جوبائیڈن گوانتانا موبے جیل بند کرنا چاہتے ہیں

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ا مریکی صدر جو بائیڈن چاہتے ہیں گوانتانا مو بے جیل اپنی مدت صدارت کے آخری دنوں میں بند کر دیں اور یقینا وہ ایسا کرکے رہیں گے۔سابق صدر باراک اوبامہ نے اس جیل کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن انتظامی مشکلات کے باعث وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔یہ جیل 2001میں نیو یارک اور واشنگٹن پر فضائی حملوں کے بعد قائم کی گئی تھی تاکہ اس جیل میں ان خطرناک جنگجوؤں کر رکھا جائے جو امریکی دو شہروں پر حملوں کی منصوبہ بندی، اور تربیت کے ذمہ دارسمجھے گئے تھے۔ان حملوں کی ذمہ داری القائدہ پر ڈالی گئی اور القائدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو امریکہ نے اپنا دشمن نمبر ایک قرار دے دیا۔ان کے تعاقب میں امریکہ نے افغانستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچانے کا واشگاف اعلان کرتے ہوئے نیٹو افواج کی معیت میں افغانستان پر حملہ کر دیا۔پاکستان کو آج تک یہ طعنہ دیا جاتا ہے ایک ٹیلی فون کال پر امریکی شرائط تسلیم کر لیں،کیوں کہ ٹیلی فون کال میں میڈیا رپورٹس کے مطابق صرف یہ پوچھا گیا تھا کہ تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے دشمنوں کے ساتھ؟پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینابہتر جانا۔ اور امریکہ نے(پاکستان سمیت) دنیا بھر سے ان مجاہدین کو انسانیت کا دشمن قرار دے کر گرفتا کرنا شروع کردیا اور بیشتر کو گرفتاربھی کر لیاجنہیں کل تک افغانستان میں روسی افواج کے خلاف استعمال کرتے ہوئے امریکہ”ہیرو“ کہاکرتا تھا اور امریکی صدر ان سے ملاقات کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ان قیدیوں کے لئے خصوصی جیل ”گوانتانا مو بے“ تعمیر کی گئی۔ جیل میں قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے،جب یہ اطلاعات دنیا تک پہنچیں تو عالمی پیمانے پرجیل میں روا رکھے گئے غیر انسانی سلوک اور مسلمہ انسانی حقوق کی پامالی پر امریکہ کی مذمت کی جانے لگی تب سے انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بدنام زمانہ جیل کی بندش کا مطالبہ کر رہی ہیں۔واضح رہے کہ امریکی تھنک ٹینکس کو افغانستان پر حملہ کرتے وقت ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا ہوگا کہ وہ ایک ایسی کھائی میں چھلانگ لگانے کا فیصلہ کر رہے ہیں جہاں سے ذلت اور رسوائی کے ساتھ اپنے اور نیٹو کے ہلاک فوجیوں کے تابوت اور زندگی بھرکے لئے معذور ہونے والے زخمیوں کی بڑی تعداد بھی اپنے اپنے ملکوں میں پہنچائیں گے۔امریکی تھنک ٹینکس کو صرف یہ معلوم تھا کہ شلوار قمیض میں ملبوس طالبان سائیکل پر طیارہ شکن میزائل لے جا رہے ہیں جو امریکہ نے انہیں روسی طیارے گرانے کے لئے تحفتایا گرانٹ کے طور پر دیئے تھے۔تھنک ٹینکس میں شامل افراد یہ حقیقت بھول گئے تھے کہ جو قوم اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے لڑتی ہے اس کے جوانوں کی رگوں میں اپنے مادر وطن کے دفاع کا مقدس جذبہ توانائی بن کر دوڑتا ہے، اس کے برعکس ہزاروں میل دور سے اسلحے کے بوجھ تلے دبے، غاصبانہ عزائم کے ساتھ پہنچنے والے فوجی، جن کے تعاقب میں ہر وقت موت ہو، برابر نہیں ہوسکتے۔جو جوان اپنے قدموں کی چاپ اور اپنے سائے سے بھی خوفزدہ ہوں،صرف فر فر انگلش، جرمن،اور فرانسیسی زبان بولنے کی وجہ سے فتحمند نہیں ہو سکتے۔اور تاریخ نے ویت نام کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شرمناک شکست سے دوچار کرکے کہ ایک بار پھر پیغام دیاہے کہ غاصبانہ عزائم کے ساتھ دنیا کے کسی بھی ملک پر جنگ مسلط کروگے،یہی نتیجہ نکلے گا اب یہ فیصلہ کرنا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل بیٹھ کر غیر ملکیوں سے گلوخلاصی کا کوئی راستہ نکالیں۔یہ درست ہے کہ انہیں ایک غیر متوقع صورت حال کا سامنا ہے۔انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ امریکہ پر یہ برا وقت بھی آسکتا ہے۔انہیں اگر ذراسا بھی علم ہوتاکہ تاریخ امریکہ کو دنیا کی واحد عالمی طاقت کے ٹائیٹل سے محروم کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے تو وہ متبادل راستے کے بارے میں اپنے ذہنوں میں تھوڑی بہت گنجائش ضرور رکھتے۔ادھر بھارت کے پاس بھی ماضی والے تمغے نہیں رہے، چینی افواج نے 5اگست 2020کوایک گولی فائر کئے بغیرلائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی) نہ صرف عبور کر لی بلکہ انہوں نے بھارت کو بھی خبردار کردیا تھا کہ اگر پہلی گولی فائر کرنے کی غلطی کی تو دوسری گولی فائر کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔بھارت نے حالات کی سنگینی کے پیش نظر کسی مہم جوئی سے گریز کیا۔اس کے 6ماہ بعد ہی،فروری 2021کے پہلے ہفتے میں عالمی میڈیا کے ذریعے بھارتی حکومت کی جانب سے یہ اطلاع دی گئی ہے کہ چین اور بھارت کی افواج ایل اے سی کی پرانی پوزیشن پر چلی گئی ہیں اور متنازعہ لداخ کی حیثیت اب”مین آف نولینڈ“ جیسی ہوگی۔ سمجھدارلوگ اس محتاظ زبان سے حتمی سیاسی معنے با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور ان کے رفقاء کے لئے دہلی مناسب قیام گاہ ہو سکتی تھی۔پاکستان بھی بعض کی مہمانداری کر لیتا مگر اب کے حالات حددرجہ بدلے ہوئے ہیں۔پھونک پھونک کر قدم اٹھانے والا معاملہ درپیش ہے۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی بیجنگ میں اعلان کر رہی ہیں کہ امریکی صدرجو بائیڈن اپنے اقتدار کی مدت ختم ہونے سے پہلے رسوائے زمانہ گوانتانا مو بے جیل بند کر دیں گے۔واضح رہے افغانستان میں مطلوبہ اطمینان بخش امن تاحال قائم نہیں ہوسکا، حالیہ کابل دھماکے میں تباہ ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 500کے لگ بھگ بتائی گئی ہے، جبکہ آگ کی شدت پر قابو پانے کے لئے ایرانی فائر ٹینڈرز نے بھی مدد کی ہے۔کنڈ، قندھاراور جلال آباد میں بھی دھماکے ہوئے، جن میں پولیس کمانڈر سمیت5ہلاک اور20زخمی ہوئے ہیں۔گویا حالات ابتر ہیں۔حکومت اگر امریکہ سے معاہدہ کرنے والے طالبان سے مل کر کوئی راستہ نکال سکتی ہے تو مزید تاخیر نہ کی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں