اسلام آباد کو بلوچستان کے وسائل پیارے لگتے ہیں، بلوچ عوام سے کوئی دلچسپی نہیں، ڈاکٹر مالک

لاہور، کوئٹہ (این این آئی) بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نیشنل پارٹی کے سربراہ اور رکن بلوچستان اسمبلی ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا ہے کہ جمہوریت کی بالادستی سے ملک کا مستقبل وابستہ ہے، سیاسی جماعتوں کی کمزوری سے مقتدرہ کو طاقت ملی ہے، سیاسی جماعتوں میں موروثیت موجود ہے، ملک میں جمہوریت کے استحکام کے لئے سیاسی تحرک ضروری ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ سیاسی عمل کو ہمیشہ سیاسی جماعتوں نے مقتدرہ کے ساتھ مل کر نقصان پہنچایا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں جاری دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے دوسرے روز بڑے اجتماع سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کی میزبانی وسعت اللہ خان کررہے تھے۔ اس موقع پر نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل سینیٹر جان بلیدی، ایم این اے پھلین بلوچ اور رجب علی رند سمیت پارٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد کو بلوچستان کے وسائل بڑے پیارے لگتے ہیں لیکن بلوچ عوام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اتنے بڑے ملک و سماج کو بغیر قانون کے نہیں چلایا جاسکتا ہے، پاکستان کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتیں موروثی ہیں، اس موروثیت نے ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا ہے، انہوں نے کہا کہ ملک میں صرف ایک ادارہ مضبوط ہے جسے عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ سے کمزور ادارہ تاریخ میں نہیں دیکھا، اس وقت ملکی آئین خود تحفظ مانگ رہا ہے۔ بلوچستان سمیت ملک بھر میں انتخابات کی منڈی لگائی گئی، خرید وفروخت کی منڈی لگادی گئی تھی۔ مقبول عوامی رہنماﺅں کو پارلیمنٹ سے آﺅٹ کرکے اس میں ایسے لوگ لائے گئے جو نہ سیاسی ہیں ناہی ان کا عوام سے کوئی تعلق رہا بھاری رقم کے عوض پارلیمنٹ کی نشستوں کا سودا کیا جو سیاسی تاریخ کا شرم ناک ترین باب ہے۔ ڈاکٹر مالک نے کہا کہ ملک میں جمہوریت کی استحکام کےلیے آئین کی عملدرآمد کویقینی بنایا جائے، سیاسی عمل پر رکاوٹیں نہ ڑالی جائیں سیاسی جماعتوں میں موروثیت ختم کی جائے اور کسی ایک ادارہ کی بالادستی کے بجائے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرکے پارلیمنٹ کے سامنے سب کو جواب دہ بنایا جائے۔ ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے موجودہ حکومت کی بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے بارے میں سوال پر ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ اسلام آباد کا مجموعی مائنڈ سیٹ سیاسی جماعتیں، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ سب بلوچستان کے مسئلے کو سطحی دیکھتے ہیں، بلوچستان کے مسئلے میں سیاسی و معاشی پہلو آپس میں جڑے ہوئے ہیں، سیاسی پہلو میں بلوچستان کے عوام کو ووٹ کا حق حاصل ہو اور رائے دینے کی آزادانہ حق سے محروم نہ رکھا جائے۔ پاکستان ایک وفاقی ملک ہے جہاں مختلف اقوام اپنی جغرافیہ اور ثقافت اور تاریخی پس منظر سے آباد ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک کے سوا کسی قوم کا تشخص قبول نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کچھ ایلیٹ کو نواز کر ہر الیکشن میں انہیں وفاقی پارٹیوں میں ہانکا جاتا ہے اور انہی کے ذریعے بلوچستان میں حکومت بنائی جاتی ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی حل کے بجائے اسٹیٹ جیکل بنیاد پر حل کرنے کی سوچ نے حالات کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ سوئی، سیندک اور ریکوڈک کے ساتھ کیا ہوا چاغی میں آج بھی لوگ پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ وزارت اعلیٰ کے دور میں پارلیمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اور تائید کے ساتھ ہم نے عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت مینڈیٹ کے ساتھ شروع کی مگر 60 فیصد نتیجہ خیز بات چیت کے بعد مقتدرہ کے ایک حلقے نے اس میں رکاوٹ ڈال کر مزاکرات کو ناکام بنا دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں