بنگلہ دی،ملکی معیشت اور ہمارے تہذیبی ورثے کا امتحان

حسن عسکری رضوی
ملک کی مجموعی صورت حال ایک فرد واحد سے لیکر پوری مملکت معاشی تباہی کا منظر پیش کررہی ہے کہیں ہم پیسوں کے لئے جھولی پھلائے ہوئے ہیں کہیں پیٹرول تو کہیں گندم اور خوردنی تیل کے لئے دوسروں کے در پر بیٹھے ہیں ایسے میں جب پڑوسی ملک بنگلہ دیش جیسے ہم نے اب تک مشرقی پاکستان کہنا نہیں چھوڑا کے مالی ذخائر کی خبریں جو کہ تقریباً 40ارب ڈالر کے آس پاس ہے اور بنگلہ دیش کی دن دُگنی اور رات چُگنی ترقی کی اطلاعات ہم تک پہنچ رہی ہیں تو ایک عجیب سی کیفیت کا سامنا ہوتا ہے اور کئی سوالات جنم لیتے ہیں جواب تو شاید ان سوالوں کا نہ مل سکے لیکن سوالات کے نشتر ذہن اور روح کو ذخمی کئے رکھتے ہیں۔سوالات تو بہت سے ہیں تا ہم ایک سوال پر اکتفا کر کے آگے جانا چاہوں گا۔کیا بنگالی اپنے موقف پر درست تھے؟یا ہمارا نقطہ نظر صحیح تھا؟وقت نے کیا ثابت کیا ہے؟اس میں پڑ کر مزید کڑواہٹ برداشت نہیں کرسکتا،تا ہم حقیقت جتنی جلدی تسلیم کرلی جائے اور اپنی غلطی تسلیم کر کے اصلاح کرلی جائے تو مشکلات سے بھی جلد نکلا جاسکتا ہے۔ملکی معیشت کے لئے جو بھی اقدامات کئے جارہے ہیں ان کا نتیجہ صفر برآمد ہورہا ہے ڈالر کی قیمت ہر روز بڑھ رہی ہے اگر حکومتی اقدامات کی بات کی جائے تو کہیں بازار جلد بند کرنے پر زور دیاجارہا ہے کہیں قرض دینے کی حکمت عملی کی بات ہورہی،کفایت شعاری کی انتہا دیکھئے کہ ایک کب چائے کو بھی ملکی معیشت کے لئے انتہائی اہم سمجھا جارہا ہے اور دوسری جانب پوری حکومتی مشینری کے اخراجات کی بات کی جائے تو ”مالِ مفت دل بے رحم“ کی صورت نظر آئی۔ملکی معیشت کو کس طرح بہتر کیا جائے تو اگر ہم اپنے آس پاس کے ممالک پر نظر ڈالیں تو ایسے کئی ممالک نظر آئینگے جنہوں نے انقلابی اقدامات کے ذریعہ اور مجموعی قربانی کے جذبے کے تحت اپنے وطن کو معاشی استحکام بخشا،آج وطن عزیز کے لئے قربانی دینے کا وقت ہے پوری قوم اجتماعی طور پر معیشت کی بحالی کے لئے کمر بستہ ہوجائے،کفایت شعاری کا درس صرف عام شہری کیلئے نہ ہو بلکہ وزیراعظم سے لیکر ایک عام پاکستانی شہری عملی کفایت شعاری کا مظہر نظر آئے۔ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر کیا جائے،اس میں جس تقسم کی بھی چور دروازے ہیں انہیں بند کیا جائے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی طاقت،دھونس اور دھمکی کو ریاستی طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے اور ٹیکس وصولی کو جامع اور اس کے دائرے کو وسیع کیا جائے کیونکہ حکومت نے ٹیکس وصولی کے لئے جو اہداف مقرر کئے ہیں وہ آسانی سے حاصل نہیں کئے جاسکتے ہیں۔
روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے پیٹرول کا بحران شدت اختیار کر چکا ہے اس میں مزید شدت آسکتی ہے اس بحرانی صورت حال سے نمٹنے کے لئے جامع حکمت عملی اختیار کر نے کی ضرورت ہے پیٹرول کی قیمت میں تغاوت کی پالیسی کے اچھے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں یعنی موٹر سائیکل،رکشہ اور800سی سی گاڑیاں جو عام آدمی کی سواری ہیں ان کے لئے پیٹرول کی قیمت بڑی گاڑیوں کی نسبت کم رکی جائے کیونکہ جو بڑی گاڑیاں رکھتے ہیں وہ مہنگا پیٹرول بھی خرید سکتے ہیں۔اسی طرح موسم گرما میں گرم علاقوں کے لئے بجلی کی ریٹ کم کر دیئے جائیں اور موسم سرما میں سرد علاقوں کے لئے گیس کے ریٹ کم کئے جائیں خلاصہ پالیسی سازی میں بہت سی مثبت تبدیلیوں کے ذریعہ حکومت عام آدمی کو سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا اعتماد بھی حاصل کرسکتی ہے۔
بات ہو جائے ہمارے اس تہذیبی ورثے کے جو اس خطہ میں ہزاروں سال سے ارتقائی عمل سے گزر کر آج کی جدید صدی میں نئے چیلنجز کا سامنا کررہا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے انقلاب کے سامنے تہذیبی ورثہ کیا اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے؟یا ناگزیر ارتقائی عمل کے تحت رونما ہونے والی مثبت یامنفی تبدیلیوں کو اپنا حصہ بنارہا ہے اور پھر ان تبدیلیوں کے ذریعہ یا زیر اثر جو تہذیبEvaluateہو کر نئے کلچرل اور سماج کوتشکیل دے گی تو کیا ہم اس سماج کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں،جیسے اب سستے عوامی تہواروں کی جگہ دولت اور نمو دو نمائش کے بھونڈے اظہار نے لے لی ہے سستی اور عوامی خوشی اب تفریح نہیں تفریق کا ذریعہ بن گئی ہیں ذرا سوچئے۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں