بیگار کیمپ

تحریر: انور ساجدی
جو حکمران ہیں انہوں نے اپنی ریاست کو بیگار کیمپ میں تبدیل کر دیا ہے۔وہ اپنے عوام سے ایسے مفت بیگار لے رہے ہیں جیسے خرکار اغواء کے بعد بچوں سے لیتے ہیں۔یہ ایک ایسا بیگار کیمپ ہے کہ حکمران عوام کو کوئی سہولت دینے کے لئے تیار نہیں جبکہ ساری آسائشیں اور مراعات اپنے لئے وقف کر رکھی ہیں۔حالیہ بجٹ کو دیکھئے اس میں عام آدمی پر کھربوں روپے کے ٹیکس عائد کر دئیے گئے ہیں جبکہ بدلے میں ایک پائی کی سہولت نہیں رکھی گئی ہے۔یکم جولائی کو جب یہ ظالمانہ ،عوام دشمن اور متنازعہ بجٹ نافذ العمل ہوگا تو پاکستانی عوام زندہ درگور ہو جائیں گے۔پیپلز پارٹی پھوں پھاں کر رہی ہے لیکن یہ محض دکھاوا ہے۔کیونکہ جن عناصر نے ان کی مل کر حکومت بنائی ہے انہوں نے ہر قیمت پر بجٹ کی منظوری لے لینی ہے کیونکہ اس کے بغیر حکومتی کاروبار ٹھپ ہو جائے گا۔چونکہ ن لیگ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کا استاد،مینٹور اور آقا ایک ہے لہٰذا ان میں سے کسی کی مجال نہیں کہ وہ بجٹ کو مسترد کرنے کی جرات کر سکے۔حالانکہ بظاہر ن لیگ کی حکومت پیپلزپارٹی کی حمایت کے بغیر ایک دن بھی نہیں چل سکتی اس کے باوجود اس نے پیپلزپارٹی سے بجٹ تجاویز سے متعلق کوئی صلاح و مشورہ نہیں کیا بلکہ اس کی ضرورت تک محسوس نہیں کی ۔وجہ یہ ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف نے بنا کر وزیر خزانہ کے حوالے کیا ہے اور اسے ہدایت کی ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں پیش کر دے اس کا اور کوئی کام نہیں۔معلوم نہیں کہ اس صورتحال کے بعد حکومت پیپلز پارٹی کی کوئی اشک سوئی کرسکتی ہے کہ نہیں۔امکان یہی نظر آتا ہے کہ جب تک حاکمان بالا کی نظر نیک اس حکومت پر ہے پیپلزپارٹی کو پرانی تنخواہ پر گزارہ کرنا پڑے گا۔اس سے جو بھی سلوک روا رکھا جائے گا اسے برداشت کرنا پڑے گا۔
حالیہ بجٹ کی وجہ سے ہر قسم کے کاروبار کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ناقابل برداشت ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی کا طوفان آئے گا ماچس سے لے کر گاڑیوں تک ہر چیز پاکستانی عوام کی قوت خرید سے باہر ہو جائے گی۔بجلی کو لیجیے ایسا سسٹم بنایا گیا ہے کہ ہر ہفتہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جو10 قسم کے ٹیکس بلوں میں شامل کئے جاتے ہیں۔ان کی شرح بھی خود بخود بڑھ جاتی ہے۔اوپر سے پورے ملک میں تباہ کن لوڈشیڈنگ جاری ہے۔صوبہ پختونخواہ اور بلوچستان میں یوں سمجھئے کہ بجلی آتی ہی نہیں ہے۔ 24 گھنٹوں میں بجلی آنے کا دورانیہ محض چار گھنٹے ہے۔بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں لوگوں نے ایک بلب والے سولر پینل نصب کر رکھے ہیں۔وہاں پر سرکاری بجلی کا عمل دخل ختم ہوگیا ہے۔چار گھنٹہ روزانہ کے بل بھی پورے آ رہے ہیں یعنی بجلی ہو نا ہو حکومت نے عوام کی چمڑی ادھیڑنی ہے۔دنیا کے کسی ملک میں ایسی ریاستی غنڈہ گردی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے جو ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں اگر کوئی صارف بل ادا نہیں کرسکتا تو وہ میٹر میں پیسہ ڈال کر حسب ضرورت بجلی استعمال کرسکتا ہے۔بجائے یہ کہ پاکستانی حکومت کوئی ایسا سسٹم لائے وہ عوام کو بجلی چور ڈاکو اور بے ایمان کہہ کر لوڈشیڈنگ کے ذریعے ان پر ظلم ڈھاتی ہے۔
بجلی کو لے کر پشتونخواہ میں بغاوت کی کیفیت ہے۔جب سے علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ بنے ہیں وہ روز وفاقی حکومت کو تڑی لگاتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرے اور صوبہ کے بجلی کی پیداوار کے واجبات ادا کرے لیکن وفاق کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے اپنے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کے گرڈ اسٹیشن میں جا کر بجلی اسٹارٹ کروا دی۔اگر بجلی نہ تھی تو بحال کیسے ہوگئی۔اسی طرح کے واقعات صوبہ کے دیگر علاقوں میں بھی رونما ہو رہے ہیں۔پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی زبردستی گرد اسٹیشنوں میں جا کر بجلی بحال کروا رہے ہیں۔بے شک علی امین گنڈاپور ایک جذباتی اور بڑھک مار رہنما ہیں لیکن بجلی کے بارے میں ان کے مطالبات جائز ہیں۔ چوری کا الزام لگا کر ایک صوبے کی بجلی بند کرنا وفاق کو زیب نہیں دیتا۔حالانکہ پختونخواہ صوبہ باقی علاقوں سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے کیونکہ تربیلا وہاں پر ہے وارسک وہاں پر ہے صوبائی حکومت کو وفاق نے بجلی کے سرچارج کی مد میں کبھی پوری رقم ادا نہیں کی۔بے چارہ بلوچستان تو اپنی بجلی پیدا کرتاہے جو اس کی ضروریات سے زائد ہے۔مثال کے طور پر حبکو پاور سے12سو میگا واٹ بجلی حاصل ہوسکتی ہے جبکہ اوچ پاور پلانٹ کی پیداواری گنجائش6 سو میگاواٹ ہے۔اگر یہ بجلی بلوچستان کو فراہم کر دی جائے تو وہاں کبھی لوڈشیڈنگ نہ ہو لیکن آئی پی پی ایز سے ظالمانہ معاہدہ کے بعد حبکو پاور سے کم پیداوار لی جاتی ہے اور اسے کیپسٹی پیٹمنٹ کے ذریعے پورے 12 سو میگاواٹ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔اسی طرح جو باقی90 پرائیویٹ پاور پلانٹ ہیں انہیں بھی بجلی حاصل کئے بغیر مکمل ادائیگیاں کی جا رہی ہیں وہ بھی ڈالروں میں۔اس صورتحال نے پاکستانی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا ہے اور پاکستان پر قرضوں کا ناقابل برداشت پہاڑ جیسا بوجھ ڈال دیا ہے یہ کارنامہ کسی اور کا نہیں بلکہ پاکستان کو ترقی کے راستے پر ڈالنے کے دعوے دار ن لیگ کے سپریم لیڈر نوازشریف کا ہے۔
ساہیوال میں چین کی مدد سے کوئلہ سے چلنے والا پلانٹ بھی میاں صاحب کا کارنامہ ہے جس کے لئے ہزاروں میل دور سے کوئلہ لانا پڑتا ہے۔اگرمیاں صاحب موٹرویز اور سی پیک کے معاہدوں کا کریڈٹ لیتے ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کو کھربوں ڈالر کے قرضوں کے جال میں میاں صاحب نے ہی پھنسایا ہے۔اگر یہ قرضے نہ اتارے گئے تو پاکستان کا دیوالیہ نکل جائے گا۔دیوالیہ ہونے کے بعد ساری دنیا پاکستان کو ایک ناکام ریاست تصور کرے گی اور کوئی بھی ملک یا سرمایہ کار اس ملک کا رخ نہیں کرے گا۔تازہ مثال سامنے ہے کہ حکومتی دعوئوں کے باوجود سعودی ولی عہد پاکستان نہیں آئے اور نہ ہی دورہ کرنے والے سعودی سرمایہ کاروں نے کوئی خاص دلچسپی ظاہر کی۔اسی طرح متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری بھی ایک خوش کن نعرہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس کے بڑے تحفظات ہیں چین کی پالیسی ہے کہ وہ کبھی منفی بات نہیں کرتا لیکن کوئی شہبازشریف سے پوچھے کہ چینی صدر نے تین گھنٹے تک ان سے کیا باتیں کہیں اور کن مسائل کی طرف توجہ دلائی اگر یہی حالات رہے یا کوئی انہونی ہوگئی تو چین کے27 ارب ڈالر کیسے واپس ہوں گے جبکہ ان قرضہ جات کی اقساط واجب الادا ہو گئی ہیں۔پاکستانی حکومت ہر سال ادائیگی کے لئے مہلت طلب کرتی ہے۔بنیادی بات یہ ہے کہ ریاست کی اپنی پالیسیاں ٹھیک نہیں ہیں۔خود حکمرانوں کے پاس ایسی واضح سمت نہیں کہ ریاست کو کس طرف لے جایا جائے۔کبھی جھکائو چین کی طرف ہوتا ہے اور کبھی امریکہ کی طرف یعنی کوئی متعین خارجہ پالیسی نہیں ہے۔یہ دوغلی پالیسی آشکار ہو چکی ہے جدید دور میں کسی کو بھی زیادہ دیر تک بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔بیک وقت چین اور امریکہ کو خوش نہیں رکھا جا سکتا۔پاکستانی پالیسی کا سب سے بڑا سقم یہ ہے کہ یہ یہاں پر انتخابات فراڈ،پارلیمنٹ بے اختیار،آئین بے توقیراور حکمران جعلی اور محض شو بوائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔پہلے تو یہ طے ہو کہ ملک کس طرح چلے گا اور اسے کون چلائے گا۔یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا معاملہ کب تک چلے گا۔ریاست کو عجیب مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔جب تک یہ طے نہیں کیا جاتا کہ یہ ریاست ہے کیا؟یعنی یہ اسلامی ہے،جمہوریہ ہے پارلیمانی ہے یا فرد واحد کی حکمرانی تو آگے بڑھنے ترقی کرنے اور عوام کو خوشحالی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔کہا جاتا ہے کہ اس وقت بجلی کی پیداوار چالیس ہزار میگاواٹ ہے لیکن ترسیلی لائنوں کی گنجائش24 ہزار میگاواٹ ہے۔باقی بجلی بن تو رہی ہے اس کی ادائیگی بھی ہو رہی ہے لیکن عوام تک نہیں پہنچ رہی ہے۔جب میاں صاحب نے پیداوار بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا توان میں اتنی فہم نہیں تھی کہ زیادہ پیداوار کا اس وقت تک فائدہ نہیں جب تک ٹرانسمیشن لائنوں میں توسیع نہ ہو۔ویسے بھی موجودہ ٹرانسمیشن لائنیں ازکار رفتہ اور فرسودہ ہیں اور یہ بھٹو دور کی ہیں۔میاں صاحب کو چاہیے کہ وہ پہلے نئی ٹرانسمیشن لائنیں بچھاتے اس کے بعد ہی نئے کارخانے لگواتے۔چنانچہ ان کا لایا ہوا عذاب کینسر کی شکل اختیار کرچکا ہے اب بھی ن لیگی انہیں مسیحا، شیر شاہ سوری اورارطغرل غازی کا لقب دے رہے ہیںاگر ایسے ہی مسیحا ہوں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں