے عدم تعاون کے باعث مشکلات سے دوچار ہے۔وہاں بھی تمام جتن کرنے کا باوجود تین میں سے ایک شہری ویکسین لگواتا ہے۔ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف تھک چکا ہے۔جب تک 100فیصد آبادی ویکسین نہیں لگواتی اس موذی وبا سے جان نہیں چھوٹے گی۔پاکستان کے وزیر تجارت چین سے تجارت معطل کرنے کے اشارے دینے لگے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ رائرس کی نئی قسم بوریوں کے ذریعے پاکستا ن منتقل ہو رہی ہے۔احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔کورونا کا وار برداشت کرنا مہنگا پڑے گا، اپنے پیاروں کی جان جا سکتی ہے۔ہٹ دھرمی سے نقصان پہنچے گا۔جس طرح چیچک اور دیگر خطرناک امراض کے ویکسین باقاعدگی سے بچوں کی پیدائش کے ساتھ ہی کرا لی جاتی ہے اس نئی بیماری کو بھی اسی فہرست میں شامل کرنا ہوگا۔ ابھی آپ صحت مند ہیں،سینٹر تک جاناچند منٹ کی بات ہے۔جو کام نقصان اٹھانے کے بعد کرنا ہے، وہی کام نقصان اٹھائے بغیر کرنا زیادہ مناسب ہے۔امریکی پسپائی سے دنیا سبق سیکھ سکتی ہے،لیکن یہاں بھی ہٹ دھرمی حائل ہے۔افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے مگر افغان مہاجرین کی آمد کا خطرہ ٹل سکتاہے مگرفریقین کی ضد اور انا پرستی کے علاوہ ڈالر حائل ہیں۔ دعا کی جائے اَللہ سب کو حفظ و امان میں رکھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں