حالِ دل

انور ساجدی
میں دلی طور پر معذرت خواہ ہوں کہ این ڈی پی کے زیراہتمام لیاری میں منعقدہ عظیم بلوچ لیڈر نواب خیر بخش کی برسی کی تقریب میں شریک نہ ہوسکا۔این ڈی کے صدر اور نوجوانوں سے معافی کا خواستگار ہوں۔عہد حاضر کے دو اہم رہنماؤں منظور بلوچ اور واجہ عبدالوہاب بلوچ سے بھی معذرت،پروفیسر منظور بلوچ تحریک کے لئے ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئے ہیں اور ان سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔وہ نئی نسل کی درست سمت میں رہنمائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔عبدالوہاب بلوچ نے کراچی میں قیام کے دوران نواب صاحب کے ساتھ کافی وقت گزارا اور ان کی بے شمار یادیں اپنے سینے میں موجود ہیں جو مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔نواب صاحب کی اتنی ہمہ جہت اور ہمہ گیر شخصیت تھی کہ انہیں مختصر ضابطہ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ان کے فرمودات افکار اور کارناموں پر مشتمل کئی کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے۔اس مقصد کے لئے ان کے رفقاءاہم کردار ادا کرسکتے ہیں تاکہ نئی نسل کو نواب صاحب کی ذات ،قربانیوں اور تحریکی جہتوں کے بارے میں مزید آگاہی حاصل ہوسکے۔نواب صاحب کی زندگی میں بتدریج تبدیلیاں آئیں وہ اتنی پختہ شخصیت کے مالک تھے کہ انگریزوں کے قائم کردہ ایلیٹ کلاس کی درسگاہ ایچی سن بھی انہیں اپنے کلچر اور تاریخ سے برگزشتہ نہ کرسکی۔اگر وہ1947ءمیں مری قبیلہ کی سربراہی کر رہے ہوتے تو انہیں بھی جعلی ریفرنڈم میں حصہ لینا پڑتا لیکن وہ اس سے بچ گئے۔1956 کے انتخابات میں انہوں نے سب سے بڑے پشتون نواب محمد خان جوگیزئی کو شکست دی اورلیبجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے یعنی ایم این اے بن گئے۔اس زمانے میں ان کی ترجیحات اور تھیں۔1962 میں وہ ایک بار پھر رکن اسمبلی منتخب ہوگئے۔یہ وہ زمانہ تھا کہ پاکستان کے اخبارات مری اور مینگل کو ماری اور منگل لکھا کرتے تھے۔اگرچہ کافی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن ریاستی میڈیا کا وہی حال ہے۔اگرچہ نواب صاحب نے1958 کے مارشل لاءکی مزاحمت کی تھی لیکن یہ تحریک زیادہ دیر تک نہ چلی۔ایوب خان کے دور میں نواب صاحب صحیح معنوں میں سیاست کی طرف مائل ہوئے۔1969 میں ون یونٹ ٹوٹنے اور صوبوں کے قیام کے بعد وہ نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوگئے۔میر غوث بخش بزنجو ان سے پہلے اس جماعت میں شامل ہوگئے تھے جبکہ نواب صاحب اور سردار عطاءاللہ خان مینگل 1970 کے عام انتخابات سے قبل نیپ میں شامل ہوئے تھے۔انتخابات کے وقت وہ نیپ بلوچستان کے صدر تھے۔انہی کی صدارت کی وجہ سے خان عبدالصمد خان ،خان عبدالولی خان اور باچا خان سے ناراض ہوئے تھے۔ان کا خیال تھا کہ وہ سینئر لیڈر ہیں لہٰذا صدارت پر ان کا حق ہے جبکہ پارٹی قیادت نے ان کی بات نہ مانی۔1970 کے عام انتخابات میں وہ مری بگٹی اور کوئٹہ سے قومی اور کوئٹہ شہر کی ایک نشست پر کھڑے ہوئے۔دونوں نشستوں پر انہیں کامیابی ملی۔یحییٰ خان نے جب عوامی لیگ کو اقتدار کی منتقلی کے بجائے فوجی آپریشن کا راستہ اپنایا تو نیپ کی ہمدردیاں شیخ مجیب کے ساتھ تھیں۔پاکستان دولخت ہونے کے بعد اسمبلیوں کا اجلاس 1972 میں طلب کر لئے گئے۔نواب صاحب نے صوبائی سیٹ چھوڑ دی اور ایم این اے رہنے کا فیصلہ کیا۔حکومت سازی کے وقت ذوالفقار علی بھٹو کی خواہش تھی کہ نواب مری گورنر یا وزیراعلیٰ بن جائیں لیکن انہوں نے عہدہ لینے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں میرغوث بخش بزنجو پہلے سویلین گورنر اور عطاءاللہ خان پہلے منتخب وزیراعلیٰ بن گئے۔نواب صاحب کی اپنی طبیعت اور جداگانہ شخصیت تھی۔وہ جن چند افراد کو ناپسند کرتے تھے ان میں بھٹو سرفہرست تھے۔چنانچہ9 ماہ بعد بھٹو نے نیپ کی وزارت برطرف کر دی جس کے بعد ان رہنماؤں نے ایک عوامی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔نواب صاحب نے کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں پہلے جلسہ سے خطاب کیا جلسہ دوپہر کو بلایا گیا تھا لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی لیکن اپنے ابتدائی کلمات میں نواب صاحب نے کہا کہ جلسہ میں آنے والے تمام لوگوں کا شکریہ لیکن میرا مخاطب صرف بلوچ ہے۔انہوں نے علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال پر تفصیلی روشنی ڈالی اور آخیر میں کہا بھٹو یاد رکھو بلوچستان کا مسئلہ اب تمہارے ہاتھوں سے نکل کر روس اور امریکہ کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔دوسرا جلسہ اگست 1973 میں گجرات میں ہوا جس کا اہتمام چوہدری ظہور الٰہی نے کیا تھا۔اس جلسہ سے سردار صاحب نے خطاب کیا لیکن عوامی رسپانس دیکھ کر بھٹو نے نواب صاحب سردار صاحب اور میر صاحب کو گرفتار کرلیا۔یوں جمہوری راستہ روک کر بھٹو نے انہیں مزاحمت کی طرف موڑ دیا۔گرفتاری کے بعد انہیں مختلف جگہوں میں رکھا گیا جبکہ آخر میں سہالہ کے ریسٹ ہاؤس میں نظربند کیا گیا تاہم 1975 میں پشاور یونیورسٹی میں بم دھماکہ میں گورنر حیات محمد شیر پاؤ کی ہلاکت کے بعد حکومت نے نیپ کو خلاف قانون قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی۔حیدرآباد بنارس کیس کے تحت کئی درجن رہنماؤں کو گرفتار کر کے حیدرآباد جیل منتقل کر دیا گیا یہ کیس آخر تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔ البتہ جیل کے اندر نواب صاحب نے اپنا سرکل قائم کیا جس میں بی ایس او،پی ایس ایف اور دیگر نوجوان شامل تھے وہ میر بزنجو اورسردار صاحب کی نسبت نوجوانوں پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔5جولائی1977 کو مارشل لاءکے نفاذ کے بعد حیدرآباد سازش کیس ختم ہوگیا جبکہ 5 جنوری1978 کو تمام رہنماؤں کو رہا کر دیا گیا۔نواب صاحب شیر و مری اور میر غوث بخش بزنجو بذریعہ ٹرین کوئٹہ پہنچے۔ہزاروں افراد استقبال کے لئے موجود تھے لیکن وہ نواب صاحب زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔نواب صاحب اور بی ایس او کے لیڈر اسلم کرد ایک جلوس کے ہمراہ جناح روڈ آئے جہاں انہوں نے آغا حسین ہزارہ کے دفتر کے باہر خطاب کیا جبکہ میر غوث بخش بزنجو اور میر گل خان نصیر مینگل ہاؤس بروری روڈ چلے گئے۔یوں طویل رفاقت کے بعد نواب صاحب اور میر صاحب کی راہیں جدا ہوگئیں۔البتہ رہائی کے بعد میر صاحب نواب صاحب اور سردار صاحب نے فروری 1978 کو ضیاءالحق سے مشترکہ ملاقات کی تاہم اس کی تفصیلات سامنے نہ آ سکیں۔اگست1978 کو دوسری ملاقات گورنر ہاؤس کوئٹہ میں ہوئی۔ملاقات کے بعد تینوں رہنما باہر آئے۔صحافیوں نے میرغوث بخش بزنجو کا رخ کیا لیکن انہوں نے کہا کہ میں نے ساری عمر ترجمانی کا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا ہے جس پر سردار صاحب نے کہا کہ میرے پاس آؤ میں بات کروں گا۔ان سے پوچھا گیا کہ ضیاءالحق سے کیا بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ملاقات ایک گھنٹہ رہی کچھ ہم نے حال دل سنایا کچھ کچھ انہوں نے حال دل بتایا۔ہم نے کوک کی ایک ایک بوتل پی اور ملاقات ختم ہوگئی۔گویا یہ ملاقات کی ناکامی کا اعلان تھا۔ اختلاف کس بات پر تھا یہ ہنوز ایک راز ہے ۔کچھ عرصہ بعد سردار صاحب لندن چلے گئے اور نواب صاحب نے پیرس کا رخ کیا۔زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ نواب صاحب کے کابل جانے کی اطلاع ملی۔وہ وہاں پر مجاہدین کے قبضہ تک مقیم رہے۔اس دوران انہوں نے مری قبیلہ کے ہزاروں افراد کو افغانستان بلایا تھا تاہم وہاں پر بابو اور نواب صاحب کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے بابو شیرو جلد رخصت ہوگئے۔میر ہزار سرکاری کیمپ میں چلے گئے جبکہ نواب صاحب نے تحریک کو ازسرنو استوار کیا۔ 1990کی دہائی سے اب تک نواب صاحب کا نام ان کی شخصیت ہر جگہ نمایاں ہے اور نوجوان انہیں غیر متنازعہ اور سپریم لیڈر مانتے ہیں۔
نواب صاحب موت کے بعد چلتن کے دامن میں آسودہ خاک ہوئے۔ان کے افکار زندہ ہیں تاہم ان کا مقام مرتبہ اور تحریکی قد کاٹھ تاریخ طے کرے گی جب تک بلوچ کا نام باقی ہے۔نواب صاحب کا نام بھی زندہ اور جاویداں رہے گا۔غیروں کے نزدیک وہ دشمن تھے اور ہمیشہ دشمن رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں