تیزاب

تحریر: انور ساجدی

دو روز قبل تحریک انصاف سے ملاقات کے بعد جب امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم باہر آئے تو ایک اخبار نویس نے ان سے پوچھا کیا امریکہ نے پاکستان سے اڈے مانگے ہیں دوسرا سوال یہ تھا کہ عمران خان کی رہائی کے مسئلہ پر کوئی بات چیت ہوئی ہے کیا امریکہ اس میں کردار اداکرے گا۔سفیر موصوف نے دونوں سوالوں کو جواب دینے سے گریز کیا اور کچھ کہے بغیر آگے بڑھ گئے۔طویل عرصہ کے بعد نہ جانے کیوں امریکی اڈوں کا ذکر چھڑا ہے حالانکہ خلیج کے متعدد ممالک میں اڈے رکھنے کے بعد پاکستان میں اڈوں کی کیا ضرورت ہے۔اگر ایران کو سبق سکھانا ہے تو بحرین، کویت،سعودی عرب اور یو اے ای کے اڈوں سے آسانی کے ساتھ کام چلایا جا سکتا ہے ہاں اگر آبنائے ہرمز کی قریبی نگرانی مقصود ہو تو بلوچستان کا سمندر کام آسکتا ہے۔ویسے پاکستان میں مختلف ادوار میں امریکی اڈے رہے ہیں۔ایوب خان کے دور میں امریکہ کو پشاور کے قریب بڈبیڑ کا اڈہ خفیہ طور پر دیا گیا تھا لیکن سوویت یونین نے امریکی جاسوس طیارہ یو ٹو گراکر اس اڈے اور ایوب خان کی حکومت کا پول کھول دیا تھا۔ جس کے بعد سوویت یونین نے پاکستان پر سرخ نشان لگا دیا تھا۔ایوب خان کے بعد جب سردجنگ عروج پر تھی امریکہ کو فوجی اڈوں کی ضرورت پیش نہیں آئی تاہم 1980 کو روسی افواج کی افغانستان آنے کے بعد امریکہ کو دوبارہ اڈوں کی ضرورت پیش آئی۔عالم اسلام کے عظیم سپہ سالارمرد مومن جنرل ضیاءالحق نے پورے پاکستان کو امریکی اڈے میں تبدیل کر دیا۔اس زمانے میں سی آئی اے کا سب سے بڑا بیرونی اڈہ اسلام آباد تھا۔ امریکہ نے ضیاءالحق کی مدد سے دنیا بھر کے جہادیوں کو پاکستان بھیجا جو افغانستان کے اندر جا گھسے اور انہوں نے امریکی ڈالروں کی مدد سے ایک خون ریز جنگ لڑی۔ امریکہ نے اس جنگ کو جہاد اور اس میں حصہ لینے والے لوگوں کو مجاہد کا نام دیا۔صدر رونالڈ ریگن نے باقاعدہ طورپر وائٹ ہاﺅس میں پاکستانی مجاہدین کے سرغنہ سراج الحق حقانی سے ملاقات کی تھی۔مولانا صاحب اپنے وفد کے ہمراہ پاکستانی پاسپورٹ پر امریکہ گئے تھے۔1990 میں جب سوویت افواج کا انخلاءہوا تو امریکہ ضیاءالحق کو اعتماد میں لئے بغیر واپس چلا گیا۔انہوں نے پیچھے ہزاروں مجاہدین لاکھوں کلاشنکوف اور ہزاروں ٹن ہیروئن چھوڑی۔ان تین عوارض کی وجہ سے پاکستان آہستہ آہستہ ایک ناکام ریاست میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا جوکسر رہ گئی تھی وہ ایک اورگھبرو جنرل پرویز مشرف نے پوری کردی۔نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا تو جنرل مشرف نے پسنی،پنجگور،شمشی اور جیکب آباد کے ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کر دئیے اور خود جنگ کا پارٹنر بن گئے۔پاکستانی حکمرانوں نے بے شک افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں کو جہاد کا نام دیا ہو لیکن امریکہ اپنے طور پر ان جنگوں میں حصہ لینے والے عناصر کو ”مرسنری“ اورکرایہ کا سپاہی ہی سمجھتا تھا کیونکہ اس نے اربوں ڈالر کی ادائیگی کی تھی۔صدر بائیڈن کے دور میں جو امریکہ نے ایک بار پھر اپنی افواج کا انخلاءکیا تو اس وقت پاکستان طالبان کا طرف دار تھا اور وہ چاہتا تھا کہ امریکہ اور نیٹو افواج افغانستان سے نکل جائیں تو طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد اس کی مغربی سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی لیکن پرویز مشرف کی طرح ان کے جانشین جرنیلوں کے فیصلے بھی تباہ کن ثابت ہوئے اور انہوں نے پاکستان کو مزید ناکامیوں کی طرف دھکیل دیا۔ جناب عمران خان کی طالبان نواز پالیسیوں نے جلتی پر تیل کا کام کر دیا۔اگرچہ بیڈ گورننس حکمرانوں کی نااہلی ایک دیرینہ عمل تھا لیکن عمران خان نے حد کردی۔انہوں نے پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک ناکام ریاست میں تبدیل کر دیا۔پہلے باجوہ سر نے2018 کے انتخابات میں زبردست جھرلو پھیرا اور عمران خان کو ناجائز طریقے سے مسلط کر دیا۔2022 میں انہوں نے یوٹرن لیا اور عمران خان کو زرداری اور ن لیگ کے ساتھ مل کر اقتدار سے نکال باہر کیا۔باجوہ سر کے دور میں سپریم کورٹ کے فیصلوں اور احکامات کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔اس وقت کے چیف جسٹس بندیال نے جو بھی فیصلے دئیے مقتدرہ اور پی ڈی ایم ون کی حکومت نے انہیں ہوا میں اڑا دیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا عمل ریزہ ریزہ ہوگیا۔پی ڈی ایم ون کے بعد ایک گماشتہ اور نااہل نگراں حکومت مسلط کی گئی اس حکومت نے تاریخ کے ناکام ترین اور متنازعہ ترین انتخابات کروائے۔تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود عوام نے پی ٹی آئی کو کامیاب کروایا لیکن اوپر کے احکامات کے تحت الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت نے فارم47 کے تحت ن لیگ کو فاتح کروا دیا۔ان انتخابات کی حیثیت کیا تھی؟ چند روز قبل جب ن لیگی رہنما حنیف عباسی اور انوارالحق کاکڑ کے درمیان گندم اسکینڈل کو لے کر جھڑپ ہوئی تو سابق نگراں وزیراعظم نے طعنہ دیا کہ اگر فارم47 کا قصہ کھل گیا تو ن لیگی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔

ایسے وقت میں جب پاکستان پائی پائی کو محتاج ہے نگراں حکومت نے ناکارہ اور دیمک زدہ گندم منگوانے پر ایک ارب ڈالر جھونک دئیے۔نہ صرف یہ بلکہ شہبازحکومت نے بھی جلد بازی میں ایک کھرب مالیت کی گندم درآمد کی جو کسی کام کی نہیں۔اس عمل کو کیا نام دیا جا سکتا ہے۔غلط پالیسی،بیڈ گورننس یا رشوت کا بندوبست کرنا اس اسکینڈل کے بعد سعودی عرب سے سرمایہ کاری کی بات چیت چل رہی ہے۔اب کے بار سعودی حکومت نے گھنٹی اپنے گلے سے اتار کر اپنے سرمایہ داروں کے گلے میں باندھ دی ہے۔پرائیویٹ سرمایہ کار پاگل تو نہیں کہ وہ پاکستان کے موجودہ ماحول میں اپنے اربوں ڈالر جھونک دیں۔پہلے حکمرانوں نے نوید سنائی تھی کہ سعودی عرب ریکوڈک پر25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔اب کہا جارہا ہے کہ10سال میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔اس سے کہیں زیادہ67 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری تو چین نے کی ہے۔اس کا کیا فائدہ ہوا۔دو تین سڑکوں اور ناقص بجلی گھروں کی تعمیر کے سوا پاکستانی حکمرانوں نے اس خطیر رقم سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔چین نے گزشتہ روز اپنے قرض دار ممالک کی فہرست شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان سب سے بڑا قرض دار ملک ہے جس پر چینی حکومت کے 26 ارب ڈالر کا قرضہ ہے جبکہ سی پیک کے قرضے الگ ہیں۔اگر کبھی اختلاف پیدا ہوا اور چین نے قرضے واپس مانگ لئے تو ان کی کہاں سے واپسی ہوگی؟ پاکستانی حکمران اس وقت تین کشتیوں میں سوار ہیں۔ایک طرف وہ چین کو مائی باپ قرار دے رہے ہیں ساتھ میں امریکہ سے بھی یاری نبھا رہے ہیں۔سعودی عرب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی توقع بھی لگائے بیٹھے ہیں جبکہ ایران کو خوش کرنے کی ناکام کوشش بھی کر رہے ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ سعودی سرمایہ کاری کی آڑ میں امریکہ کوئی کھیل کھیلے اگر اس نے بلوچ ساحل پر کوئی ریفائنری لگائی تو چین اور ایران اسے پسندیدگی کی نگاہوں سے نہیں دیکھیں گے اگر کسی منصوبے میں امریکہ شامل ہوگیا تو سب کچھ مشکوک ہو جائے گا۔پاکستانی منصوبہ ساز کیا چاہتے ہیں عام لوگ اس سے آگاہ نہیں ہیں لیکن ایک بات سمجھنے کی ہے کہ خطہ کے تین متحارب طاقتوں کو بیک وقت کیسے خوش اور مطمئن کیا جاسکتا ہے۔

یہ جو صورتحال ہے اس سے پاکستانی حکمران سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہر جماعت کے اندر اختلاف اور رسہ کشی ہے۔مثال کے طور پر بڑے بھائی نوازشریف چھوٹے بھائی شہبازشریف کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے کھینچ رہے ہیں۔تحریک انصاف کے اندر تو روز دھینگا مشتی ہو رہی ہے۔خود حکمران اوپر نیچے تک دست و گریباں ہیں۔کہیں پر بھی کوئی ہم آہنگی نہیں ہے۔آئینی ادارے ایک بیج پر نہیں ہیں۔مقننہ برائے نام ہے۔ بیوروکریسی کسی کے کنٹرول میں نہیں ہے۔اوپر سے مالی معاملات حد درجہ خراب ہیںاگر ان حالات کو بروقت کنٹرول نہیں کیا گیا تو جاری عشرہ انتہائی مشکلات کا باعث بنے گا۔ریاست کے تمام اثاثے اونے پونے بیچنے پڑیں گے اور پھر نوبت یہاں تک پہنچ سکتی ہے کہ عالمی برادری یہ مطالبہ کر سکتی ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثے تلف کر دے۔دفاعی اخراجات میں کمی لانے کا مطالبہ بھی زور پکڑ سکتا ہے۔آخر کب تک آمدنی چونی اور خرچہ پانچ روپے والا معاملہ چلے گا۔

میرآصف علی زرداری کوئٹہ کے دورے پر پہنچے ہیں۔ان کی نظر بلوچستان کی زمینوں ،معدنی وسائل اور ساحلی پٹی پر مرکوزہے۔اللہ جانے ان کے دل کے اندر کیا بات ہے؟اہل بلوچستان کے لئے تو ہر طرف سے خسارہ ہی خسارہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں