اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے،پاکستان بار کونسل

پاکستان بار کونسل کے چیئرمین عابد ساقی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ وگرنہ انہوں نے آئین اور قانون کے مطابق کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘فیض آباد دھرنا کیس’ میں اسٹیبلشمنٹ کے مختلف اداروں کے حوالے سے جو باتیں سامنے آئی تھیں۔ وہ سچ تھیں لیکن اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ مستقبل کے چیف جسٹس کے ایسے ریمارکس نہیں ہونے چاہیے۔ اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ جسٹس فائز عیسی سے چھٹکارا چاہتی ہے۔

اس بارے میں سپریم کورٹ کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان کی نظر میں اسٹیبلشمنٹ اور جسٹس عیسیٰ کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

اُن کے بقول جسٹس فائز عیسیٰ خود کو ایسے ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسائل یا لڑائی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو باقی ججز کے ساتھ ایسا کیوں نہیں ہے۔

اظہر ایڈووکیٹ کے مطابق باقی ججز غیر ضروری باتوں میں نہیں الجھتے۔ ان کے بقول جسٹس عیسیٰ کے علاوہ جسٹس وقار سیٹھ بھی غیر ضروری باتوں میں دخل اندازی کر رہے ہیں۔
اظہر ایڈووکیٹ نے دعویٰ کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ ایک مائنڈ سیٹ لے کر چل رہے ہیں جس کے تحت انہوں نے ملک میں احتساب اور عوامی مفاد کے لیے کوئی فیصلے نہیں دیے۔

ان کے بقول صدارتی ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے جو دستاویزات دینے میں 13 ماہ لگا دیے۔ اگر پہلے دن دے دیتیں تو معاملہ حل ہو جاتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلوں میں فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ اس فیصلے کو جہاں سیاسی پنڈت فوج کے سیاسی کردار کے آگے بندھ باندھنے کے مترادف قرار دیتے ہیں وہیں ناقدین اس فیصلے سے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں بہت سے قانونی سقم موجود ہیں۔

فیض آباد دھرنا کیا تھا؟
ختم نبوت کے حلف نامے سے متعلق آئین میں متنازع ترمیم کے خلاف مذہبی جماعت تحریکِ لبیک نے نومبر 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دیا تھا جو کئی روز تک جاری رہا تھا۔

مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طریقے سے ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا۔ جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں