انوار الحق کاکڑ اور گندم اسکینڈل

تحریر: انور ساجدی
انتخابات1988کے بعد جب مقتدرہ نے نوازشریف کو بے نظیر کے مقابلہ کےلئے میدان میں اتارا تو انہیں”الٹرا پاکستانی نیشنلسٹ“ کا لبادہ اوڑھا دیا ۔ 1990 میں نوازشریف متحدہ اپوزیشن کے جلسوں میں جنرل محمد ضیاءالحق کو ہیرو اور ذوالفقار علی بھٹو کو زیرو قرار دیتے تھے۔ضیاءالحق کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید اور بھٹو کا کیا مقابلہ۔بھٹو غدار تھے اور پاکستان کو دولخت کرنے کے ذمہ دار تھے۔جب بے نظیر وزیراعظم بن گئیں تو نوازشریف نے انہیں غدار اور سیکورٹی رسک قرار دے دیا تھا۔انہوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا کہ بے نظیر نے اپنے وزیرداخلہ چوہدری اعتزاز احسن کے ذریعے سکھ مجاہدین کی فہرست بھارت کے حوالے کر دی ہے یہ زور دار بیانہ اپنانے کے بعد نوازشریف 1990 میں وزیراعظم بن گئے۔ انہیں دوسری بار 1997 میں بھی وزیراعظم بننے کا موقع ملا لیکن ایسے شواہد آنا شروع ہوگئے کہ میاں صاحب کوئی الٹرا نیشنلسٹ نہیں بلکہ اپنے ذاتی کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں۔راولپنڈی تا لاہور موٹروے کے منصوبے کے بعد پہلی مرتبہ ان پر کرپشن کا الزام لگا۔1997 کے جھرلو انتخابات کے بعد رفتہ رفتہ مقتدرہ اور نوازشریف کے درمیان اختلافات شروع ہوگئے جو1999 کے مارشل لاءپر متنج ہوئے۔جنرل پرویز مشرف نے اتفاق فاﺅنڈری سمیت ان کی جائیدادیں ضبط کرلیں لیکن ان کی نظر لندن والی جائیدادوں پر نہیں گئی۔اس بارے میں2013 میں جب میاں صاحب تیسری بار وزیراعظم بن گئے تو غیر ملکی جائیدادوں اور کاروبار کا انکشاف ہونا شروع ہوگیا۔تاوقتیکہ پانامہ اسکینڈل سامنے آگیا۔سپریم کورٹ کے ذریعے نوازشریف کو قید اور تاحیات نااہلی کی سزا ملی جو اب ختم ہوچکی ہے لیکن لاکھ تردید کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ میاں صاحب کی دولت اور اثاثے اربوں ڈالر مالیت کے ہیں یوں ثابت ہوا کہ پاکستان میں کوئی الٹرا نیشنلسٹ لیڈر نہیں ہے۔

جب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے انوارالحق کاکڑ نگراں وزیراعظم مقرر ہوئے تو انہوں نے ایسا پوز کیا کہ ان سے بڑا محب وطن پاکستانی لیڈر آج تک پیدا نہیں ہوا۔وہ جان بوجھ کر بلوچوں اور پشتونوں کے خلاف ایسے بیانات دیتے تھے جیسے کہ ان کا تعلق ان دونوں اقوام سے نہیں ہے۔دراصل وہ بلوچستان میں جاری جنگ کے بینیفشری تھے اس لئے وہ دونوں فریقین کو مشتعل کرنے کا کام کرتے تھے۔اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے اپنی پاک دامنی اور ایمانداری کے بھی بڑے دعوے کئے لیکن کرسی سے اتر جانے کے بعد طرح طرح کی باتیں شروع ہوگئیں۔حال ہی میں جب پاکستان میں گندم کی زائد پیداوار آئی تو عین اسی وقت پتہ چلا کہ نگراں حکومت نے35 لاکھ ٹن گندم باہر سے منگوائی ہے جس کا کوئی مصرف نہیں ہے۔اس اضافی گندم نے ملک کے کسانوں کے لئے بہت بڑا بحران پیدا کر دیا۔حکومت کے پاس خریداری کےلئے رقم موجود نہیں ہے اور کسان دربدر پھر رہے ہیں۔

شہبازحکومت نے جب اس معاملہ کی تحقیقات کا حکم دیا تو پتہ چلا کہ انوارالحق کاکڑ کی منظوری اور وفاقی وزیر گوہراعجاز کی ذاتی دلچسپی سے پرائیویٹ سیٹھوں کو گندم درآمد کرنے کی اجازت دی گئی۔ان سیٹھوں نے ایک ارب ڈالر کی گندم درآمد کی جس کی مالیت پاکستانی کرنسی میں تقریباً3کھرب روپے بنتی ہے۔نگراں حکومت کو علم تھا کہ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضہ کی قسط لینے کے لئے شہبازشریف عالمی رہنماﺅں اور مالیاتی اداروں کے سربراہان کی قدم بوسی سے بھی نہیں چوکے کیونکہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ تھا چونکہ تحقیقات جاری ہے شاید کوئی کمیشن بھی بنے جس کے بعد ہی پتہ چلے گا کہ اس اسکینڈل کے اصل ذمہ دار کون تھے تاہم جو بھی ذمہ دار تھا اصل ذمہ داری سربراہ حکومت پر آتی ہے اور وہ تھے جناب انوارالحق کاکڑ صاحب۔اگر وہ الٹرا پاکستانی نیشنلسٹ تھے تو انہیں ریاست کے مفاد کو مقدم رکھنا چاہیے تھا اگر نہیں تھے تو بے جا دعویٰ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

کوئی دو دن ہوئے انوارالحق کاکڑ اور ن لیگی لیڈر حنیف عباسی کا آمنا سامنا ہوا۔گندم اسکینڈل کو لے کر ان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔حنیف عباسی نے کہا کہ وہ قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے گڑ بڑ کی ہے کاکڑ صاحب نے کہا اچھا تو آپ مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں۔انہوں نے جوابی وار کر کے ن لیگ کو فارم47 کا طعنہ دیا۔انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ اگر ن لیگ کی کامیابی فارم47 کا نتیجہ ہے تو اس کے ذمہ دار بھی کاکڑ صاحب ہیں کیونکہ الیکشن کے وقت ان کی حکومت تھی۔ادھر ن لیگ کے سپریم لیڈر نوازشریف نے بھی گندم اسکینڈل کا نوٹس لیا ہے اور اپنے بھائی شہبازشریف کو طلب کر کے رپورٹ مانگی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ بے کار قسم کی پریکٹس ہے۔آج تک کسی تحقیقات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔سو گندم اسکینڈل کا معاملہ بھی چند ہفتوں بعد ادھر ادھر ہو جائے گا کیونکہ جس نے سیٹھوں سے کمیشن کھایا ہے اس کی کوئی رسید تو موجود نہیں ۔اگر حکومت نے کیس نیب کو دیا تو کون سے شواہد ہیں جو پیش کئے جائیں گے لہٰذادیگر معاملات کی طرح یہ کیس بھی داخل دفتر ہو جائے گا۔البتہ انوارالحق کاکڑ کی نیک نامی پر اگر ہے تو داغ لگ جائے گا۔پاکستان میں سارے لیڈر اور اہم شخصیات کے دامن پر بڑے بڑے داغ ہیں لیکن ان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ تباہ کن معاشی صورتحال کے باوجود ملک کو چلانے والے لوگ اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آ رہے ہیں اور ریاست کو لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔کوئی وقت آئے گا جب ریکوڈک کی نیلامی کا قصہ بھی سامنے آ جائے گا اور پتہ چلے گا کہ اس بہتی گنگا میں کس کس نے ہاتھ دھوئے ہیں۔باالفرض محال اگر انوارالحق کاکڑ نے اپنی طویل مالی مشکلات حل کرنے کے لئے کوئی کوشش کی ہے تو کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ظاہر ہے کہ انہیں وزیراعظم بننے کا ایک موقع ملا تھا جو شاید آخری ہے باقی زندگی گزارنے کے لئے بھی زادراہ چاہیے کیونکہ ان کا کوئی ایسا کاروبار نہیں جس کے ذریعے وہ مناسب زندگی گزارسکیں۔لہٰذا اگر انہوں نے گوہراعجاز کے ذریعے اپنے لئے کوشش کی ہے تو ان کی اس حرکت کو درگزر کرنا چاہیے۔

ن لیگ کی حکومت نے بالآخر اظہار رائے پر پابندی کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔عین اس روز جب آزادی صحافت کادن تھا حکومت نے سوشل میڈیا پر قدغن لگانے کے لئے ایک علیحدہ ادارہ بنایا۔یہی وہ دن تھا جب خضدار پریس کلب کے صدر مولوی صدیق مینگل بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے۔حکومت نے ٹوئٹر یا ایکس پر پہلے سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔اس کا اگلا ہدف یوٹویب، فیس بک،انسٹاگرام اور ٹک ٹاک ہوں گے۔ سخت قوانین کی آڑ میں شروع میں سخت سزائیں دے کر مثال قائم کی جائے گی تاکہ سوشل میڈیا کے کردار خوفزدہ ہو جائیں۔یہ تو معلوم نہیں کہ نئے قوانین کے تحت عالمی ایپس پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے گی یا اس کے قابل اعتراض مندرجات کے خلاف کارروائی کی جائے گی چنانچہ جو عناصر ان اقدامات کے پیچھے سرگرم ہیں ان کا نام تو نہیں آئے گا لیکن ساری ذمہ داری ن لیگ کی حکومت پر آ جائے گی۔اگر قدغن لگائی گئی تو پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوگا جہاں اظہار رائے پر مکمل پابندی ہے جیسے روس،چین، ایران، شمالی کوریا اور سعودی عرب وغیرہ ۔ نئے ظالمانہ قوانین کو صرف عوامی طاقت سے ہی روکا جا سکتا ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ صحافتی تنظیمیں اتنی مضبوط نہیں ہیں کہ وہ عوام کو سڑکوں پر لاکر حکومت کو ان قوانین کی منسوخی پر مجبور کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں