گورنر کی جانب سے مشورے کے بغیر وائس چانسلر کی تعیناتی آئین کی خلاف ورزی ہے،بلوچستان ہائی کورٹ

کوئٹہ:بلوچستان ہائی کورٹ کے جج صاحبان جناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ اور جناب جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل بینچ نے بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز ایکٹ میں ترامیم اور وائس چانسلر کی تعیناتی کے حوالے سے دائر آئینی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر کی جانب سے حکومت /کابینہ /وزیر اعلی کے مشورے کے بغیر وائس چانسلر کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 105 کی خلاف ورزی ہے جیسا کہ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز ایکٹ 2017 کے سیکشنز 15(1) اور (2) میں یہ اختیار گورنر کو حاصل ہے کہ وہ یہ تعیناتی حکومت کابینہ وزیر اعلی کے مشورے کے بنا کر سکتے ہیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 105 کی خلاف ورزی ہے اور یہ دفعات قانون سے کالعدم کی جاتی ہے۔قبل ازیں معزز بنچ کے جج جناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ یہ فوری آئینی درخواست اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ معزز عدالت جوڈیشل ریویو کے تحت اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ایکٹ کے غیر قانونی دفعات کو ملاحظہ کر سکتی ہے کہ ایا وہ غیر آئینی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ایکٹ کے سیکشن15(1) جو کہ گورنر /چانسلر کی جانب سے حکومت/ کابینہ/ وزیر اعلی کے مشورے کے بغیر وائس چانسلر کی تعیناتی سے متعلق ہے اسے غیرآئینی قرار دیا جائے اور اس پر قائم سپر اسٹرکچر کو بھی قانونی طور پر بے اثر کیا جائے۔ایکٹ کے سیکشن15(2) کو بھی آئین کے آرٹیکل 105 کے خلاف ہونے پر غیر آئینی قرار دیا جائے،معزز عدالت جواب دہندگان کو بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز ایکٹ 2017 کی غیر قانونی دفعات میں ضروری ترامیم کا حکم دے اور ان دفعات کو آئین کے آرٹیکل 105 کے مطابق آئینی دفعات سے ہم آہنگ بنایا جائے،مزید یہ کہ معزز عدالت انصاف, مساوات اور منصفانہ کاروائی کے لیے کوئی بھی مناسب ریلیف دے سکتی ہے معزز بینچ کی جانب سے جناب جسٹس محمد ہاشم خان کاکڑ نے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے درخواست گزاروں کہ وکیل ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کو سنا اور ان کی گراں قدر مدد سے دستیاب ریکارڈ کا بھی جائزہ لیا اس آئینی درخواست میں اٹھایا گیا سوال کوئی نیا نہیں ہے اور عدالتوں کی جانب سے بارہا اس کا جواب دیا گیا ہے تاہم اپریل 2010 میں منظور ہونے والی اٹھارویں ترمیم کے بعد اس کا جواب بدل گیا ہے اٹھارویں ترمیم نے سیاسی نظام میں شفافیت کو بہتر کیا ہے اور انفرادی صوابدید کو کم کیا ہے ہ اس ترمیم نے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا صوبائی خودمختاری میں اضافہ کیا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنایا اور بنیادی حقوق کو وسعت دی گڈگورننس کو فروغ دیا اس نے آئین کے پارلیمانی کردار کو بحال کیا اعلٰی عدالتوں کے ججز کی تقرری پر پارلیمانی نگرانی کی تجویز دے کر پارلیمنٹ اور عدلیہ کے تعلقات کی ازسرنو وضاحت کی اور آئین میں کنکریٹ لیجسلیٹیو لسٹ کو ختم کرتے ہوئے کئی اہم کام صوبائی حکومتوں کو سونپیں اور فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ میں ترمیم کی تاکہ صوبائی خودمختاری کے سوال کو حل کیا جائے آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے پیش نظر صوبائی حکومتوں نے قوانین میں ترمیم کی نئے اداروں کا فریم ورک قائم کیا پالیسی اور حکمت عملی تیار کی اور نئی حاصل کی گئی ذمہ داریوں کو مؤثر طریقے سے نبھانے اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا کی درخواست پر مزید بحث کرنے سے پہلے یہاں یہ بتانا مناسب ہوگا کہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے کنکریٹ لسٹ کے حصہ 1 کے تحت تعلیم کو بطور مضمون اندراج 38 میں رکھا گیا تھا جسے فیڈرل لیجسلیٹیو کی لسٹ کے حصہ 11 میں بطور اندراج 12 کیا گیا ہے وفاقی لیجسلیٹو کی لسٹ کے حصہ اول میں اٹھارویں ترمیم سے پہلے تعلیم کا کوئی اندراج نہیں تھا کنکرنٹ لسٹ کے اندراج 38 میں تعلیم سے متعلق دفعات بطور نصاب، سلیبس، منصوبہ بندی، پولیسی سینٹر آف ایکسیلینس اور تعلیم کے معیارات شامل ہیں ہیں کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے معیار کے علاوہ تمام افعال صوبوں کو منتقل ہوگئے ایک نئے اندراج، اندراج نمبر2 کے مطابق ہائر ایجوکیشن کے لئے اداروں میں معیار اور تحقیق، سائنسی اور تکنیکی اداروں کو فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے حصہ 11 میں رکھا گیا اس طرح اس معاملے پر صوبوں اور وفاق کا مشترکہ دائرہ اختیار قائم کیا گیا تھا اس طرح تعلیم کو ایک حق تسلیم کیا گیا تھا لیکن قابل انصاف نہیں بہرحال اٹھارویں ترمیم نیاس حق کو قابل انصاف بنا دیا یعنی اسے عدالتوں کے ذریعے نافذ کیا جاسکتا ہے کنکرنٹ لسٹ کے آئٹم نمبر 38اور 39 کے پیش نظر پارلیمنٹ نے بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس 2002 جاری کیا جس کے ذریعے وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن ملک بھر میں اعلی تعلیم کے لئے بطور ایک ریگولیٹر کیتشکیل دیا گیا یہ امر باعث تنازعہ نہیں ہے کہ تعلیم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آغاز سے صوبائی موضوع تھا اور ہے لیکن ہائر ایجوکیشن کے لیے تحقیق،سائنسی اور تکنیکی اداروں کے معیارات فیڈریشن کے دائرہ اختیار میں ہیں ان میں معیارات کو محفوظ بنانے کے لیے وفاق نے ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس 2002 کے تحت ہائیر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا ہے جو کہ اس موضوع پر ایک موجودہ قانون ہے کمیشن بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنے کے لیے اعلی تعلیمی پالیسی بنانے اور کوالٹی ایشورنس کے ساتھ ساتھ تسلیم شدہ تعلیمی ڈگریوں کی فراہمی میں اداروں کی ترقی کا ذمہ دار ہے اس ترمیم نے وفاقی اکائیوں کے لئے خود مختاری کو یقینی بنایا اور اس کے بعد تعلیم کا مضمون صوبوں کے خصوصی اختیارات میں آگیا وفاقی مقننہ کے پاس اب بھی تعلیم کے موضوع پر وفاقی علاقے تک قانون سازی کا اختیار ہے جہاں تک صوبوں کا تعلق ہے وہ قانون سازی نہیں کر سکتے سوائے ہائیرایجوکیشن تحقیق اور سائنسی و تکنیکی اداروں سے متعلق معاملات پر جو کہ فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ ll کے حصے میں آتے ہیں اٹھارویں ترمیم کے تحت سندھ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے قیام جس کا اختیار ان صوبوں میں ہائر ایجوکیشن کو پرموٹ کرنا ہے اس کے سوا دیگر صوبوں کی حکومتوں نے اپنے قوانین میں ترامیم کی ہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کا تقرر چانسلر حکومت کے مشورے پر کرے گا اگرچہ حکومت بلوچستان ضروری قانون سازی اور ضروری ترامیم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن اس کے باوجود بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز ایکٹ 2017 کا قانون اس سلسلے میں پہلا قدم ہے بظاہر یہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور آرڈینینس (آرڈیننس 2002 LVIII)اور دی راولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی ایکٹ 2017 کے قانون کی ہوبہو نقل ہے جس کا سیکشن نائن تھری کہتا ہے کہ چانسلر ایکٹ کے تحت فرائض کی انجام دہی ہیں کا پابند ہوگا جس طرح کے کسی صوبے کا گورنر کام کرتا ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 105 کی شق(1) کے تحت پابند ہے اس طرح سیکشن 12 کہتا ہے کہ حکومت وائس چانسلر کی تقرری کی سفارش کے لیے پانچ ممبران پر مشتمل ایک سرچ کمیٹی تشکیل دے گی اور حکومت تین افراد پر مشتمل وائس چانسلر کی تقرری کے لیے موضوع ایک پینل تجویز کرے گی اور چانسلراس کے مطابق وائس چانسلر کا تقرر کرے گا جبکہ زیربحث ایکٹ میں حیران کن طور پر حکومت کے مشورے کے بغیر گورنر کے ذریعے وائس چانسلر کی تقرری کے سیکشن 15(1)کو اٹھارویں ترمیم کی روح اور آئین کے آرٹیکل 105 کو نظر انداز کرکے شامل کیا گیا ہے جبکہ آئین کا آرٹیکل 105 واضح طور پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ گورنر یہ کام کابینہ/ وزیر اعلی کے مشورے سے انجام دے گا اور اس دفعہ کے تحت وہ واحد آپشن جو آئین کے آرٹیکل ایک سو پانچ میں گورنر کو حاصل ہے وہ یہ ہے کہ 15 دن کے اندر گورنر وزیر اعلیٰ /کابینہ کو اس مشورے پر دوبارہ غور کرنے کا کہہ سکتا ہے بصورت دیگر گورنر دس دنوں کے اندر نظر ثانی شدہ مشورے کے مطابق عمل کرے گا۔ عدالت مذکورہ بالا بحث و تمحیص اور عامر رضا اشفاق بخلاف منہاج احمد خان (SCMR6 2012)میں سپریم کورٹ کے احکامات کے تناظر میں جہاں عدالت عظمیٰ نے گورنر کو حکم دیا کہ وہ سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرری میں وزیراعلی کے مشوروں پر عمل کریں اور حکام کو ہدایت کی گئی کہ وہ پروفیسر خواجہ علقمہ کی بطور وائس چانسلر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی تقرری کا نوٹیفکیشن وزیراعلی پنجاب کی سمری کے مطابق جاری کرے لہذا یہ عدالت بھی مذکورہ آئینی درخواست کو بھی اسی تناظردیکھتی ہے معزز عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے گورنر وزیراعلی کے مشورے پر عمل کرنے کا پابند ہے عدالت نے جواب دہندگان کو حکم دیا کہ وہ BUMHS کے ایکٹ 2017 کی غیر قانونی دفعات میں ضروری ترامیم کر کے اسی آئین کی دفعات کے مطابق بنائے

اپنا تبصرہ بھیجیں