شدید ناکامی کے100 دن
انور ساجدی
سوشل میڈیا کی افواہ یا خبریں ہیں کہ میر آصف علی زرداری کو ملکی نظم و نسق سے متعلق اہم ذمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں۔خاص طور پر انہیں بلوچستان میں قیام امن کا بڑا ٹاسک دے دیا گیا ہے تاکہ سی پیک کے منصوبے امن کی خراب صورتحال کی وجہ سے متاثر نہ ہوں۔ویسے کئی لوگوں کا ماتھا اس وقت ٹھنکا تھا جب زرداری نے عجلت میں گوادر کا دورہ کیا۔جہاں وزیر داخلہ محسن نقوی کور کمانڈر جناب نسیم اور دیگر اعلیٰ حکام نے ان کا خیرمقدم کیا۔گوادر میں انہیں لا اینڈ آرڈر کے بارے میں بریفنگ دی گئی چونکہ ایجنڈا مخفی تھا اس لئے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بریفنگ کا اصل مدعا کیا ہے تاہم دو روز قبل جب دہشت گردی کے خلاف عزم استحکام کے نام سے آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تب سمجھ میں آیا کہ زرداری گوادر کیوں گئے تھے اور ان کو سونپے گئے اہداف کیا ہیں؟۔
مقتدرہ کی پالیسی شفٹ اس بات کا غماز ہے کہ شہبازشریف کی حکومت اپنے پہلے سو دنوں میں شدید ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔اس دوران کوئی ایک کامیابی بھی حکومت کے کریڈٹ پر نہیں ہے۔البتہ وافر مقدار میں گندم موجود ہونے کے باوجود اس حکومت نے ایک کھرب روپے کی گندم درآمد کی جبکہ نگراں حکومت اس سے پہلے3کھرب کی گندم منگوا چکی تھی۔چونکہ مخالفین کو پتہ چل چکا ہے کہ محسن نقوی کس کے بندے ہیں اس لئے انہوں نے گندم اسکینڈل کا ذمہ دار نقوی کو ٹھہرانا شروع کر دیا ہے تاکہ زرداری اور مقتدرہ مل کر انہیں جو بنانا چاہتے ہیں اس کا راستہ روکا جاسکے۔
کی بورڈ وارئیرز کا کہنا ہے کہ شہبازشریف سے اہم کام لئے جا چکے جیسے کہ تباہ کن بجٹ کی تیاری ،بجلی کی ہوش ربا مہنگائی وغیرہ چنانچہ منتظمین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ شہبازشریف اتنی صلاحیت نہیں رکھتے کہ جب دو صوبوں میں ایک بہت بڑا آپریشن شروع ہو تو معاملات کو سنبھال سکیں۔اس لئے بعض اہم ترین اختیارات صدر زرداری اور محسن نقوی کو سونپے جا رہے ہیں اگرچہ صدر کی حیثیت سے زرداری افواج کے سپریم کمانڈر ہیں لیکن ماضی میں کسی بے اختیار صدر کو یہ احساس نہیں ہونے دیا گیا کہ وہ واقعی میں سپریم کمانڈر ہیں چونکہ بلوچستان پیپلز پارٹی کو الاٹ کر دیا گیا ہے اس لئے یہ ذمہ داری زرداری پر ڈال دی گئی ہے کہ وہ اس صوبے کے حساس اور نازک معاملات کو ٹھیک کریں۔یہی وجہ ہے کہ جناب سرفراز بگٹی کو وزارت اعلیٰ کا عہدہ دیا گیا ہے اس وقت بلوچستان کے لاءاینڈ آرڈر کے حوالے سے دو حصے ہیں۔پہلے مرکزی اور جنوبی علاقوں میں حالات خراب تھے لیکن بارڈر کی بندش اور ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کی وجہ سے شمالی بلوچستان میں بھی احتجاج یا بغاوت جنم لے چکی ہے چمن میں کئی مہینوں سے احتجاج جاری ہے۔ژوب میں ٹی ٹی پی کے جنگجو کارروائیاں کرتے رہتے ہیں چنانچہ آصف علی زرداری ،سرفراز بگٹی اور محسن نقوی کی تکون کو ان دونوں علاقوں کے لئے علیحدہ علیحدہ حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گی۔عزم استحکام نامی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ اس لئے کیا گیا کہ سی پیک کے منصوبوں میں دخل اندازی کو روکا جا سکے اور یہ پہلا موقع ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ عہدیدار نے سیاسی جماعتوں اور اعلیٰ حکام کے اجلاس میں شرکت کر کے واضح کیا ہے کہ ترقی کے لئے استحکام اور امن ضروری ہوتا ہے۔
اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ تمام اختلافات کے باوجود حکومتی اور جملہ اپوزیشن اراکین نے بشمول تحریک انصاف نے اس میں شرکت کی اور چین کو باور کرایا کہ سی پیک کے مسئلہ پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس لئے یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتیں بظاہر ایک دوسرے کی مخالف اور دشمن ہیں لیکن جب انہیں حکم ملتا ہے تو وہ سر خم تسلیم کرتی ہیں۔اگر دیکھا جائے تو ہر طرف ایک منافقت نظر آتی ہے مثال کے طور پر پی ٹی آئی پختونخواہ میں برسراقتدار ہے وزیراعلیٰ ہر اجلاس میں شرکت کرتا ہے لیکن پشاور جا کر اس کے تیور بدل جاتے ہیں اور وہ دھمکیوں پر اتر آتا ہے۔پیپلزپارٹی کو دیکھئے اس کے ووٹوں کی وجہ سے ن لیگ کی حکومت بنی لیکن وہ بجٹ سمیت بعض معاملات پرایسے ری ایکٹ کر رہی ہے جیسے اس روسیاہی میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔حالانکہ موجودہ ڈیجیٹل دور میں عوام ہمیشہ سے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں اور وہ سیاسی رہنماؤں کی تمام چالوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اس سلسلے میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن مجبوریاں بہت ہیں یہ جو دہشت گردی ہے یہ ضیاءالحق کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ اس کی وجہ ریاست کی غلط پالیسیاں ہیں۔ضیاءالحق نے ریاست کی سمت بدل کر اسے جنونی بنا دیا۔فرقہ واریت کو جنم دیا۔کیا جہادی گروپ کیا سپہ صحابہ اور دیگر تنظیمیں اس دور میں قائم ہوئیں۔افغانستان میں جو قتل وغارت گری ہوئی وہ انسانی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ضیاءالحق نے طویل مارشل لاءنافذ کرکے ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا ان کے اقدامات کی وجہ سے آج تک اس ملک میں نہ آئین صحیح معنوں میں نافذ ہو سکا نہ پارلیمنٹ کی کوئی وقعت بنی اور نہ ہی سیاست دانوں کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ رہی۔جنرل مشرف نے ایک بار پھر آئین توڑ کر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی اور ایک نئی مخلوق تخلیق کر دی جو تاحال قائم و دائم ہے۔زرداری کے پہلے دور میں آئین کا حلیہ درست کیا گیا۔18 ویں ترمیم لائی گئی اور طویل عرصہ کے بعد این ایف سی ایوارڈ جاری کیا گیا لیکن بوجوہ یہ تمام معاملات اصلاً و نسلاً لپیٹے جا چکے ہیں ملک میں تمام سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں وحدانی طرز کا نظام نافذ العمل ہے۔18 ویں ترمیم کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جا رہاہے۔امن لانے کےلئے ریاست کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے۔اگر صرف طاقت کے استعمال سے معاملات ٹھیک ہوتے تو کب کا امن قائم ہو چکا ہوتا۔2008سے اب تک کئی آپریشن شروع کئے گئے لیکن کسی کا خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ امن لانے کے لئے سوشیو پولیٹیکل ایجنڈا دینا پڑتا ہے۔طویل عرصہ سے کوئی معاشی ایجنڈا نہیں ہے۔ملک کو ایڈہاک ازم پر چلایا جا رہا ہے۔ صرف ایک چیز کی اجازت ہے جتنا کرپشن کر سکتے ہو کرو۔جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹ لو آپ کی مرضی کہ دبئی میں اربوں ڈالر کی جائیدادیں خریدو یا لندن نیو یارک یا ملائیشیا میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔حالیہ بجٹ کو دیکھئے یہ انتہائی عوام دشمن اور ظالمانہ ہے لیکن جن لوگوں نے بے حساب کرپشن کی ہے انہیں ریلیف دیا گیا ہے۔مقتدرہ نے ایک جعلی اشرافیہ تخلیق کی ہے جو گدھ کی طرح عوام کو نوچ رہی ہے۔لہٰذا کاسمیٹک اقدامات ہائبرڈ انتظامات اور جعلی نظام مسلط کرنے سے ملکی حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔نہ معیشت درست ہو سکتی ہے اور نہ ہی امن قائم ہو سکتا ہے۔جب امن نہیں ہوگا معیشت کیسے ٹھیک ہوسکتی ہے۔نئے آپریشن سے مزید مسائل پیدا ہوں گے اور نئی پیچیدگیاں جنم لیں گی۔اگر زرداری نے امن لانے کا ٹاسک لیا ہے تو یہ بہت ہی مشکل کام ہے اور یہ کامل اختیارات اور اچھی حکمت عملی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔امن کی ذمہ داری زرداری ،میرسرفراز بگٹی اور سید محسن نقوی پر آن پڑی ہے دعا کی جائے کہ خدا خیر کرے۔